Monday, 9 July 2018

Swabi gohati cricket ground and imran khan

🔹🔹🔹🔹Attention Please!!!🔹🔹🔹
Imran Khan is Coming to Swabi, Most Wel Come. But they are doing there Jalsa on GOHATI CRICKET GROUND, Which is Not acceptable. A PCB  Senior Trophy INTER-District Match will be Playing on Gohati Ground that Day. He himself is a Champion Player & Know How Important these Kind of  Matches for a Young Boy is.So Please a Small Request to the Imran Khan Party That Move your Jalsa to some Other Place. We Don’t want a Political activity to Interrupt these Important Cricket Matches.i am sure imran khan will understand better than us

Pakistan Chinese friendship long live Historic day

#China - #Pakistan take their Strategic Partnership to #Space: China launched two satellites for Pakistan in northwest China. The PRSS-1 will be used for land and resources surveying, monitoring of natural disasters and agriculture research.historic day for both country, long live China Pakistan friendship.
..........................
Pakistan zinda abad
Long live china

کشمیر کی آزادی ایک خواب

اور کتنا ظلم ۔۔۔۔۔۔ اور کتنی بربریت۔۔۔۔۔۔!!!!
 ظلم و ستم کا شکار مظلوم کشمیریوں کی مدد کیلئے کوئی نہیں، ۔

لہو میں ڈوبے ہوئی کشمیر کی صدا  لہو رُلاتی ہے.......!! بلبلوں کی نغمگی سسکیوں میں کھو گئ ۔۔۔کشمیر کا حسن بارود کی نزر ہو گیا۔۔۔۔۔۔کشمیری بیٹیوں کو  تتلیاں پکڑنے کی عمر میں پتھر اٹھانے پڑے ۔۔خواب دیکھنے والی آنکھیں بینائی سے محروم ہوئیں۔۔۔۔ قلم کی عمر میں بندوق تھامنی پڑی۔۔۔۔۔۔ اور نوجوانوں کی  کامیابیوں پہ پہنے جانے والے  گلاب  کے ہار ۔۔۔  شہدا کی قبروں کی زینت بنے ۔۔۔۔۔!!!!
اور کتنا ظلم ۔۔۔۔۔۔ اور کتنی بربریت۔۔۔۔۔۔!!!!
سیکولر بھارت اور کتنی انتہا پسندی اور ہٹ دھرمی دکھاۓ گا ۔۔۔۔۔۔۔ !!!
 یہ آزادی کی جدوجہد ہے ۔۔۔۔اتنے سالوں سے یہ سر کٹتے ہیں مگر جھکتے نہیں ۔۔۔ بھارت کا ظلم سہتے ہیں مگر آزادی کا نعرہ نہیں  چھوڑتے ۔۔۔۔!!! تو بھارت کو معلوم ہو جانا چاہیئے کے یہ ظلم کی انتہائیں ہمارے عزم و حوصلے کو پست نہیں کر سکتیں۔۔۔۔  ہر شہید کے ساتھ یہ  عزم اور بلند ہوتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔
یہ سر نہ کبھی جھکیے ہیں نہ جھکیں گے۔۔۔۔
آزادی کے ترانے نہ کبھی کم ہوۓ ہیں نہ ہونگے۔۔۔۔
 کیا بھارت سمجھا تھا کے وہ برہان وانی کو شہید کرۓ گا تو وہ اس آزادی کی تحریک کو دبا دے گا ۔۔۔ کیا بھارت سمجھا تھا کے ہم شہیدوں کا لہو بھلا دیں گے ۔۔۔۔۔۔ نہیں ہر گز نہیں ۔۔۔۔۔۔ ہمیں یاد ہیں اپنے شہید بھی اور غازی بھی ۔۔۔ ہیں یاد ہے کشمیر کی جلتی وای ۔۔۔۔۔
ہمیں یاد ہیں ماوں کی سسکیاں۔۔۔۔ بہنوں کی آوازیں۔۔۔۔۔
ہمیں یاد ہے یسین ملک کی تکلیفیں۔۔۔ ہمیں یاد ہیں  ظلم کی سب داستانیں۔۔۔۔۔۔ ہم اک پل بھی نہیں بھولے ۔۔۔ اک لمحہ بھی غافل نہیں رہے ۔۔۔۔۔ ہم کشمیریوں کے ساتھ ہیں ۔ اور ساتھ رہیں گے ۔۔۔۔
ہم کبھی نہ تھیکیں گے نہ ہار مانیں گے۔۔۔۔۔۔ بھارت کو کشمر سے نکلنا پڑے گا۔۔۔اسے اپنی ہٹ دھرمی چھوڑنی ہوگی ۔۔۔۔۔
ان شااللہ  اس اندھیری رات کا خاتمہ ہو گا۔۔۔۔ سحر ہو گی ۔۔۔ اور ہم مکمل ہونگے ۔۔۔۔۔۔
 سلام آزادی کے متوالوں پہ ۔۔۔۔۔!!! ۔ سلام برہان وانی پہ ۔۔۔۔ سلام ہر شہید ہرغازی پہ ۔۔۔  اللہ ہماری مدد فرماۓ۔۔ آمین ۔

Pakistan Turkey friendship

>> Pakistan Turkey 🇵🇰🇹🇷 to jointly build stealth corvettes with indigenous missile delivery System. Pakistan Navy Sign the #contract for 4 Ada class Milgem stealth corvettes.Those corvettes will be equipped with surface to air, a Surface to Surface Anti Ship and Coastal Attack Cruise Missiles.
As per the technology transfer agreement, the first two ships will be built at Istanbul Navy Shipyard and delivered to Pakistan. Rest of the ships will be built in Karachi Shipyard. The missile system will be installed on all 4 warships in Pakistan.............Turkey is very establish country, and other hand Pakistan is best friendship with Turkey, these two countries Pakistan and Turkey is hope of all Muslims...
Pakistan
Zinda abad❤❤❤❤❤❤❤❤

اوریا مقبول جان صاحب اور اس کے کچھ اھم بیانات پر اظہار خیال

سیاسی ملاؤوں پر میری رائے کی اس سے بہتر ترجمانیاوری نہیں ہوسکتی۔ جس کے لیے آج اتنی مغز ماری کی تھی ۔۔۔  :)

زوہیب زیبی صاحب کی تحریر اور اوریا مقبول جان صاحب کی گفتگو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

--------------------------------۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اوریا مقبول جان صاحب کا کردار

کچھ عرصہ سے جناب اوریا مقبول جان صاحب کی جانب سے، الیکشن و جمہوریت ، مذہبی سیاسی جماعتوں کی مخالفت اور PTI کی حمایت وغیرہ کے بارے میں ان کے مؤقف پر کافی مخالفت ہوتی رہی۔۔ اکثر احباب کے نزدیک ان کے مؤقفات میں قدرے تضاد اور اضطراب تھا۔
ایک وٹس ایپ گروپ میں اس حوالے سے اوریا صاحب کے ساتھ جماعت اسلامی کے کارکنان و دیگر مذہبی افراد کے درمیان چیٹ کی صورت مکالمہ ہوا۔
میرے نزدیک یہ ایک اہم مکالمہ ہے جس سے ان کا مؤقف نہایت وضاحت کے ساتھ سامنے آتا ہے نیز الجھے معاملات پر سلجھے انداز میں روشنی بھی پڑتی ہے۔کافی دن سے یہ مکالمہ اپ کی خدمت میں پیش کرنا چاہتا تھا لیکن میسجز کے ساتھ درج نمبرز مٹانے کےلیے وقت اور موقع نہ مل سکنے کے سبب یہ کام ملتوی ہوتا رہا۔

اس مکالمے میں اوریا صاحب پر کیے گئے طنز و اعتراضات نیز اوریا صاحب کی طرف سے ان کے جوابات پیش خدمت ہیں ؛

(((( ٭ اعتراضات ٭ ))))

[01/05, 1:20 p.m.] ‬: آج کل اوریا صاحب تحریک انصاف کے حق میں لکھ اور بول رہے ہیں . جبکہ جمہوریت کفر ہے .‬
[01/05, 1:23 p.m.] ‬: جمہوریت صرف مذہبی جماعتوں کے لیے کُفر ہے باقیوں کے لیے نہیں باقی خلافت بھی لا سکتے ہیں‬
[01/05, 1:23 p.m.]: جب امیرالمومنین کی تمام تر صفات رکھنے والا کوئی شخص امت میں آن وارد ہو تو کفر کے احکامات ساقط ہو جاتے ہیں.. سود خور جماعت کے منافق لوگ ان باتوں کو نہیں سمجھ سکتے
[01/05, 1:47 p.m.] پاکستان کی مذہبی جماعتیں تو منافق ہیں، سود خور ہیں، حرام و کفر جمہوریت کو مانتی ہیں
[01/05, 2:09 p.m.]: دو دن پہلے اوریا صاحب کا پروگرام سنیں اس میں ثابت کیا ہے انہوں نے.ایڈمن کی جانب سے مزید میسجز کرنے سے منع کیا ہے، لہذا میرا یہ آخری میسج ہے
[01/05, 9:11 p.m.] ‬: میں یہ چاہتا ہوں کہ ساتھیوں کے ذہنوں میں جو سوالات آتے ہیں اوریا صاحب کے پروگرامات یا کالم کے متعلق ان سوالات کا خود اوریا صاحب جواب دیں کیونکہ یہ سب لوگ اوریا. صاحب کے چاہنے والے ہیں , لوگ جب سوال اٹھاتے ہیں تو انکو جواب دینے میں آسانی ہو‬
[01/05, 9:12 p.m.] ‬: آج کل فیس بک پر سب سے اہم سوال یہ اٹھایا جا رہا ہے کہ اوریا صاحب جمہوریت کو غیر اسلامی کہتے ہیں جبکہ تحریک انصاف کی تعریفیں کرتے ہیں جبکہ انکی کوئی ایک بھی حرکت اسلامی نہیں‬
[01/05, 9:12 p.m.] ‪‬: اور مذہبی جماعتوں کو دو دن پہلے سود خور بھی کہا‬‬‬
[01/05, 9:12 p.m.] ‪ ‬: ان تمام تضادات کی سمجھ نہیں آئی‬‬‬

((((((((# اوریا صاحب کے جوابات #))))))

[02/05, 1:38 p.m.] OryaMaqbool W: مجھے کسی سیاسی پارٹی سے کوئی گلا نہیں کیونکہ وہ تو سود کے خلاف مہم کا حصہ نہیں ، وہ جو چاہیں کریں ، لیکن آپ اللہ اور اس کے رسول کی دعوت لے کر اٹھے ہو ، میں آپ پر سوال کروں گا کیونکہ آپ کے غلط فعل سے لوگ دین سے متنفر ہوتے ۔ آپ کی حرکتوں کی وجہ سے اسلام کو گالی پڑتی ہے ۔
[02/05, 1:41 p.m.] OryaMaqbool W: کیا آپ نے مولانا فضل الرحمان سے اتحاد سے پہلے سوال کیا اس کے تمام وزراء بلوچستان میں وہی کچھ تیس سال سے کر رہے ہیں جو زرداری اور نواز شریف کرتے ہیں۔انہوں نے ایک سطر اسلامی قانون کی منظور کروائی ہو؟
[02/05, 1:49 p.m.] OryaMaqbool W: جمعیت کا مسلسل وزیر خزانہ بلوچستان میں رہا مولانا عصمت اللہ، سرحد میں سراج الحق صاحب ، نے کیا کیا سود کے متعلق؟؟۔میں جب ڈپٹی سیکرٹری فنانس تھا تجویز دی تھی کہ ایک حکم نامہ جاری کریں کہ سرکاری سرمایہ روزانہ کی بنیاد پر نکال کر سرکاری ٹریژری میں رکھا جائے جو انگریز کے زمانے سے ہر ڈسٹرکٹ میں گارڈ سمیت موجود ہے لیکن سب چپ رہے ، اب کس منہ سے سود کے خلاف باتیں کرتے ہو؟ کالم میں لکھ کر مشورہ دیا کہ خدا کیلئے وزارت خزانہ نہ لینا آپ براہ راست سودی معاملات میں ملوث ہو جاؤ گے لیکن سراج الق صاحب ایک نہ سنی ۔اپنے اعمال پر الللہ کو خود جواب دیں گے
[02/05, 1:51 p.m.] OryaMaqbool W: آپ میں اور دیگر مغربی جمہوری پارٹیوں میں کوئی فرق نہیں رہ گیا ہے وہ طاغوت ہیں آپ ان کے اتحادی ۔ اللہ مجھے معاف کرئے اگر میں نے غلط بات کی ہو
(یہاں اوریا صاحب نے ایک خبر کا امیج اپلوڈ کیا جس میں مولانا فضل الرحمٰن صاحب کا بیان تھا کہ ہمارے مقابلے پر امیدوار کھڑے کرنا گناہ ہے۔اس پر یہ کہا)
[02/05, 1:55 p.m.] OryaMaqbool W: یہ کس آیت اور حدیث کے مطابق فتوی ہے ۔ ابھی بھی وقت ہے ان منافقوں سے جماعت اسلامی علیحدہ ہو جائے ورنہ ختم ہو جئے گی
[02/05, 1:59 p.m.] OryaMaqbool W: آپ کو اللہ نے خالص دین پہنچانے کہ ذمہ داری سونپی ہے ۔ انقلاب لانا نہ آپ کی ذمہ داری تھی نہ کسی رسول کی ۔ آپ پیغام درست اور صاف صاف پہنچائیں چاہے کوئی بھی ناراض ہو ۔اس ہارنے میں بھی عظمت ہو گی
٭ اعتراض
[02/05, 1:59 p.m.] ‬: اوریا صاحب آپ آج کل تحریک انصاف کے حق میں لکھ اور بول رہے ہیں . جبکہ جمہوریت کفر ہے کیا اس کا اوپر سے آرڈر آیا ہے۔۔۔۔؟؟؟‬
# جواب؛
[02/05, 1:59 p.m.] OryaMaqbool W: کہاں لکھا اور بولا ہے
[02/05, 2:00 p.m.] OryaMaqbool W: بغیر ریفرینس بات نہ کریں
[02/05, 2:01 p.m.] OryaMaqbool W: میں زرداری نواز شریف اور مولانا فضل الرحمان کو ایک جیسا مجرم سمجھتا ہوں
[02/05, 2:01 p.m.] OryaMaqbool W: ان کے جرم نہیں چھپا سکتا
[02/05, 2:02 p.m.] OryaMaqbool W: جمہوریت کو کفر مولانا مودودی بھی کہتے تھے
[02/05, 2:03 p.m.] تو کیا پھر جمہوریت صرف مذہبی جماعتوں کے کے لئے کفر ہے۔۔۔۔؟؟؟‬
[02/05, 2:04 p.m.] OryaMaqbool W: ہاں اس لئے کے باقی تو سیکولر ہیں ، ان کا ایمان کفر سے کیا تعلق؟
[02/05, 2:05 p.m.] ‪‬: بھائی کا ایک سوال تھا آپ ذرا اسکا بھی جواب دے دیں‬‬‬
[02/05, 2:05 p.m.] ‬: آج کل فیس بک پر سب سے اہم سوال یہ اٹھایا جا رہا ہے کہ اوریا صاحب جمہوریت کو غیر اسلامی کہتے ہیں جبکہ تحریک انصاف کی تعریفیں کرتے ہیں جبکہ انکی کوئی ایک بھی حرکت اسلامی نہیں‬
[02/05, 2:06 p.m.] OryaMaqbool W: ریفرینس دو بھائی
[02/05, 2:06 p.m.]: اور مذہبی جماعتوں کو دو دن پہلے سود خور بھی کہا‬
[02/05, 2:07 p.m.] OryaMaqbool W: کہاں کہا ہے میں نے باقی پارٹیوں کی برائی کی ہے بس
[02/05, 2:07 p.m.] ‪‬: بھلی بات کہی آپ نے۔ ہم جو لوگ عام فہم ہیں مگر اقامت دین کی مخنت کے جذبات سے سرشار ہیں۔ ان کو تو بند گلی میں لا کھڑا کیا گیا۔ ہم کہاں جائیں‬؟‬‬
[02/05, 2:08 p.m.] OryaMaqbool W: کیا رسول اکرم اور صحابہ الیکشن لڑتے تھے ، وہ تو بند گلی میں نہیں آئے
[02/05, 2:10 p.m.] ‬: اب جب اس کھیل کے بنا چارہ ہی نہیں ۔ تو اب کیا حکمت عملی اپنائی جا سکتی ہے ۔‬
[02/05, 2:12 p.m.] OryaMaqbool W: میں نے کل منصورہ مسجد میں ظہر کی نماز پڑھی ، ہر کوئی میرے پاس آکر گلہ کررہا تھا اور مسجد میں کہہ رہا تھا کہ آپ سمجھائیں انہوں نے کیوں فضل الرحمان جیسے منافق سے اتحاد کیا ہے
[02/05, 2:14 p.m.] ‬: اوریا صا حب تیر کمان سے نکل چکا ہے۔‬
[02/05, 2:15 p.m.] OryaMaqbool W: اگر آپ حق بیان نہیں کرتے تو روز حشر اللہ کو جوابدہ ہوں گے خواہ تیر کمان سے نکل چکا ہو
[02/05, 2:15 p.m.] ‬: جما عت کے اندر بھی تحفظات ہیں لیکن قیادت کا فیصلہ ہمیں سر تسلیم خم کرنا چاہئے۔‬
[02/05, 10:58 p.m.] ‪‬: آج کی ساری بحث کو پڑھنے کے بعد میں جس نتیجے پر پہنچا ہوں وہ یہ ہے کہ ہمارے سوشل میڈیا کے لوگوں کا مزاج بن گیا ہے کہ ہر بات کا دفاع کرنا ہے جو جماعت کے خلاف ہو جبکہ یہ اسلام اور مولانا کی فکر کے خلاف ہے۔‬‬‬
دوسری بات جو اوریا صاحب نے جماعتوں کے خلاف کی ہے وہ بلکل ٹھیک ہے جو اسلام کی دعوت لے کر نکلنے والے ہوں ان کو چھوٹے چھوٹے سہاروں پہ آس لگا کہ سود خوروں اور درباری لوگوں کے ساتھ اتحاد کی ضرورت نہیں۔ اور جس فائدے کی توقع لگا کے ہم بیٹھے ہیں اس الیکشن میں سارا چانن ہو جاۓ گا۔
جماعت اسلامی اپنا تشخص ختم کرنے کی طرف بڑھ رہی ہے یہ بات ٹھیک ہے کہ ہم پی ٹی آئی کی مخالفت بھی کرتے ہیں اور انکو سیاست میں کاپی بھی کرتے ہیں۔
[02/05, 11:07 p.m.] OryaMaqbool W: سوشل میڈیا میں جماعت کے حق میں بے شمار جھوٹ بولے گئے ، میں نے نشاندہی کی ، پھر جب کوئی نہ مانا تو چھوڑ دیا
[02/05, 11:07 p.m.] ‪‬: میرے بھائی جب ہم اقامت دین کی بات کرتے ہیں تو اسکا مطلب صرف سیاست نہیں ہے, سیاست اسکا ایک جزو ضرور ہے کل نہیں ہے , سیاست میں ناکامی یا سیاسی چال کی ناکامی اقامت دین کے رستے کی رکاوٹ نہیں ہے ہاں کامیابی ضرور اس کوشش کو پانچویں گیئر میں ڈال سکتی ہے, مجھے حیرت ہوتی ہے پڑھے لکھے لوگوں پر جن کو خود اقامت دین کا ویژن کا کلیئر نہیں ہے , کیا اقامت دین کا داعی چور و کرپٹ ہو گیا , کیا اقامت دین کے داعی نے افراد کی انفرادی تربیت چھوڑ دی, کیا اقامت دین کے داعی نے دعوت و تبلیغ کا کام چھوڑ دیا , کیا اقامت دین کے داعی نے فلاحی کام چھوڑ دیئے, کیا اقامت دین کے داعی نے یتیموں مسکینوں اور بیواؤں کی سرپرستی چھوڑ دی, کیا اقامت دین کا داعی مایوس ہو گھر بیٹھ گیا, ‬‬‬
نہیں میرے بھائیو , اقامت دین کا داعی اپنے پورے وجود, پوری دعوت, پوری حوصلے کیساتھ میدان عمل میں موجود ہے, جس نے داعی نے مندرجہ بالا کام چھوڑ دیئے اس دن ناکامی شروع ہوگی, سیاست کو سیاست رہنے دیجئے, اقامت دین کا صرف ایک راستہ رہنے دیجئے اسے کُل مت بنائیے .
[03/05, 1:58 pm] OryaMaqbool W: اللہ مولانا فضل الرحمان کی صحبت میں جماعت پر رحم کرے ، جتنا نقصان دین کو اس شخص کی سیاست نے پہنچایا ہے کسی سیکولر نے بھی نہیں پہنچایا ، عام لوگ اس کی وجہ سے دین اور مولوی سے متنفر ہوئے
[03/05, 1:59 pm] ‪‬: لیکن مجھے تو لگتا ہے کہ جو اسلام کو گالی دینا چاہتا ہے وہ مولوی کو گالی دے دیتا ہے ,‬‬
[03/05, 2:01 pm] OryaMaqbool W: ایسے مولوی اس گالی کو سچ کر دکھاتے ہیں
[03/05, 2:07 pm] ‬: مولانا فضل الرحمن عمران خان سے بدرجہا بہتر ہیں ان کا نام کسی پانامہ لیکس میں نہیں ان پر کوئی کرپش ثابت نہیں ان کی ٹیم عمران خان سے قدرے بہتر ہے ان پر بھی کرپشن کے الزام نہیں. جہان تک جلسوں کی بات ہے عمران کے جلسے کا ماحول دیکھ لیں اور فضل الرحمن کے دیکھ لیں. لیکن اتنی شدت ناجانے عمران خان سے اتحاد کی دفعہ نہیں دیکھی گئی جتنی شدت مولانا فضل الرحمن صاحب کی دفعہ دیکھی جارہی ہے مولانا فضل الرحمن کم از کم اسلام کا لبادہ اوڑھے ہوے ہے کل کلاں حسبہ بل جیسے بل کی طرح اسکی حمایت ہی کر دے گا سینٹ میں تحریک انصاف کی طرح ختم نبوت کی ترمیم پر خاموش نہیں بیٹھے گا‬
[03/05, 2:08 pm] ‪ ‬: بلکہ سراج الحق کی حمایت کرے گا جیسے حمید اللہ نے کی تھی...‬‬
[03/05, 2:12 pm] ‪ ‬: سراج الحق کا بیان ریکارڈ پر موجود ہے وہ تحریک انصاف کی منت کرتے رہے سینٹ میں کہ وہ ختم نبوت کے حوالے سے ساتھ دیں لیکن انہوں نے ساتھ نہ دیا صرف اگر ساتھ دیا تو جمعیت علمائے اسلام ف کے سینیٹرز نے دیا. فلحال ہم اتنے ہی اسلام پر خوش ہیں جو نہ ہونے سے بہتر ہے‬‬
[03/05, 2:17 pm] OryaMaqbool W: میں نے چوبیس سال بلوچستان میں جمعیت کے وزیروں کی ساتھ گذارے ہیں ۔ میں کبھی ذکر نہیں کرتا کہ اسلام بدنام ہوگا ، یہ لوگ زرداری اور نواز شریف سے زیادہ نہیں تو اتنے کرپٹ اور بد دیانت ضرور ہیں ۔ فضل الرحمان نے تو جب میں سبّی میں تھا ایک سرکاری کول مائن الاٹ کروا رکھی تھی اور وہ جس کام کی رشوت میں ملی تھی میں جانتا ہوں
[03/05, 2:21 pm] OryaMaqbool W: مولانا صاحب نے ایک شخص کو زرداری سے ماربل کے امپورٹ کا پرمٹ لے کر دیا تھا جو غیر قانونی تھی ۔ میں چاغی میں ڈی سی تھا میں نےاجازت نہیں دی وہ روتے ہوئے بولا فضل الرحمان سے میرے پچیس لاکھ واپس کروائیں جو اس نے رشوت میں لئے ہیں
[03/05, 2:26 pm] OryaMaqbool W: آپ اس منافق کو دین کے نام پر اپنے دیو بندی سمیع الحق کے ساتھ اکٹھا کراودیں میں آپکی بیعت کرلوںگا
[03/05, 2:27 pm] OryaMaqbool W: سیاست اور جمہوریت ہی اس کا دین ہے
[03/05, 2:29 pm] OryaMaqbool W: ستر کے ایکشن میں ان کے والد اور مولانا غلام غوث ہزاروی ،مولانا مودودی کو سٹیج پر گالیاں دیتے تھے
[03/05, 2:31 pm] ‪‬: اس وقت موجود حالات میں جماعت اسلامی کے مقابلے میں بہتر جماعت کونسی ہے تاکہ پہلے ہم اس کی حمایت کر لیں؟‬‬
[03/05, 2:32 pm] OryaMaqbool W: پاکستان میں سب سے پہلے جو شخص بکا تھا وہ مفتی محمود تھا ، ایوب خان کو ترمیم کیلئے دو ووٹوں کی ضرورت تھی ایک مفتی محمود اور دوسرے جسٹس افضل چیمہ ۲۵ ہزار فی ووٹ پر بکے تھے
[03/05, 2:33 pm] OryaMaqbool W: حق علیحدہ ہوتا ہے ۔جماعت علیحدہ ہو جائے
[03/05, 2:34 pm] OryaMaqbool W: اکیلے الیکشن لڑے ، جب تک اکیلے تھے پورے ملک میں عزت تھی ، پی این اے کی گالیاں ہم آج تک سن رہے ہیں
[03/05, 2:35 pm] ‪ ‬: پی این اے مولانا مودودی کے ہوتے ہوئے اُن کی مشاورت سے بنی تھی‬‬
[03/05, 2:38 pm] OryaMaqbool W: اس کا نقصان انہوں نے نہیں دیکھا
[03/05, 2:40 pm] OryaMaqbool W: ۱۹۷۰ کے انتخابات کے بعد مولانا مودودی نے دو گھنٹے تقریر کی تھی وہ پڑھیں
اللہ آپ لوگوں کو اپنی انجمن میں خوش رکھے ۔ میں جو حق سمجھا کہہ دیا ۔ آپ سیاست کریں ، آپ کو یہ میدان مبارک ، اللہ حافظ

Monday, 25 June 2018

میں ہوں آئی ایس آئی میں ہوں مارخور کہوٹہ ریسرچ انسٹیٹیوٹ لیبارٹیز کو ایٹم بم بنانے والی فیکٹری کے نام سے ساری دنیا جانتی ھیں۔آپ کو شاید یاد ھو گا کہ چند سال پہلے فرانسیسی اور امریکی سفارتی اہلکار جو کہوٹہ کے نو گو ایریا میں چلے گئے تھے وہ لاپتہ ہو گئے تھے جن کی چند دن بعد لاشیں کہوٹہ سے تھوڈی دور سے برآمد ہوئی تھی ان دونوں ممالک کا کہنا تھا کہ مزکورہ افراد کو پاکستانی خفیہ ایجنسی isi نے مارا ھیں۔ جب تحقیقات شروع کی گئی تو پتہ چلا کہ ان کو بھیٹر بکریاں چرانے والوں نے چور سمجھ کر غلطی سے مار دیا تھا ۔تو دوستو۔۔۔! جن افراد نے ان کو مارا تھا وہ واقعی isi کے مارخور ہی تھے مگر کوئی ثابت نہیں کر سکتا تھا کہ وہ isi کے بندے ھیں یا پھر اصلی چرواہے ہی ھیں دوستو وہاں پر ہمارے گمنام مجاہد مختلف روپ دھارے رکھتے ھیں جو بظاهر تو اپنے معمول کے کاموں میں مصروف رہتے ھیں مگر جونہی کوئی غیر مطلقہ فرد ریڈ ایریا میں داخل ہونے کی کوشش کرتا ھیں تو وہ لوگ بنا کسی وارننگ کے بے دریغ اس کو شوٹ کر دیتے ھے اس ریڈ ایریا کی سیکیورٹی کا آپ اندازہ اس بات سے لگا لیں کہ piA کا ایک طیارہ جو ریڈ ایریا کی جانب شاید پائلٹ سے سمت کی غلطی کی وجہ سے بڑھ رہا تھا وہ اس حدود میں داخلے سے پہلے ہی پاکستانی F.16 کے نرغے میں آچکا تھا جس کے پائلٹ کو طیارے کا رخ موڑنے کا کہا گیا بصورتِ دیگر طیارے کو فضا میں ہی تباہ کرنے کا آرڈر مل گیا جس کے بعد پائلٹ نے اپنے جہاذ کا رخ موڑ لیا اور پاک فضائیہ کے حکم پر چکلالہ ایئر بیس پر اتار لیا۔ اسی طرح ایک بار انڈین ایئر فورس کے 2 جنگی طیارے جو کہوٹہ کی سمت بڑھ رھے تھے ان کا پتا پاک ایئر فورس کو بروقت چل گیا جس کے بعد فوری طور پر سرگودھا ایئر بیس سے F 16 طیاروں نے اڑان بھری اور پاکستانی حدود سے 500 میٹر دور ہی ایک انڈین طیارے کو تباہ کر دیا گیا اور دوسرا واپس انڈیا کی طرف بھاگنے میں کامیاب ہو گیا ۔اور اج تک بھارت کی ہمت نہیں ہوئی کہ اپنے جہازوں کو اس طرف بھیجھے۔ دوستو چند دن پہلے نااہل شریف نے ملکی راز بتانے کا کہا یہ اس بندے کی بڑھک ھے کے جس کو یہ پتا ھے کہ وہ کہوٹہ جہاں پر صرف کیمیکلز ٹیسٹ ہوتے ھیں وہاں تو وزیراعظم کو چھوڑو آرمی چیف اور isi چیف کو جانے کی اجازت نہیں ھیں تو یہ نااہل کہاں سے بتا دے گا ملکی راز جس کو دھنیا کا بھی نہیں پتہ۔۔ پھر بھی اگر کسی بھی قسم کی کانفیڈنشل یا ٹاپ سیکریٹ معلومات اگر غلطی سے اس تک پہنچ بھی گئی ھوں تو ان کو یہ نااہل شریف ڈسکلوز کرنے کا سوچے گا بھی تو پھر اسکو پھانسی کے پھندے سے اس کے دادا ابو امریکہ اور بھارت بھی نہیں بچا سکتے۔۔۔ پاک فوج اور پاکستان پائندہ باد

پاکستانی قصائی کے مطابق 👇👇👇 (لڑکیوں سے معذرت کیساتھ ) تنگ پاجامہ 👖 گزشتہ عید سے دو روز قبل میرا گردیزی مارکیٹ ملتان اپنے ایک دوست کیساتھ جانا ہوا. اسے اپنے بچوں کے لیے عید کے کپڑے خریدنے تھے. وہ تو خریداری میں مگن ہو گیا مگر میں نے اپنی فطری مردانہ عادت سے مجبور ہو کر اطراف کا جائزہ لینا شروع کر دیا. 😈 جیسے جیسے آنکھوں کے ریڈار نے سگنل پکڑنا شروع کیے ویسے ویسے میرے چودہ طبق بھی روشن ہوتے گئے 😲 . تا حد نگاہ صنف نازک کا سمندر پر جوش انداز میں اپنی زلزلہ انگیزیاں بکھیر رہا تھا. 😇چہرے کی خوبصورتی اور نقوش چاہے جیسے بھی ہوں مگر انکے دلفریب لباسوں سے چھلکتی نسوانیت " دکھانا بھی نہیں اور کچھ چھپانا بھی نہیں" کے مصداق ابھی پچھلے دنوں اٹھی نسوانی تحریک " میرا جسم - میری مرضی " کے موقف کی زور و شورسے تائید کر رہی تھی. 😒 ابھی میں اس زنانہ تنگی لباس سے متاثرہ اپنی تنگی نظر کو وسعت دینے ہی نہ پایا تھا کہ میر ی سماعت سے ایک مردانہ آواز ٹکرائی. " بھائی میڈیم سائز کا زنانہ بلیک ٹائٹ مل جائے گا. ؟ " مڑ کے دیکھا تو ایک تقریبا باریش لڑکا دو نوجوان لڑکیوں کے ساتھ دکاندار سے مندرجہ بالا چیز مانگ رہا تھا. میرے تجرباتی نچوڑ کے مطابق وہ لڑکا ان دو لڑکیوں کا بھائی تھا جو بہنوں کو عید کی شاپنگ کروانے نکلا تھا. اور خاص طور پر یہ سیاہ تنگ پاجامہ ہی خریداری کا نصب العین تھا کیونکہ دکاندار سے نفی میں جواب موصول ہونے پر لڑکیوں کے تاثرات انکی اب تک کی بازار میں عرق ریزی کا پتہ دے رہے تھے. 😩خیر میرے اندر کے علامہ اقبال نے فوراً مجھے یہ باور کرایا کہ کیا اب یہ وقت بھی آنا تھا کہ بھائی اپنی بہنوں کو ساتھ لئے انکے بلیک ٹائٹ ڈھونڈتے پھریں گے....؟؟؟؟😨 مگر پھر مجھے وہ باپ یاد آئے جو اپنی صاحبزادیوں کو موٹرسائیکل پر لے کے جا رہے ہوتے ہیں اور انکی بیٹیاں تنگ پاجاموں میں ملبوس ٹانگ پر ٹانگ چڑھائے بیٹھی خود کو کسی ریاست کی شہزادی سمجھ رہی ہوتی ہیں. مجھے وہ بھائی بھی یاد آئے جو خود آجکل تنگ پاجامے پہننے میں فخر محسوس کرتے ہیں. 🕺 مجھے وہ مائیں بھی یاد آئیں جو اپنی کمسن, بلوغت کے قریب پہنچنے والی بچیوں یا پھر مکمل بالغ لڑکیوں کو تنگ لباس پہنا کر ماڈرن مدرز کہلواتی ہیں. مانا کہ یہ تنگ پاجامہ زنانہ جسم پر بہت اچھا لگتا ہے. مگر اس تنگ پاجامے سے چھلکتی ہوئی نسوانیت اور تھرتھراتا وجود ہر مرد کے ذہن پر بہت گہرا اثر کرتا ہے. سکن ٹائٹ جینز ہو یا پھر کاٹن, سلک اور فلیکس ایبل ربڑی کپڑے سے بنا انتہائی چست پاجامہ اور اس پر پہنی لیلن کی لانگ قمیض تو پھر الزام ہوا کے سر ہی جائے گا کہ " ہوا چلے تو سنگ اپنے سب کچھ اڑا چلے." 😜 محترم بھائیو. ...!!!! یہ نظارے صرف میں ہی روز نہیں دیکھتا. آپ سب بھی اس سے مستفید ہوتے ہیں. اس طرح کے تنگ لباس اب ہر گھر کی لڑکیوں کے روزمرہ معمول کا حصہ ہیں. اپر کلاس کے تو کیا ہی کہنے مگر یہ جو ہم آپ مڈل کلاس لوگ ہیں حتی کہ مذہبی گھرانوں کی بچیاں بھی اس تنگ لباس کے خفت میں مبتلا ہیں .... تو کیا آپ کو کچھ نظر نہیں آتا؟ کچھ محسوس نہیں ہوتا؟ ان تنگ لباسوں میں نسوانی وجود کیا کیا ہولناک مناظر پیش کرتا ہے؟ نہیں ہمیں سب پتہ بھی ہے اور نظر بھی آتا ہے.... مگر صرف باہر کی لڑکیوں تک.... کبھی اگر ایک سادہ سی نظر ہم اپنی بہن بیٹیوں کے تنگ لباس پر بھی ڈال لیں اور پھر خود کو ذہن میں رکھتے ہوئے باہر کے مردوں کے ذہن پر اثر کرنے والے نسوانی ہیجان کو یاد کریں تو آپکو اپنے آپ سمیت ہر سو رال ٹپکاتے زنانہ گوشت خور جانور ہی ملیں گے. معاشرتی عورت کی سوچ ہم ٹھیک نہیں کر سکتے , اپنی بد نظری پر بھی کنٹرول نا ممکن ہے. مگر اپنے گھر سے اصلاح کا آغاز تو کر ہی سکتے ہیں اگر ہر گھر کا سربراہ اپنی بچیوں کے لباس کی نگہبانی کرئے تو معاشرے میں پھیلی بد نظری اور اس سے پیدا شدہ ہیجان بہت حد تک کم ہو سکتا ہے. یہ جو ہم آپ کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر کے پھر رہے ہیں خود اپنا ہی نقصان کر رہے ہیں. 😟 نوٹ :- یہ بے حیائی اور بے غیرتی صرف شہر میں نہیں بلکہ کے پی کے میں دیہی علاقوں میں بھی سرائیت کرچکی ھے سوات میڈیکل کالج کا فنکشن اس کی جیتی جاگتی مثال ھے

ملا عمر مینگو باردی آج اس شخص کی برسی ہے جس کا نام ملا محمد عمر تھا اور دنیا جسے ایک دہشت گرد کے نام سے یاد کرتی ہے . اس کی تصویر دیکھی .سادہ سا ایک پشتون ، معمولی سا لباس اورسر پر سیاہ دستار ۔موبائل ہاتھ میں پکڑے کتنی ہی دیر میں یہ تصویر دیکھتا رہا ۔ میں نے بہت چاہا میں اسے نفرت کی نگاہ غلط سے دیکھوں اور آگے بڑھ جاؤں ۔ میں لیکن ایسا نہ کر سکا ۔ پھر میں نے روشن خیالی کے کم تر درجے کے تقاضوں کے پیش نظر چاہا ، اسے نظر انداز کر کے آگے بڑھ جاؤں ۔ افسوس مجھ سے یہ بھی نہ ہو سکا ۔ ایک طلسم کی طرح میں وہیں کہیں وہیں اٹک سا گیا ۔ اس کی دستار کے پیچوں میں ہی نظریں الجھ الجھ کر رہ گئیں۔ میں نے خود کو سمجھایا : امریکہ اسے دہشت گرد کہتا ہے اور سکہ رائج الوقت یہ ہے کہ امریکہ جو کہتا ہے ٹھیک کہتا ہے۔ یہ دہشت گرد کی تصویر ہے اور مجھے اس سے نفرت کرنا ہے ۔ نفرت کے جذبات مگر مجھے کوشش کے باوجود مجھے نہ مل سکے ۔ میں نے خود کو تسلی دی کہ ایک ذرا صبر کرو اس سے نفرت کے دلائل میں ابھی ڈھونڈ کر لاتا ہوں..... اور پھر چشم تصور مجھے نوے کی دہائی میں لے گئی۔ میں اس وقت بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی میں انگریزی ادب میں ماسٹرز کر رہا تھا جب افغانستان کے منظر نامے پر ملا عمر طلوع ہوا ۔ اول اول کوئٹہ کے ولی خان کی زبانی پتا چلا ملا عمر کیا کر رہا ہے ، اور ولی خان مولویوں کا کتنا بڑا مخالف تھا اس کا آپ اندازہ نہیں کر سکتے۔ مجھے ولی خان نے بتایا کہ اقتدار تو یہاں منتقل ہی بندوق کی نالی سے ہوتا ہے لیکن ملا عمر کے آنے سے یہ ہوا ہے کہ لوگوں کی عزتیں محفوظ ہو گئی ہیں ۔ مجاہدین نما غنڈوں کی بدمعاشی سے تنگ معاشرے نے اسے خوش آمدید کہا ۔ دی ٹائمز اور دی ٹیلیگراف نے لکھا کہ افغانستان میں وار لارڈز نے جگہ جگہ بیرئرز لگا کر چھوٹی چھوٹی ریاستیں بنا رکھی تھیں ۔اول ان کا کام صرف لوٹ مار تک محدود تھا بعد میں عورتوں اور بچوں کی عصمت دری بھی معمول بن گئی۔ حالت اتنی خراب ہو چکی تھی کہ ان دنوں وار لارڈز کی ایک لڑکے پرباقاعدہ لڑائی ہو گئی ۔ ملا عمر اس صورت حال سے تنگ آ کر مدرسے کے پچاس لڑکوں کے ساتھ اٹھے اور اس سہ پہر وار لارڈ کی لاش اسی کے ٹینک کے ساتھ جھول رہی تھی ۔ وار لارڈز سے تنگ سماج نے ملا عمر کا ساتھ دیا ۔اس کی اخلاقی قوت کا یہ عالم تھا کہ حکمت یار جیسے جنگجو نے لڑے بغیر سروبی خالی کر دیا ۔ تو کیا میں اس لیے اس سے نفرت کروں کہ وہ بندوق کے زور پر اقتدار میں آ یا ؟ اس سماج میں اور راستہ ہی کیا تھا ؟کیا وہ وار لارڈز سے جا کر ووٹ مانگتا کہ بد معاشی ختم کرو اور مجھے ووٹ دے دو ؟کیا اس دور میں یہ ممکن تھا؟ تو کیا اس سے اس لیے نفرت کی جائے کہ وہ ہٹ دھرم اور انتہا پسند تھا اور عالمی برادری کے ساتھ نہ چل سکا ؟ یہ الزام بھی غلط ہے ۔ اس نے اقوام متحدہ کے ساتھ مل کر پوست کی کاشت کے خلاف کام کیا اور اس کے ایک حکم پر پوست کی کاشت برائے نام رہ گئی ۔ اقوام متحدہ نے اسے کامیاب ترین مہم قرار دیتے ہوئے تسلیم کیا کہ اس کا ایک ایک حکم جاری ہوا اور افغانستان میں پوست کی کاشت میں ۹۹ فیصد کمی واقع ہو گئی ۔اس کی رٹ کا یہ عالم تھا کہ ایک حکم جاری ہوا اور افغانستان جیسا معاشرہ غیر مسلح ہو گیا۔ اسامہ بن لادن کے مسئلے پر بھی اس نے راستہ نکالا ۔ اس نے کہا امریکہ ہمیں ثبوت دے ہم اسامہ کے خلاف مقدمہ چلاتے ہیں ۔ امریکہ کو ہم پر اعتماد نہیں تو ہم اسے کسی تیسرے ملک کے حوالے کر دیتے ہیں ۔ لیکن ہم اسامہ کو امریکہ کے حوالے نہیں کر سکتے ۔ آپ بتائیے اس موقف میں کیا غلط تھا؟ اس پر بے پناہ دباؤ تھا کہ اسامہ کو امریکہ کے حوالے کر دو اور اسے بھی معلوم تھا امریکہ کی طاقت کا عالم کیا ہے ۔لیکن اس نے کہا جو ہماری پناہ میں آ جائے ہم اسے یوں دشمن کے حوالے نہیں کیا کرتے ۔ ذرا غور تو فرمائیے یہ’ پشتون ولی ‘کس کی روایت تھی ۔ یہ افغان قوم کی روایت تھی۔ اس نے قوم کی روایت پر حرف نہیں آ نے دیا ۔ قوم پرست آج اسے جی بھر کردشنام دیں لیکن یہ تو مانیں جس طرح اس نے پشتون ولی کی رسم نبھائی کوئی سوچ بھی نہیں سکتا۔ پھر امریکہ اس پر حملہ آور ہو گیا ۔۔ ملا عمر کا اقتدار ختم ہو گیا ۔ وہ در بدر ہو گیا . لیکن کوئی ثابت کر دے اس نے مرتے دم تک پاکستان کے خلاف ایک لفظ بھی بولا ہو ۔ یہاں پاکستان کے خلاف پاکستانی سیاستدان بکنے سے باز نہیں آتے ۔ وہ تو پرایا تھا لیکن پاکستان کے خلاف نہیں بولا ۔ پھر یہاں پراکسی شروع ہو گئی ۔ امریکہ اور بھارت کی سرپرستی میں پاکستانی حکومت سے نالاں عناصر کو جمع کیا گیا ۔ مجرم عناصر بھی اکٹھے کیے گئے اور ان کا نام طالبان رکھ دیا گیا ۔ میڈیا کی سر پرستی میں پوری کوشش کی گئی کہ لوگوں کو بتایا جائے کہ پاکستان سے لڑنے والے یہ طالبان وہی ملا عمر والے طالبان ہیں . لیکن حقیقت مکمل طور پر یہ نہیں تھی۔ آج جب امریکہ کے سب سے بڑے غیر جوہری بم کے نتیجے میں داعش وغیرہ کے افغانستان میں ٹھکانے تباہ ہوئے تو معلوم ہوا وہاں بھارت کی خفیہ ایجنسی را کے لوگ بھی مارے گئے ۔ یہی وہ لوگ ہیں جو پاکستان سے لڑنے والے عناصر کی سرپرستی کرتے ہیں اور ان کو طالبان کہا جاتا ہے ۔ لیکن یہ ملا عمر کے طالبا ن نہیں ۔ ملا عمر کے طالبان بطور ایک گروہ کبھی پاکستان سے نہیں لڑے ۔ ملا عمر کے نام کو نام نہاد روشن خیال سیکولر بیانیہ بھلے جتنا دشنام دے لے لیکن یہ ماننا ہو گا کہ وہ پاکستان کا دشمن نہیں تھا ۔ وہ زندہ رہا تو شہرت سے دور اپنی چھوٹی سی کٹیا میں رہا ۔ مر گیا تو کسی کو معلوم نہیں کب مرا اورکہاں دفن ہے۔خوارزم شاہ سلطان جلال الدین کی زندگی بھی ایسی ہی تھی ۔ ساری دنیا چنگیز خاں سے کانپ رہی تھی لیکن سلطان جلال الدین خوارزم شاہ اس سے لڑتا رہا ۔ چنگیز خان کو زندگی میں صرف ایک بار شکست ہوئی ۔ سلطان جلال الدین کے ہاتھوں ۔ پھرایک روز وہ غائب ہو گیا ۔ کسی نے کہا مر گیا کسی نے کہا روپوش ہے ۔ آج کسی کو نہیں معلوم سلطان جلال الدین کہاں دفن ہے لیکن دنیا اسے جلال الدین مینگو باردی کے نام سے یاد کرتی ہے ۔ مینگو باردی یعنی ہمیشہ رہنے والا ۔ بہادر اپنی قبروں میں نہیں ، تاریخ کے سینے میں جیتے ہیں ۔ سکاٹ لینڈ کا سر ولیم ویلس ہو ، داغستان کا امام شامل ہو ، سر نگا پٹم کا فتح علی ٹیپو سلطان ہو ، طرابلس کا عمر مختار ہو ، خوارزم کا شاہ سلطان جلال الدین ہو یا قندھار کا ملا عمر ۔۔۔۔۔ آپ انہیں پسند کریں یا نا پسند لیکن آپ انہیں مار نہیں سکتے ۔ یہ مینگو باردی ہیں ۔ یہ زندہ رہتے ہیں ۔ آصف محمود

Sunday, 24 June 2018

روس کے خلاف جہاد اور جنرل ضیاء کی شرائط روس کے خلاف جنگ میں جنرل ضیاء الحق نے امریکہ سے جو شرائط منوائیں، سفارت کاری کی تاریخ میں وہ ایک غیر معمولی کارنامہ تھا۔ اسکا موازنہ اپنے جمہوری حکمرانوں کے امریکہ کے ساتھ معاملات سے کیجیے گا یہ ذہن میں رکھتے ہوئے کہ آج امریکہ خود پھنسا ہوا ہے۔ وہ روس کے خلاف پاکستان کی اپنی جنگ تھی اور چار سال تک یعنی 79 سے 83 تک پاکستان اکیلے لڑتا رہا۔ لیکن جب امریکہ نے اس جنگ میں کودنے کا فیصلہ کیا تب جنرل ضیاء نے اسکو اپنی شرائط پر شامل کیا۔ حالانکہ اس وقت پاکستان کو اسکی شدید ضرورت تھی اور مجاہدین تباہ کن روسی ہیلی کاپٹروں کی وجہ سے شکست کے قریب تھے لیکن بدترین حالات میں بہترین بات چیت جنرل ضیاء کی نمایاں خوبیوں میں سے ایک تھی اور امریکہ سے اس جنگ میں شمولیت کے لیے اس نے اپنی مرضی کی شرائط منوائیں۔ شروع میں جنرل ضیاء کو امریکہ نے 400 ملین ڈالر امداد کی آفر کی جسکو جنرل نے پاؤں کی ٹھوکر سے اڑا دیا کہ "ہمیں یہ مونگ پھلی کے دانے نہیں چاہئیں” یہ اس وقت کے لحاظ سے بہت بڑی رقم تھی جس پر آپ کے کسی بھی جمہوری لیڈر کی رال بہہ جاتی۔ لیکن جنرل کے پیش نظر کچھ اور معاملات تھے اور وہ مستقبل کی طرف دیکھ رہے تھے۔ امریکہ نے پوچھا کہ تم کیا چاہتے ہو تب جنرل نے مندرجہ ذیل شرائط پر معاملات طے کیے۔ پہلی شرط یہ تھی کہ یہ امریکہ نہیں بلکہ پاکستان طے کرے گا کہ اسکو کیا چاہئے اور امریکہ پابند ہوگا کہ اس ضرورت کو پورا کرے۔ امریکہ نے یہ شرط مان لی۔ دوسری شرط یہ تھی کہ امریکہ کبھی خود اس جنگ کے نزدیک نہیں آئے گا اور پاکستان جیسے چاہے گا اپنی مرضی سے اس جنگ کو کنٹرول کرتا رہے گا نیز اسلحے کی مجاہدین میں تقسیم بھی پاکستان خود کرے گا۔ جنرل نے امریکہ کو اس بات پر قائل کر لیا تھا کہ "اگر تم مجاہدین میں اسلحہ تقسیم کرو گے تو انکو آپس میں لڑوا دو گے جیسا تم نے ویت نام میں کیا تھا ” جنرل ضیاء کا یہ اندیشہ بعد میں بلکل درست ثابت ہوا جب اسکی شہادت کے بعد جمہوری بالشتیوں نے یہ کنٹرول امریکہ کے ہاتھ میں دے دیا اور امریکی ایلچی مسٹر ٹامسن نے اسلحے کی غیر مساوی تقسیم کے ذریعے مجاہدین میں آپس میں خانہ جنگی کروا دی جس کا خمیازہ پاکستان نے بھگتا۔ امریکہ کو جنرل ضیاء کی اس دلیل سے سخت نفرت تھی لیکن اسکے باوجود وہ مان گئے جس پر کئی انڈین دانشوروں نے لکھا کہ ” یہ بہت کڑوی گولی تھی جو جنرل ضیاء کے ہاتھوں امریکی انتظامیہ اور سی آئی اے نے نگلی” جنرل نے تیسری شرط یہ پیش کی کہ چونکہ ہم روس کے خلاف مزاحمت کر رہے ہیں جس کے جواب میں روس کسی بھی وقت پاکستان کے خلاف باقاعدہ جنگ چھیڑ سکتا ہے لہذا اسکے مقابلے کے لیے ہمیں جدید ترین جنگی جہاز اور اسلحہ درکار ہے۔ تب اس وقت کے لحاظ سے سب سے جدید جنگی جہاز ایف 16 پاکستان نے حاصل کیے۔ جو اس وقت صرف امریکہ، اسرائیل اور پاکستان کے پاس تھے۔ جنرل کے بعد آنے والے تمام لیڈر مزید کوئی جہاز حاصل نہ کر سکے سوائے ایک دو جہازوں کے جو آئی ایس آئی کی بعض "پھرتیوں” کی وجہ سے ملے۔ چوتھی اور سب سے اہم شرط جنرل نے امریکہ سے یہ منوائی کہ پاکستان ایٹمی پروگرام جاری رکھے گا لیکن امریکہ ہر سال اقوام متحدہ سے پاکستان کو یہ سرٹیفیکٹ دلوائے گا کہ پاکستان ایٹم بم نہیں بنا رہا۔ یہ ایک ایسی شرط تھی جس پر انڈیا اور اسرائیل میں آگ لگی ہوئی تھی، کہ جب بچہ بچہ جانتا ہے کہ کہوٹہ ” بم والی فیکٹری ہے ” تب اقوام متحدہ اور امریکہ کیسے پاکستان کو یہ سرٹیفیکیٹ دے رہے ہیں؟ اپنی اس کامیابی کی بدولت پاکستان نے نہایت برق رفتاری سے اسی دور میں ایٹم بم بنانے میں کامیابی حاصل کر لی۔ ایٹم بم کا اصل خالق جنرل ضیاء ہی تھا۔ اس جملے کے جواب میں کہ ” ضیاء امریکہ کا ایجنٹ تھا” ہم ایک ممتاز بھارتی صحافی اور دانشور جناب ایم جے اکبر صاحب کے سن 88 میں ” انڈیا ٹوڈے ” میں چھپنے والے ایک مضمون کا اقتباس پیش کرتے ہیں ۔۔۔۔ "صدرضیاءالحق کسی نہ کسی طرح امریکہ کے ساتھ دوستی اپنی شرائط پر قائم رکھنے میں کامیاب ہو چکے ہیں ۔ صدر ضیاءالحق کا یہی امتیاز ہے کہ پاکستان کے تمام سول اور فوجی حکمرانوں میں واحد ہیں جنہوں نے پاکستان کے کسی موءقف میں ذرا بھی لچک پیدا کیے بغیر امریکہ سے اپنے معاملات کو درست رکھا” سخت ضرورت کے باوجود جنرل ضیاء نے ان حالات میں امریکہ سے جو شرائط منوائیں سفارت کاری کی تاریخ میں وہ یقیناً ایک غیر معمولی کارنامہ تھا۔ جب تعصب اور عجیب و غریب قسم کے جمہوری فلسفوں سے لوگوں کو آزادی ملی گی تب ضیاء کے ان کارناموں کو ضرور تسلیم کیا جائے گا۔

Saturday, 23 June 2018

9/11 سے خرا سان کے کالے جھنڈون تک کفّار میں سب سے زیادہ غلیظ اور بد ترین کافر یہودی ہیں ۔ جو اپنے کفر پر سب سے زیادہ کار بند ہونے کے ساتھ ساتھ روءے زمین پر اسلام اور مسلمانو ن کے سب سے بڑ ے دشمن اور شیطان کے صف اول کے پیرو کار ہیں۔ شیطان نے جب آدمؑ کو سجدہ کرنے سے انکار کیا تو اپنےحسد اور بغض کی وجہ سے براہ راست اللّه کو چیلنج کیا کے میں آدمؑ کو گمراہ کر کے چھوڑ و نگا ۔ آدمؑ کو جنت سے نکلوا نے کے بعد سے لے کر آج تک شیطان انسان کا سب سے بڑا دشمن ہے ، اور ھر دور میں ھر قسم کی چالوں اورفتنون سے انسان کو اپنے رب کی اطاعت سے بٹکھاتا ہوا آیا ہے دور جدید میں شیطان کا سب سے بڑا فتنہ دجال ہے جسکے شر اور فتنے سے صحابہ کرام ؓ بھی پناہ مانگتے تھے ۔ اس وقت یہودی دجال کے سب سے بڑے پیروکار ہیں ۔ ڈک چینی اور ہنری کسنجر جیسے یہودی براہ راست دجال سے ملاقاتین کرتے ہیں اور اس سے آرڈر لے کے پوری دنیا کو کنٹرول کرتے ہیں ۔ خدائی کا دعوی کرنے اور انسانو ن کو گمراہ کرنےکے لیے دجال نے نیو ورلڈ آرڈر کے نام سے ایک جنگی حکمت عملی ترتیب دی ہے جس میں دجال کے لیے عالمی سلطنت بنانے کے ساتھ ساتھ دنیا کے تمام قیمتی زخایر سمیت صنعت تجارت بینکاری پر کنٹرول حاصل کرنا بھی ہے ۔ دجال کے لیے اسرائیل میں عالمی ایئر پورٹ کے ساتھ ساتھ ایک مظبوط قلعہ بھی تعمیر کر لیا گیا ہے جہان سے دجال پوری دنیا پر حکومت کرے گا ۔ شیطان کو اچھی طرح پتہ ہے وہ جو کچھ بھی کر لے اللّه اپنے محبوب بندوں کو کبھی بھی تنہا نئی چھوڑے گا اور انکی مدد کے لیے اپنے خلیفہ امام مہدی کو مسلمانو ن کی مدد کے لیے ضرور بھیجے گا اس لیے دجال نے اپنی تمام قو توں اور فورسز کو 9/11 ڈرامے کے بعد خراسان یعنی افغانستان کو کنٹرول کرنے کے لیے بھیج دیا ہے ۔ دجال کو پتہ ہے کے خراسان سے ایک لشکر اس سے لڑنے کے لیے آے گا ۔اس حوالے سے حضورؐ کی مشہور حدیث بھی ہے جسکے مطابق خراسان سے کالے جھنڈے اٹھینگے اور یروشلم میں گاڑھ دیے جائینگے ۔ اس وقت دجالی فورسز افغانستان میں پوری قوت سے مو جود ہیں اور وہان پر افغان آرمی اور خوا رج کے نام سے بڑے لشکر بھی تیار کر کر لیے ہیں ۔ دجالی قوتین اس وقت پوری کوشیش کر رہی ہیں کے کسی طرح سے مہدی کا پتہ چلا کے اسے وقت سے پہلے ختم کیا جائے ۔ مو جودہ صورت حال کے مطابق اس وقت پوری دنیا میں دجا لی قوتون کو %80 کامیابی مل چکی ہے ۔ باقی % 20 کامیابی انکو اس لیے حاصل نئی ھو رہی کیو نکے انکی راہ میں پاکستان کی آرمی سب سے بڑی روکاوٹ ہے ۔ پاکستان آرمی کی وجہ سے انکو نہ تو اسلامک بم تک رسائی مل رہی ہے اور نہ انکو خراسان پر کنٹرول حاصل ھو رہا ہے ۔ دجال اور انتظار نئی کر سکتا اس لیے دجالی قوتین پوری قوت سے پاکستان پر حملہ آور ھو گئی ہیں اسلام بیزار طبقہ سیاست دان حوارج بڑے بڑے سرمایا دار صنتکار نام نہاد آزادی اور حقوق کی تحریکیں العرض تمام چھوٹے بڑے فتنے ابھر کے سامنے ا چکے ہیں جنکا ٹارگٹ صرف پاک آرمی ہے ۔ حق اور باطل کی لڑائی اپنے عروج پر پہنچ چکی ہے ۔ان حالات میں پاکستان کی بہادر افواج اور غیور عوام کو یہ خو شحبری دیتا ھوں کے مبارک ھو تمھیں دنیا کی آمامت کے لیے چن لیا گیا ہے اللّه نے تم لوگوں سے جو بڑا کام لینا تھا اسکا وقت ان پہنچا ہے اپنی کشتیان جلا دو سیسہ پلا ی دیوار بن جاو اپنی صفوں میں موجود دجال کے پیرو کارون کو نشان عبرت بنا کے کاٹ ڈالو ایک امت بن جاو اللّه کا خلیفہ بہت جلد انے والا ہے انشاء اللّه ہم خراسان سے اٹھ کے پوری دنیا پر چھا جائینگے اور اللّه کی زمین پر اللّه کا نظام قائم کرینگے جہان صرف ایک خلافت ھو گی ایک نظام ھو گا اور صرف اللّه اور اللّه کا نظام سپر پاورھوگا پاکستان زندہ باد ۔ ۔ پاکستان آرمی پا یندہ باد احتشام الحق

شہادت کے اس واقعہ نے مجھے جنجھوڑ کے رکھ دیا شہید میجر علی خان چنگیزی کو سلام۔ 1845 بجے میجر چنگیزی کو سی ایم ایچ لایا گیا انکو دو گولیاں لگی تھیں۔ایک گولی کندھے میں لگی تھی اور دوسری اینٹی ائیرکرافٹ گن کی گولی تھی جو پیٹ کے بائیں جانب سے لگی اور پیٹ چیرتے ھوۓ دائیں جانب سے نکل گئ۔بہت زیادہ خون بہہ رہ تھا اور زخم انتہائ تکلیف دہ تھا۔ مجھے بھی اس طرح کا تجربہ ھو چکا تھا۔ لیکن میجر چنگیزی کی جو تکلیف تھی میری تکلیف شائد اس کا ایک فیصد بھی نہ تھی۔ جب میجر چنگیزی کو سی ایم ایچ لایا گیا تو اس نے ڈاکٹر سے پوچھا " روزہ افطار ھو چکا ھے۔ میرا روزہ ھے"ـ ڈاکٹر نے جواب دیا ابھی 1845 بجے ھیں اور افطار میں کچھ وقت باقی ھے۔ تھوڑی دیر کے بعد میجر چنگیزی نے پوچھا " کیا میں ٹھیک ھو جاؤں گا"ـ ڈاکٹر نے جواب دیا آپ بلکل ٹیک ھو جائیں گے۔ خون بہت تیزی سے ضائع ھو رہا تھا اور جو خون کی بوتل لگی ھوئ تھی اس کی نسبت زیادہ خون بہہ رہا تھا۔ پھر مغرب کا وقت ھوا ۔ ڈاکٹر آیا اور بولا " سر روزہ افطار ھو چکا ھے۔ میجر چنگیزی نے ایک کھجور منہ میں ڈالی اور چند منٹ بعد بے ہوش ھو گۓ۔ جس کے بعد پھر کبھی ہوش میں نہ آۓ۔ کیا بہادر شخص تھا شائد ملک الموت بھی روزہ افطار کے انتظار میں تھا۔ میجر چنگیزی نے دوستوں، فیملی یا پیسوں کے متعلق کوئ بات نہ کی صرف افطار کے متعلق بات کی۔ یہ وہ لوگ ھیں جو ہماری سرحدوں کا دفاع کرتے ھیں اور ہماری حفاظت کے ذمہ دار ھیں۔ اسی طرح ہزاروں لوگ اپنی جان کا نزرانہ پیش کر چکے ھیں۔ جس میں معصوم شہری بھی شامل ھیں۔ کسی کو آپ کا علم، پیسہ یا شہرت یاد نہیں رہتی لیکن وہ مقصد ضرور یاد رہتا ھے جس کے لۓ آپ نے عمر گزاری۔ اور جس مقصد کے لۓ آپ نے کوشش کی ۔ ہمارا نصب العین پاکستان ھے۔ ہم وطن کے بغیر کچھ نہیں۔ کچھ بھی نہیں۔ اپنی سیاسی جاعتوں کی وابستگی اور سیاسی اختلافات کو بالاۓ طاق رکھتے ھوۓ پاکستان کی خدمت کریں۔ اپنے لیڈر کے لۓ نہیں پاکستان کے لۓ جذباتی ھونا چاھۓ۔ لیڈر کی ملک کے سامنے کوئ اوقات نہیں ھوتی ۔

Sunday, 17 June 2018

پاکستان میں کچھ لوگ ملا فضل اللہ کے مارے جانے پر بہت خوشی منا رہے ہیں۔ مگر کیا آپ کو پتا ہے کہ اتنا عرصہ بعد امریکہ کو کیوں ضرورت پیش آئی کی پاکستان کے دشمن کو مروا دے ۔ ؟؟؟ امریکہ کے پاس جب ایک وفادار ہو تو دوسرے کی ضرورت نا ہوتے ہوئے۔اور اپنے راز کھلنے کے ڈر سے پہلے وفادار کو مروا دینا ہی امریکہ بہادر کی عقل مندی ہے۔ امریکہ نے جب دیکھا کے ویپن یوز کرنے سے پاکستانی فوج کو ذرا ڈر نہیں اور الٹا اپنا نقصان کروا بیٹھا ۔ اس نے ایک نیا مہرہ چھوڑ دیا جس کو افغانستان ، انڈیا اور اسرائیل سے مکمل حمایت کی یقین دہانی کروائی گی۔ ملا فضل اللہ نے ابھی امریکہ سے کچھ ڈیمانڈ کی تھی ۔ کہ آپ کی پیچھے ہم کہیں کے نہیں رہے۔ اب یا تو ہمیں امریکہ بلاؤ یا پھر افغانستان کا شہری بناؤ اور ہمیں مکمل تحفظ دیا جائے۔ آپ نے چونکہ اب منظور کو لانچ کر دیا ہے تو میرا دانا پانی کہاں سے چلنا ہے۔ امریکہ بہادر نے اسے لارا لگایا کہ منظور تمہارا حمایتی بنے گا اور تم لوگوں کو وہیں بھیجا جائے گا جب پاکستان سے پٹھان علاقہ توڑ کر الگ کر دیا گیا۔ ملک فضل کیونکہ جانتا تھا کہ پاکستانی فوج ایسا کبھی بھی ممکن نہیں ہونے دے گی۔ اس نے کہا ۔ ٹھیک ہے تب تک مجھے افغانستان کا شہری بنا دو ۔ جب ملک توڑ لیا تم لوگوں نے تو میں وعدہ کرتا ہوں وہاں چلا جاؤں گا ۔ امریکہ بہادر نے اسے کہا ٹھیک ہے کچھ عرصہ رک جاؤ یہی کریں گو جو تم نے بولا ۔ اور ابھی بھی تم ہماری پناہ میں ہو کیا ڈر ہے تمہیں۔ منظور جب تک مضبوط نا ہوجاتا پہلے والا مہرا کام دے سکتا تھا۔ منظور کو عالمی منڈی میں سہی طور کیش کرایا گیا اور جہاں تک ہوسکتا تھا امریکہ اسرائیل انڈیا اور افغانستان نے منظور کو پروموٹ کرنا شروع کردیا۔ لاکھوں فیک آئیڈیز بنائی گئیں اور لاکھوں پیجز گروپس بنائے گے جن میں سے ایک بھی پاکستان سے نہیں چلایا جا رہا ۔ منظور کو ہائیلائیٹ کرنے کے بعد امریکہ بہادر نے نشانہ ڈھونڈنا شروع کر دیا اور ملا فضل اللہ کو مروا کر پاکستان کے ساتھ دوستی کا تقاضہ پورا کر دیا ۔ مگر ایسے دوست سے وہ دشمن اچھا ہے جو سامنے سے وار کرتا ہے۔ آپ کو کیا لگتا آئی ایس آئی کو یہ سب رپورٹ نہیں تھی ؟؟؟ ان کو سب پتا ہے۔ اور آپ کے اگلے پلان جو ابھی تک لانچ نہیں کیا اس کا بھی پتا ہے۔ ہمیں فخر ہے اپنے جوانوں پر ۔ اللہ میرے گمنام مجاہدوں اور بھائیوں کی حفاظت فرمائے اور وہ ایسے ہی دشمنوں کے منصوبے کو خاک میں ملاتے رہیں۔

Thursday, 14 June 2018

شرارتی لڑکے اور پتھروں کا دور!!! جنوری 2018 کی یکم کو ہمیں دینا تھا لیکن امریکہ یعنی ٹرمپ کو ملا سرپرائز کہ وہ لٹ چکا, برباد ہوا اور اس کو لوٹنے اور برباد کرنے والے اور کوئی نہیں بلکہ وہ تھے جن کو بش نے 9112001 کے بعد اس طرح منایا تھا کہ "دینی یا تھانے جانا ہے؟"۔ "ساتھ دو ورنہ پتھروں کے دور میں لوٹادیں گے۔" سامنے فرمائش نما حکم سننے والا اس وقت کا آرمی چیف اور صدر پاکستان اور تاریخ پاکستان کا متنازعہ ترین شخص جناب جنرل پرویز مشرف تھا۔ جس نے یہ "دھمکی" سنی اور فوراً "لم لیٹ" ہوکر کہا کہ "سوہنیو" غصہ کیوں اور کس لیئے جی؟ جب "ساتھ" کے ملک میں "پتھروں کا ڈھیر" موجود ہے تو ایک ہنستے بستے "کمزور" ملک کا تیا پانچہ بغیر کسی وجہ "چہ معنی دارد"؟ امریکی خوش ہوئے کہ یہ صاحب بہادر جو کہتے ہیں کہ "ڈرتا ورتا کسی سے نہیں" ہماری ایک "کال" پر ہی "بچھ" گئے۔ کہتے ہیں جب گیڈر کی شامت آتی ہے تو وہ شہر کا رخ کرتا ہے اور جب کسی سوپر پاور کی مت ماری جائے تو وہ پاکستان کے اطراف میں ڈیرے جمالیتی ہے۔ بابا جی حمید گل کہتے کہتے چلے گئے کہ تاریخ لکھے گی کہ ہم نے روس کو امریکہ کی مدد سے ہرایا (یاد رہے افغان جنگ خالص ہماری تھی روس کے خلاف اور امریکہ ہمارا ٹشو پیپر بنا تھا, الحمدللہ) اور پھر مورخ دوبارہ تاریخ مرتب کرتے وقت مجبورہوگا یہ لکھنے پر کہ پاکستان نے امریکہ کو امریکہ کی مدد سے شکست سے دوچار کیا تھا۔ تو مشرف نے حمید گل والی بات کو شاید دل میں گرہ لگا رکھی تھی کہ موقع ملا تو بدلے چکانے ہیں۔ خیر امریکہ لڈیاں اور جھومر بنگھڑے ڈالتا ہوا افغانستان میں براستہ پاکستان اترا لیکن پھر جو وہ تب سے اب تک وہاں "پتھروں" سے سر ٹکرا رہا ہے تو اس کو یہ بھول چکا ہے کہ وہ یہاں "دینی یا تھانے جانے" جیسی دھمکی کے زیر اثر ایک پوری ریاست کو قابو کرنے آئے تھے لیکن یہ کیا ہوا سرکار؟ جن کی "بجانے" آئے تھے وہ "پیچھے" کھڑے ہیں جبکہ امریکی ان کے "آگے" کھڑے ہیں اور "ہاتھ" سامنے والی "دیوار" پر ٹکے ہیں جبکہ "سر" شرمندگی سے جھکا ہوا اور "کمر میں بل" ہے یعنی ایک قوم کے ہاتھوں بیوقوف بن گئے ہیں اور کرتے کرتے سولا سال کا عرصہ گزرگیا اور بندہ تبدیل ہوا جو کہ "دینے اور تھانے" جیسی اصطلاحات سے اچھی طرح واقف ہوچکا تھا کو احساس ہوا کہ اوئے تیری یہ تو سالا ہمیں "تھانے" بھی لے آئے اور "زور و شور" سے "لے" بھی رہے ہیں اور ساتھ ساتھ "بل" ہاتھ میں تھما کر "پیسے" بھی "وصول" رہے ہیں۔ چچ چچ چچ یہ تو فول ہوگیا ہمارے ساتھ, صدی کا بہت بڑا دھوکہ ہوگیا, تیتس ارب ڈالر کا چونا لگ گیا اور ہاتھ نہ تیتر لگا نہ بٹیر اور ہم سمجھتے رہے کہ یہ ہماری جنگ ہے جو ہم پاکستان سے لڑوارہے ہیں لیکن دراصل یہ تو پاکستان کی ہی جنگ تھی جو ہم اسی کی دہائی سے لڑنا شروع ہوئے اور اب تک لڑ لڑ کر سوائے ہار اور حزمیت کے کچھ ہاتھ نہیں آرہا۔ چلوجی پھردھمکی دھمکی کھیلتے ہیں تو نئے امریکی صاحب نے فرمائش دہرائی کہ جی مزہ نہیں آرہا تو "ڈومور" لیکن اب "پچھلے" ہر بار "ڈومور" کی "فرمائش" پر "مزے" کرواتے کرواتے "تھک" اور "اکتا" چکے تھے جس کا احساس بھی امریکہ کو ہوچکا تھا فرمائش دہرانے سے پہلے بس منہ سے سننا چاہتا تھا جو پھر سننے کو ملا کہ جی حضور کیا کہا؟ ڈو مور؟ نا جی نا ہن نو مور نو کبوتر۔ ۔ ۔ اب پاکستان خود انحصاری اور خودمختاری کی شاہراہ پر رواں دواں ہے لہذا تم چنگڑ چوڑے اپنا بستر گول کرکے امریکہ کی بس پکڑو مترو۔ مشرف سترہ سال بعد قوم کے عالی دماغوں کو سمجھانے میں اور یقین دلانے میں کامیاب ٹھہرا کہ تب ادھوری سدھوری میزائیل ٹیکنالوجی, شاپروں میں پڑی ایٹمی ٹیکنالوجی اور امریکی ساختہ ایف سکسٹین وغیرہ وغیرہ کے ساتھ پاکستان سوپرپاور سے براہ راست جنگ کا متحمل نہیں ہوسکتا تھا لہذا یہ جنگ شیروں (MI) اور مارخوروں (ISI) سے الگ الگ طریقے سے کسی دوسری سرزمین پر لڑنی پڑے گی, کیا کریں گندا ہے پر دھندا ہے۔ جنگ کا تخمینہ پہلے لگایا جا چکا تھا کہ اگر اپنے گھر میں لڑتے ہیں تو گیم صرف چوبیس گھنٹے کی ہوگی اور نقصان یکطرفہ ہوگا جس میں کم سے کم ستر لاکھ اور زیادہ سے زیادہ سات کروڑ قیمتی جانوں کے ضیاع کے ساتھ کھربوں کا مالی نقصان علاوعہ تمام دفاعی و ایٹمی تنصیبات سے ہاتھ دھونا ہوتا۔ دماغ لڑائے گئے اور یہ طے ہوا کہ یہ تخمینہ یوں ہو سکتا ہے کہ جانی نقصان کا ہندسہ کسی صورت لاکھ سے زیادہ نہ ہو اور مالی نقصان کاہندسہ اربوں میں ہو بھی جائے تو خیر ہم وہ وصول کرلیں گے سود سمیت اور میدان اپنا گھر ہرگز نہ ہو تو ایک لاکھ قربانیوں کے ساتھ جنگ کا دورانیہ چوبیس گھنٹے سے بڑھا کر من چاہی مدت ہوسکتا ہے۔ یاد رہے ایسا کرنا ہی واحد آپشن تھا کہ مقابلہ ایک اور سو کا تھا اور ٹیکنالوجی و وسائل کا تو آٹے اور نمک والا تناسب تھا امریکہ اور پاکستان کا اس وقت۔ بہرحال جنگ سے منہ نہیں موڑا گیا خواہ اسکو امریکہ نے اپنی دہشت گردی کے خلاف جنگ کہہ کر ہی آغاز کیا ہو لیکن "بزدل کمانڈو" اور آل ان آل کمانڈر نے بساط بچھا کر مہرے سرکانے شروع کیئے۔ افغانستان میں "ایم آئی" کو امریکہ کے ڈسپوزیبل پر دے دیا "آنکھ" مارکر اور ادھر "شرارتی لڑکوں" عرف "مارخوروں" المعروف "آئی ایس آئی" کو ان کے پیچھے روانہ کردیا براہ راست اپنی کمانڈ میں رکھ کر۔ اب صدی کی ہی نہیں بلکہ تاریخ کی سب سے پیچیدہ اور خطرناک جنگ کا آغاز کردیاتھا تو پیٹھ موڑنا یا میدان خالی چھوڑنا ناممکن تھا۔ ادھر کمانڈو ایم آئی سے "پتھروں" کی نشاندہی کروادیتا امریکنوں کو اور ادھر "شرارتی لڑکوں" کے ہاتھ میں وہی "پتھر" تھما دیتا یہ حکم دے کر کہ ان "پتھروں" سے ان "امریکی گدھوں" کا "سر"پھوڑ دو,نشانہ سر سے کم بلکل نہ ہو ورنہ خیر نہیں۔ اس جنگ کا نتیجہ خود بتارہا ہے کہ پتھروں کا دور کن کو دیکھنا پڑا اور کن کی ٹکریں افغانستان کے ہر پتھر سے مروائیں ہیں شراشرتی لڑکوں نے۔ بہرحال امریکہ کی مدد کو بھارت اور نیٹو کودے کہ جی ہم امریکہ کو "تھانے" سے"باعزت" رہا بھی کروائیں گے اور "شرارتی لڑکوں" کو "سبق" بھی سکھائیں گے جنہوں نے "بیچارے امریکہ" کو "کوڈا" کرکے "کانا" کرچھوڑا ہے خطے ہی کیا پوری دنیا میں۔ یہ بات تو طے ہے کہ جنگ تباہی کا دوسرا نام ہے اور جب جب دو اجسام یا قوتیں ٹکراتی ہیں تو آس پاس "کولیٹرل ڈیمیج" ہونا سوفیصد طے عمل ہے یہ کوئی الحادی بگ بینگ تھیوری تو ہے نہیں کہ انجام تخلیق کی صورت نکلے۔ ہاں ہمیں اس جنگ کا حصہ بننے میں 75 ہزار قیمتی جانوں کا نذرانہ دینا پڑا اور اربوں مالیت کا انفراسٹرکچر تباہ کروانا پڑا جس کی قیمت ہم وصول بھی کرچکے ہیں کچھ حصہ اور مزید بھی ان شاء ﷲ وصولیں گے۔ لیکن کیا یہ گھاٹے کا سودا تھا؟ کیا واقعی مشرف کا یہ قدم یہ فیصلہ غلط تھا؟ کیا چالیس لاکھ نفوس کی قربانیوں سے حاصل کردہ ملک پر پچھتر ہزار نفس مزید قربان کرکے بیس کروڑ نفوس کو بچانا اور ملک کو استحکام دینا جرم ہے؟ کیا ہمارے مذہب ہمارے اللہ اور رسول صل اللہ علیہ والہ وسلم نے یہ نہیں کہا کہ خون کا بہا امت کی سلامتی ہے؟ کیا جہاد کا مطلب آمنے سامنے کی کھلی جنگ ہی ہے؟ کیا اس وقت اس واحد آپشن کے علاوعہ کوئی اور عقل مندی والا آپشن موجود تھا؟ کیا ہماری دفاعی اور معاشی اور افرادی طاقت اسقدر جدید خطوط پر استوار تھی کہ پچاس پاکستانوں پر مشتمل ایک ملک سے جنگ لڑ کر ہم نقشے پر رہتے؟ ہاہاہاہا اب افغانستان کی مثال مت دینا کہ وہاں ہم ہی ہیں اور تھے جو وہ بھی موجود ہے ورنہ افغانی اپنے دم پر ایک اینٹ کی بھی حفاظت کے قابل نہیں یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے۔ اب کہو گے کہ یہ جو طرح طرح کی تحاریک اور پراکسی جنگیں پاکستان میں چل پڑیں ہیں ان کا ذمہ دار پاکستان خود ہے بلکہ سیدھا الزام فوج اور ایجنسیوں پر ہی لگاؤ گے تو سن لو یہ وہ آخری پڑاؤ اور آپشن بچا ہے امریکہ بھارت اور نیٹو کے پاس کہ وہ خطے سے سرخرو ہوکر اور بدلہ لیکر نکل سکیں۔ وجہ اس کی تم جیسے ٹٹو پشتینوں, ولیوں, اچکزئیوں, نوازوں, مریموں, فضلوں, الطافوں اور براہمداغوں کا اس ملک میں باعزت اقتدار میں رہنا ہے ورنہ کسی کی جرات ہی نہیں تھی اور نہ ہوتی کہ وہ ہمارے گھر میں سے غداروں کا ہجوم کھڑا کرکے ہمیں ہی للکارتا کہ اب آؤ میدان میں اور لڑو جنگ۔ دشمن نے خود ہمیں میدان میں اچھے سے دیکھ لیا کہ وہ ہماری گرد کو بھی چھو نہیں پاتا جبکہ ان کی زمین ہم سرکا دیتے ہیں بفضل خدا الحمداللہ ۔ لیکن جب خنجر بازسامنے بھائی ہو اور وہ دشمن کا آلہ کار ہوتو دماغ اور دل گومگوں کی کیفیت میں پھنس جاتا ہے کہ اب کیا کروں کہ زندہ چھوڑوں تو قوم کٹے گی اس خنجر سے اور اگر کاٹ ڈالوں تو قوم بٹے گی اس قتل سے کہ ہم نے زیادتی کرڈالی جبکہ دونوں صورتوں میں دشمن فتح یاب ٹھہرے گا بغیر کسی جانی اور مالی نقصان کے۔ اے میرے اہل وطن اہل دین بھائیوں اور بہنوں خدارا ہر طرح کے سیاسی, لسانی اور مذہبی تفرقے سے باہر نکل آؤ وقت رہتے ورنہ ہمارا نام بھی نہ ملے گا تاریخ کے پنوں پر ڈھونڈھنے سے بھی۔ جو جنگ ہم جیت گئے ہیں اس کو آخری لمحات میں ہار میں تبدیل مت کرو اور نہ دشمن کو موقع دو کہ وہ کامیابی کا سہرا سجاکر واپس لوٹے۔ "شرارتی لڑکوں" نے جو "پتھروں کے دور" میں دشمن کا سر ان ہی "پتھروں" سے "پھوڑا" ہے اور ساتھ ہی "عقل" پر "بٹے" لگائے ہیں دشمن کے وہ تم مت ہٹاؤ اور مت "مرہم پٹی" کرو آپسی جھگڑوں اور فتنوں کو دشمن کی شہہ پر بڑھا کر۔ اللہ امت مسلمہ اور پاکستان کی حفاظت فرمائے۔.! ~Marwan Sabeel~ 🇵🇰

Tuesday, 12 June 2018

*آئی ایس آئی کو پاکستان کی سیاست میں بھرپور دخل دینا چاہیے!* *کیوں اس پر اعتراض ہے آپ کو؟* جب بھارت، امریکہ اور افغانستان کی خفیہ ایجنسیز پاکستان کے سیاستدانوں کو خرید سکتی ہیں، الیکشن میں پیسہ لگا سکتی ہیں، تو پھر آئی ایس آئی پر تو لازماً فرض ہےکہ ملکی مفاد میں سیاست میں دخل دے جس دن پاکستان کے سیاستدان، پاکستان سے غداری ترک کردیں گے، راء اور سی آئی اے کی مدد سے الیکشن میں دھاندلی بند کردیں گے، تسلی رکھیں، اس دن سے فوج اور آئی ایس آئی بھی سیاست میں انکی راہ روکنا بند کردے گی۔ تب تک کیلئے اپنے منہ بند رکھیں!!! جن کو آئی ایس آئی کی سیاست میں دخل دینے پر اعتراض ہے ،وہ پہلے ان سیاستدانوں کو پٹہ ڈالیں کہ جو را ,این ڈی ایس اور سی آئی اے کے کہنے پر ملک و قوم سے غداری کے مرتکب ہوتے ہیں۔ میمو گیٹ، زرداری ، نواز شریف، الطاف حسین ، اسفندیار اور اچکزئی کے راء اور سی آئی اے سے رابطے حلال ہیں کیا۔۔۔؟؟؟ اچھی طرح سمجھ لیں کہ آئی ایس آئی ”مارخور“ ہے، یعنی آستین کے سانپوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ پر پکڑنا اور ہلاک کرنا، اس کی ڈیوٹی ہے، چاہے یہ سانپ ٹی ٹی پی کے ہوں، ایم کیو ایم میں، زرداری کے گینگ، پارلیمان میں مسلم لیگی یا میڈیا میں راء اور سی آئی اے والے ۔ 1971 ءمیں راءمکمل طور پر پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کو خرید چکی تھی۔ شیخ مجیب الرحمن کی غداری اگرتلہ سازش کیس میں سالوں پہلے پکڑی جاچکی تھی۔ جب غداروں کو پھانسیاں دینے کے بجائے الیکشن میں جتوایا جائے، تو پھر ”سقوط ڈھاکہ“ ہی ہوتے ہیں۔ امریکا میں الیکشن سی آئی اے کی مرضی کے بغیر نہیں جیتا جا سکتا ، روس میں کے جی بی حکومت بنواتی ہے ، برطانیہ میں ایم آئی فائیو کی طاقت کا کس کو نہیں پتا ، انڈیا میں را کی مرضی کے بغیر کوئی سیاستدان بیان تک نہیں دے سکتا ، لیکن اگر ایسا آئی ایس آئی کرے تو سب منہ پھاڑ کر گالیاں دیتے ہیں فرق یہ کہ ان ممالک میں اتنی اجازت نہیں کے فوج اور ایجنسیز پر تنقید کر سکیں، جیل بھیج دیا جاتا ہے، سکینڈل بنا دیا جاتا ہے ، کیریئر ختم کروا دیا جاتا ہے ایکسیڈنٹ میں مروا دیا جاتا ہے لیکن یہ سہولت بھی ہماری فوج اور آئی ایس آئی نے دی ہوئی ہے ہمارے ملک میں سب کو کہ دل بھر کر تنقید کرو گالیاں دو دفاعی اداروں کو . امریکا میں حال ہی میں ریٹائر سی آئی اے ڈائریکٹر کو امریکا کا سیکرٹری اف اسٹیٹ بنایا گیا ہے، اسرائیل کے فوج کے کافی لوگ سیاست میں ہیں گورنمنٹ میں، کہیں پر شور سنا کے ایسا کیوں ؟ لیکن اگر آئی ایس آئی کے ریٹائر لوگ حکومت میں لگائیں جائیں تو پاکستان میں اور دنیا میں شور سنیں یہ قائدہ بہت اچھی طرح سمجھ لیں۔ فوج اور آئی ایس آئی صرف اس وقت سیاست اور الیکشن میں دخل نہیں دینگے کہ جب غیر ملکی دشمن خفیہ ایجنسیاں بھی دخل نہ دیں۔ جب سیاستدان غدار ہوں، تو محب وطن ”مارخور“ کو مجبوراً سیاسی بساط میں بھی دشمنوں کو شکست دینی پڑتی ہے۔ یہ میسج سب کو فارورڈ کر کے لوگوں میں آگاہی اور معلومات پھچانے میں اپنا کردار ادا کریں

مجھے یاد ہے جب امریکہ نے عراق پر حملہ کیا تھا ۔ ہم سنتے تھے کہ عراق کے پاس ایک مضبوط فوج ہے ۔ مجھے امید تھی کہ عراقی فوج بے شک امریکہ کے مقابل کمزور سہی مگر ایک بھرپور مزاحمت کرے گی ۔ مگر بس یہی خبریں سننے کو ملیں کہ امریکہ عراق کے فلاں علاقے میں گھس گیا اور کوئی مزاحمت نہ ہوئی ۔ ایک ایک کر کے امریکہ عراق کے تمام علاقوں میں گھس گیا ۔ عراقی فوج کہاں گئی کسی کو نہیں پتہ ۔ امریکہ نے عراق پر حملے سے پہلے عراقی عوام کو ان کی اپنی فوج کے خلاف کر دیا ۔ پہلا ہتھیار جو استعمال کیا گیا وہ میڈیا تھا ۔ اس میڈیا کے ذریعے عراقی فوج کے مظالم کی تشہیر کی گئی اور پھر اسی عوام سے ہمدردی کی آڑ میں عراق فتح کیا ۔ پھر جو ظلم عراقیوں پر امریکیوں نے کیا وہ ایک الگ کہانی ہے ۔ ایک ہی سازش ہے جو ہر قوم پر بار بار دہرائی جاتی ہے ۔ آج پاکستان پر منظور پشتین کے راستے وہی سازش دہرائی جا رہی ہے ۔ ایسے بیوقوفوں کی آج بھی کمی نہیں جو سمجھتے ہیں کہ جب امریکہ حملہ کرے گا تو پشتونوں کے حق میں آواز بلند کرنے والا منظور پشتین ان کے خلاف بھی لڑے گا ۔ جی نہیں ۔ منظور پشتین جیسے لوگ صرف اپنوں کے خلاف ہی جہاد کرتے مر جاتے ہیں ۔ جب امریکہ حملہ کرے گا تو مزاحمت صرف پاک فوج ہی کر سکتی ہے ۔ منظور پشتین جیسے لوگوں کا کام صرف امریکی راہ سے فوج جیسے کانٹوں کا صفایا کرنا ہوتا ہے ۔ پھر جب فوج نہ رہے گی تو ایک ایک کر کے امریکہ پاکستان کے تمام علاقوں میں گھسے گا ۔ آپ کے گھروں میں امریکی فوجی گھسیں گے ۔ آپ کا مال لوٹیں گے ۔ آپ کی عورتوں کی عزت پامال کی جائے گی ۔ آپ کے مردوں کے گلے کاٹے جائیں گے ۔ منظور پشتین اس وقت آپ کو کہیں نہیں ملے گا ۔ میرے پیارے ہم وطنوں میری اپ سے ایک درخواست ہے اس وقت اپ کے بھائی آپ کے بیٹے اس پاک سرزمین کے رکھوالے دشمن کے سامنے تنہا کھڑے ہیں ان کو اپ کی ضرورت ہے اپ کے پیار کی اپ کی دعاؤں کی ضرورت ہے اپ بتا دیں دشمن کو کہ تم جتنی بھی کوشش کر لو ہم اپنی افواج کے ساتھ کھڑے ہیں اور انشاءاللہ آخری سانس تک اپنے فوجی بھائیوں کے ساتھ ہیںWe_Are_Stand_With_Pak_Army_&_Isi i

Monday, 11 June 2018

پاک بحریہ کے سی کنگ ہیلی کاپٹرز نے شمالی بحیرہ عرب میں ڈوبنے والی ایرانی کشتی کے عملے کو بچا لیا، پاک بحریہ کے جہاز پی این ایس نصر نے بھی سرچ اینڈ ریسکیو آپریشن میں مدد فراہم کی۔ اسلامی جمہوریہ ایران کی الرحمانی نامی کشتی کے ڈوبنے کی اطلاع ملتے ہی پاک بحریہ نے فوری ردِ عمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے سرچ اینڈ ریسکیو آپریشن کا آغاز کیا۔ ایرانی کشتی پر عملے کے گیارہ افراد سوار تھے۔پاک بحریہ کے 02 سی کنگ ہیلی کاپٹرز کو ڈوبنے والی ایرانی کشتی کی تلاش اور عملے کو بچانے کے لیے روانہ کیا گیا۔ سرچ اینڈ ریسکیو آلات سے لیس پاک بحریہ کے ہیلی کاپٹرز جن پر میڈیکل ٹیم بھی موجود تھی نے کم ترین ممکنہ وقت میں کراچی سے جنوبی مغربی کھلے سمندر میں پہنچ کر ڈوبنے والی کشتی کی تلاش کا آپریشن فضا سے شروع کیا۔ نامساعد سمندری حالت میں کٹھن سرچ آپریشن کے بعد ہیلی کاپٹرز کے عملے نے ڈوبنے والی کشتی کے عملے کو تلاش کیا، شمالی بحیرہ عرب میں معمول کی گشت پر مامور پاک بحریہ کے جہاز پی این ایس نصر نے بھی سرچ اینڈ ریسکیو آپریشن میں مدد فراہم کی۔ ایرانی کشتی کے عملے کے گیارہ افراد کو انتہائی قلیل وقت میں بچا کر سی کنگ ہیلی کاپٹرز پر لایا گیا جہاں انہیں ضروری طبی امداد فراہم کی گئی۔بچ جانے والے افراد نے بہترین پیشہ ورانہ انداز میں بروقت ریسکیو آپریشن انجام دینے پر پاک بحریہ کا شکریہ ادا کیا۔ یہ ریسکیو آپریشن ڈیڑھ گھنٹہ جاری رہا جس کے نتیجے میں ایرانی کشتی کے عملے کے تمام گیارہ افراد کو بچا کر کراچی میں واقع پاک بحریہ کے ایئر بیس پی این ایس مہران پہنچایا گیا۔ ایرانی کشتی کے عملے کو ہیڈ کوارٹرز پاکستان میری ٹائم سکیورٹی ایجنسی کے حوالے کر دیا گیا تا کہ قانوں کے مطابق ان کی وطن واپسی ممکن ہو سکے۔ نیول فورسز، جلد رسائی اور پہنچ کی وراثتی خوبیوں کی حامل افواج ہیں جس کا بھر پور مظاہرہ کھلے سمندر میں اس آپریشن کے دوران کیا گیا۔پاک بحریہ کے جہاز سبز ہلالی پرچم کو دنیا بھر میں سر بلند کر رہے ہیں جو ہمارے قومی جذبے اور انسانی خدمت کے عزم کا عکاس ہے۔

Sunday, 10 June 2018

ایک شخص کا ایک بیٹا تھا، روز رات کو دیر سے آتا اور جب بھی اس سے باپ پوچھتا کہ بیٹا کہاں تھے.؟ تو جھٹ سے کہتا کہ دوست کے ساتھ تھا. ایک دن بیٹا جب بہت زیادہ دیر سے آیا تو باپ نے کہا کہ بیٹا آج ہم آپ کے دوست سے ملنا چاہتے ہیں. بیٹے نے فوراً کہا اباجی اس وقت؟ ابھی رات کے دوبجے ہیں کل چلتے ہیں. نہیں ابھی چلتے ہیں. آپ کے دوست کا تو پتہ چلے. باپ نے ابھی پہ زور دیتے ہوئے کہا. جب اس کے گھر پہنچے اور دروازہ کھٹکھٹایا تو کافی دیر تک کوئی جواب نہ آیا. بالآخر بالکونی سے سر نکال کہ ایک بزرگ نے جو اس کے دوست کا باپ تھا آنے کی وجہ دریافت کی تو لڑکے نے کہا کہ اپنے دوست سے ملنے آیا ہے. اس وقت، مگروہ تو سو رہا ہے بزرگ نے جواب دیا. چاچا آپ اس کو جگاؤ مجھے اس سے ضروری کام ہے، مگر بہت دیر گزرنے کے بعد بھی یہی جواب آیا کہ صبح کو آجانا. ابھی سونے دو، اب تو عزت کا معاملہ تھا تو اس نے ایمرجنسی اور اہم کام کا حوالہ دیا مگر آنا تو درکنار دیکھنا اور جھانکنا بھی گوارا نہ کیا. باپ نے بیٹے سے کہا کہ چلو اب میرے ایک دوست کے پاس چلتے ہیں. جس کا نام خیر دین ہے. دور سفر کرتے اذانوں سے ذرا پہلے وہ اس گاؤں پہنچے اور خیردین کے گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا، مگر جواب ندارد، بالآخر اس نے زور سے اپنا نام بتایا کہ میں الله ڈنو، مگر پھر بھی دروازہ ساکت اور کوئی حرکت نہیں. اب تو بیٹے کے چہرے پہ بھی فاتحانہ مسکراہٹ آگئی. لیکن اسی لمحے لاٹھی کی ٹھک ٹھک سنائی دی، اور دروازے کی زنجیر اور کنڈی کھولنے کی آواز آئی، ایک بوڑھا شخص برآمد ہوا جس نے لپٹ کر اپنے دوست کو گلے لگایا اور بولا کہ میرے دوست، بہت معذرت، مجھے دیر اس لیے ہوئی کہ جب تم نے 27 سال بعد میرا دروازہ رات گئے کھٹکھٹایا تو مجھے لگا کہ کسی مصیبت میں ہو، اس لیے جمع پیسے نکالے کہ شاید پیسوں کی ضرورت ہے، پھر بیٹےکو اٹھایا کہ شاید بندے کی ضرورت ہے، پھر سوچا شاید فیصلے کےلیے پگ کی ضرورت ہو تو اسے بھی لایا ہوں. اب سب کچھ سامنے ہے، پہلے بتاؤ کہ کس چیز کی ضرورت ہے؟ یہ سن کر بیٹے کی آنکھوں سے آنسو آگئے کہ ابا جی کتنا سمجھاتے تھے کہ بیٹا دوست وہ نہیں ہوتا جو رت جگوں میں ساتھ ہو بلکہ وہ ہوتا ہے جو ایک آواز پر حق دوستی نبھانے آجائے. آج بھی کئی نوجوان ایسی دوستیوں پہ اپنے والدین کو ناراض کرتے ہیں، باپ کے سامنے اکڑجاتے ہیں. ذرا دل تھام کر سوچیےکہ آپ کے حلقہ احباب اور دوستوں کا شمار ان میں سے کس قسم میں ہوتا ہے؟ GÑ copy اگر تحریر اچھی لگے دعائے خیر مجھ سمیت سب کئلیے...

Thursday, 7 June 2018

افغانی بھائی آپ ناراض تو نہیں ہو گے ۔۔۔۔ اگر میں کہوں کہ آپ ایک بے غیرت اور غدار قوم ہو افغانی بھائی آپ ناراض تو نہیں ہو گے کہ اگر میں بتاؤں کہ 30 لاکھ افغانیوں کو پاکستان نے پناہ دی تھی افغانی بھائی آپ ناراض تو نہیں ہو گے کہ کہ اپکو روس کا غلام بننے سے روکنے کی جنگ پاکستان اور پشتون اور عرب مسلمان نے لڑی ۔۔۔۔ اور آپ لوگ تو پاکستان اور ایران بھاگ گئے تھے افغانی بھائی افغانی بھائی آپ ناراض تو نہیں ہو گے کہ پاکستان نے آپکو پناہ دی اور آپ نے یہاں بم دھماکے کر کے اپنے محسنوں کو ہی مارنا شروع کر دیا افغانی بھائی افغانی بھائی تم ناراض تو نہیں ہو گے کہ تم نے پاکستان میں ہیروئن اور کلاشنکوف کلچر متعارف کروایا اور پاکستان کے معصوم نوجوانوں کو نشے کا عادی بنا کر اپنی جائیدادیں بنائیں افغانی بھائی افغانی بھائی تم ناراض تو نہیں ہو گے کہ رشید دوستم اور اسکی ازبک و تاجک و پارسی بان ملیشیاء افغان پختونوں کو چن چن کر مار رہی تھی اور انکے گلے کاٹ کر پٹرول ڈال کر مردے کا ڈانس دیکھا کرتی تھی تو یہی پاکستانی فوج نے افغان مجاہدین و طالبان کے ساتھ اسکے ظلم کو روکا تھا افغانی بھائی افغانی بھائی تم ناراض تو نہیں ہو گے کہ تم نے پاکستان جیسے محسن ملک میں انڈین اور افغانی دہشت گردوں کو محفوظ پناہگاہیں دیں اور دہشت گرد حملے کروائے افغانی بھائی افغانی بھائی تم ناراض تو نہیں ہو گے ناں کہ تم نے جس تھالی میں کھایا اسی میں چھید کیا افغانی بھائی افغانی بھائی تم برا تو نہیں مانو گے ناں کہ جس فوج نے تمہاری آزادی کی جنگ لڑی تمہاری عزتوں کی حفاظت کی خاطر اپنی جانیں قربان کیں تم نے اسی فوج پر حملے کیئے افغانی بھائی افغانی بھائی تم برا تو نہیں مانو گے ناں کہ تمہاری غداری کی وجہ سے کسی بھی افغان مجاہد اور طالبان لیڈر نے افغانستان میں روپوشی اختیار نہیں کی افغانی بھائی افغانی بھائی تم برا تو نہیں مانو گے ناں کہ تم نے میرے ملک میں دو نمبر شناختی کارڈ بنوا کر جائدادیں خریدیں اور غیر قانونی کاموں کا سلسلہ شروع کیا افغانی بھائی افغانی بھائی تم ناراض تو نہیں ہو گے ناں کہ تم نے پاکستان میں اغوا برائے تاوان کا سلسلہ شروع کیا افغانی بھائی افغانی بھائی تم ناراض تو نہیں ہو گے ناں کہ تم نے TTP کے دہشت گردوں کے ساتھ مل کر فاٹا اور قبائلی علاقوں میں دہشت گردانہ کارروائیوں میں میرے بے گناہ پاکستانی پختونوں کو شہید کیا، انکے گلے کاٹ کر فٹبال کھیلی، انکو پھانسیاں دیں اور میرے ہی ملک میں میرے ہی مسلمان پشتون بھائیوں کی لاشیں تین تین دن لٹکتی رہتی تھیں اور کسی کو اتارنے کی اجازت بھی نہیں ہوتی تھی افغانی بھائی افغانی بھائی تم ناراض تو نہیں ہو گے اگر میں کہوں کہ جس ملک نے تمہیں پناہ دی روٹی دی عزت دی سر چھپانے کی جگہ دی تم نے اسی ملک کے خلاف سازشیں کیں افغانی بھائی تمہیں شرم تو نہیں آئے گی جب تمہارے ملک میں تمہارے آقا امریکہ نے قندوز مدرسے میں 80 سے ذیادہ معصوم حافظ قرآن بچوں کو بم مار کر شہید کردیا اور تم اور تمہاری افغان حکومت انہی امریکیوں کے بوٹوں کے تلوے چاٹتی رہی تم برا تو مانو گے مگر تمہارے ملک میں ہونے والے ظلم کا بدلہ طالبان نے لیا جبکہ تم اور تمہاری حکومت انہی طالبان کو دشمن کہتی ہے افغانیو تمہیں غیرت تو نہیں آئے گی کہ جب تمہارے ملک سے تمہاری مدد سے تمہارے دہشت گردوں نے میرے ملک کے بچوں کے اسکول پر بزدلوں کی طرح حملہ کیا اور نہتے بچوں پر انکی کلاسوں میں انکے استادوں کو زندہ جلایا گیا معصوم بچوں کو جو علم حاصل کر رہے تھے تم نے انہیں گولیوں سے چھلنی کر دیا افغانیو افغانیو تمہیں برا تو لگے گا کہ تم نے اپنی عزت اور غیرت امریکیوں، اسرائیلیوں اور انڈینز کو بیج کر جس پاک آستان نے تمہیں پناہ دی اسی کی بنیادوں پر حملہ کیا کراچی ایئرپورٹ پشاور ایئرپورٹ سے فیصل ایئربیس سے میانوالی ائربیس تک ہر جگہ تم نے حملے کیے ۔۔۔ افغانیو افغانیو تمہیں شرم تو نہیں آئے گی برا تو نہیں مانو گے کہ جب تمہاری صفوں میں سے نکلے دہشت گردوں نے مساجد پر بم باندھ کے حملے کئیے ۔۔ تم ایک لال مسجد کی بات کرتے ہوئے یہ بھول جاتے ہو کہ تم نے کتنی مساجد پر نماز کے دوران جب مسلمان اللہ کے آگے سجدہ ریز ہوتے تھے، جب تراویح میں قرآن کی تلاوت ہو رہی ہوتی تھی تم بم باندھ باندھ وہاں جا کر پھٹتے رہے ہاں برا مت ماننا کہ بس اب بہت ہو چکی اب تمہیں واپس اپنے ملک جانا پڑے گا کہ پاکستان نے جو عزت تمہیں دی وہ راس نہیں آئی تمہیں واپس اپنے ملک افغانستان جانا پڑے گا کہ جہاں امریکی ، یہودی تاجک ازبک اور پارسی بان تمہاری عورتوں کی جامہ تلاشی لیتے ہیں ہاں تمہیں واپس جانا ہی پڑے گا کہ جہاں اسلام کے سچے سپاہی ہمارے بھائی افغانی پشتون طالبان تمہارے ساتھ تمہاری حرکتوں کے مطابق سلوک کرتے کہ غدار کی سزا موت افغانی افغانی تم برا تو مانو گے مگر بس بہت ہو گئی تم ہوتے کون ہو کہ میرے پشتون بھائیوں کو اپنے ناپاک عزائم کے لئیے کبھی اسرائیل زندہ باد کے نعرے لگوا تو کبھی منظور افغانی کے ذریعے بہکانے کی کوشش کرو ۔۔۔ افغانیو کان کھول کر سن بھی لو اور سمجھ بھی لو کراچی میں بے گناہ شہید ہونے والا نقیب اللہ محسود ہمارا پاکستانی بھائی تھا اور پورا پاکستان اسکے شہید کیے جانے کے خلاف اکھٹا وہ تمہارا کچھ نہیں لگتا تھا وہ افغانی نہیں تھا وہ پکا سچا پاکستانی بیٹا تھا جسے ناپاک بین القوامی ایجنڈے میں استعمال کرنے کی ہم تو کیا اس شہید کے والد صاحب نے بھی اجازت نہیں دی ہے ۔۔۔ افغانیو برا مانتے ہو تو سو بار مانو کیا وجہ ہے نقیب اللہ محسود شہید کا باپ منظور افغانی کے جلسے میں نہیں جاتا ۔۔۔ اسکے باپ کو پاکستان سے محبت اپنے اداروں پر اعتبار تم کون ہوتے ہو میرے پاکستانی بھائی کے نام پر اپنی افغانی شیطانی سیاست چلانے والے ۔۔۔ فاٹا پر جو تمہارے TTP والوں نے حال کر رکھا تھا ہمارے ملک کا حصہ فاٹا ہم نے اسے پاک کیا اپنے پشتون بھائیوں کو تمہارے شیطانی افغانی دہشت گردوں سے تم چاہتے ہو کہ پھر سے تمہاری بدمعاشی ہو ۔۔ افغانی بھائی افغانی بھائی بس ۔۔۔ جاؤ جا کر پہلے اپنے ملک کو امریکا کی غلامی سے آزادی دلاؤ اپنی عورتوں بچوں کو انکے جنسی درندگی سے بچاؤ پھر میرے ملک کی میری فوج کی بات کرنا ۔۔۔۔ برا مت ماننا کہ سانپ کا سر کچلنے کا وقت آگیا ہے اور سانپ کا سب سے بڑا دشمن ۔۔۔۔ مارخور اب تمہیں نہیں چھوڑے گا. Admin #Sniper

افغانی بھائی آپ ناراض تو نہیں ہو گے ۔۔۔۔ اگر میں کہوں کہ آپ ایک بے غیرت اور غدار قوم ہو افغانی بھائی آپ ناراض تو نہیں ہو گے کہ اگر میں بتاؤں کہ 30 لاکھ افغانیوں کو پاکستان نے پناہ دی تھی افغانی بھائی آپ ناراض تو نہیں ہو گے کہ کہ اپکو روس کا غلام بننے سے روکنے کی جنگ پاکستان اور پشتون اور عرب مسلمان نے لڑی ۔۔۔۔ اور آپ لوگ تو پاکستان اور ایران بھاگ گئے تھے افغانی بھائی افغانی بھائی آپ ناراض تو نہیں ہو گے کہ پاکستان نے آپکو پناہ دی اور آپ نے یہاں بم دھماکے کر کے اپنے محسنوں کو ہی مارنا شروع کر دیا افغانی بھائی افغانی بھائی تم ناراض تو نہیں ہو گے کہ تم نے پاکستان میں ہیروئن اور کلاشنکوف کلچر متعارف کروایا اور پاکستان کے معصوم نوجوانوں کو نشے کا عادی بنا کر اپنی جائیدادیں بنائیں افغانی بھائی افغانی بھائی تم ناراض تو نہیں ہو گے کہ رشید دوستم اور اسکی ازبک و تاجک و پارسی بان ملیشیاء افغان پختونوں کو چن چن کر مار رہی تھی اور انکے گلے کاٹ کر پٹرول ڈال کر مردے کا ڈانس دیکھا کرتی تھی تو یہی پاکستانی فوج نے افغان مجاہدین و طالبان کے ساتھ اسکے ظلم کو روکا تھا افغانی بھائی افغانی بھائی تم ناراض تو نہیں ہو گے کہ تم نے پاکستان جیسے محسن ملک میں انڈین اور افغانی دہشت گردوں کو محفوظ پناہگاہیں دیں اور دہشت گرد حملے کروائے افغانی بھائی افغانی بھائی تم ناراض تو نہیں ہو گے ناں کہ تم نے جس تھالی میں کھایا اسی میں چھید کیا افغانی بھائی افغانی بھائی تم برا تو نہیں مانو گے ناں کہ جس فوج نے تمہاری آزادی کی جنگ لڑی تمہاری عزتوں کی حفاظت کی خاطر اپنی جانیں قربان کیں تم نے اسی فوج پر حملے کیئے افغانی بھائی افغانی بھائی تم برا تو نہیں مانو گے ناں کہ تمہاری غداری کی وجہ سے کسی بھی افغان مجاہد اور طالبان لیڈر نے افغانستان میں روپوشی اختیار نہیں کی افغانی بھائی افغانی بھائی تم برا تو نہیں مانو گے ناں کہ تم نے میرے ملک میں دو نمبر شناختی کارڈ بنوا کر جائدادیں خریدیں اور غیر قانونی کاموں کا سلسلہ شروع کیا افغانی بھائی افغانی بھائی تم ناراض تو نہیں ہو گے ناں کہ تم نے پاکستان میں اغوا برائے تاوان کا سلسلہ شروع کیا افغانی بھائی افغانی بھائی تم ناراض تو نہیں ہو گے ناں کہ تم نے TTP کے دہشت گردوں کے ساتھ مل کر فاٹا اور قبائلی علاقوں میں دہشت گردانہ کارروائیوں میں میرے بے گناہ پاکستانی پختونوں کو شہید کیا، انکے گلے کاٹ کر فٹبال کھیلی، انکو پھانسیاں دیں اور میرے ہی ملک میں میرے ہی مسلمان پشتون بھائیوں کی لاشیں تین تین دن لٹکتی رہتی تھیں اور کسی کو اتارنے کی اجازت بھی نہیں ہوتی تھی افغانی بھائی افغانی بھائی تم ناراض تو نہیں ہو گے اگر میں کہوں کہ جس ملک نے تمہیں پناہ دی روٹی دی عزت دی سر چھپانے کی جگہ دی تم نے اسی ملک کے خلاف سازشیں کیں افغانی بھائی تمہیں شرم تو نہیں آئے گی جب تمہارے ملک میں تمہارے آقا امریکہ نے قندوز مدرسے میں 80 سے ذیادہ معصوم حافظ قرآن بچوں کو بم مار کر شہید کردیا اور تم اور تمہاری افغان حکومت انہی امریکیوں کے بوٹوں کے تلوے چاٹتی رہی تم برا تو مانو گے مگر تمہارے ملک میں ہونے والے ظلم کا بدلہ طالبان نے لیا جبکہ تم اور تمہاری حکومت انہی طالبان کو دشمن کہتی ہے افغانیو تمہیں غیرت تو نہیں آئے گی کہ جب تمہارے ملک سے تمہاری مدد سے تمہارے دہشت گردوں نے میرے ملک کے بچوں کے اسکول پر بزدلوں کی طرح حملہ کیا اور نہتے بچوں پر انکی کلاسوں میں انکے استادوں کو زندہ جلایا گیا معصوم بچوں کو جو علم حاصل کر رہے تھے تم نے انہیں گولیوں سے چھلنی کر دیا افغانیو افغانیو تمہیں برا تو لگے گا کہ تم نے اپنی عزت اور غیرت امریکیوں، اسرائیلیوں اور انڈینز کو بیج کر جس پاک آستان نے تمہیں پناہ دی اسی کی بنیادوں پر حملہ کیا کراچی ایئرپورٹ پشاور ایئرپورٹ سے فیصل ایئربیس سے میانوالی ائربیس تک ہر جگہ تم نے حملے کیے ۔۔۔ افغانیو افغانیو تمہیں شرم تو نہیں آئے گی برا تو نہیں مانو گے کہ جب تمہاری صفوں میں سے نکلے دہشت گردوں نے مساجد پر بم باندھ کے حملے کئیے ۔۔ تم ایک لال مسجد کی بات کرتے ہوئے یہ بھول جاتے ہو کہ تم نے کتنی مساجد پر نماز کے دوران جب مسلمان اللہ کے آگے سجدہ ریز ہوتے تھے، جب تراویح میں قرآن کی تلاوت ہو رہی ہوتی تھی تم بم باندھ باندھ وہاں جا کر پھٹتے رہے ہاں برا مت ماننا کہ بس اب بہت ہو چکی اب تمہیں واپس اپنے ملک جانا پڑے گا کہ پاکستان نے جو عزت تمہیں دی وہ راس نہیں آئی تمہیں واپس اپنے ملک افغانستان جانا پڑے گا کہ جہاں امریکی ، یہودی تاجک ازبک اور پارسی بان تمہاری عورتوں کی جامہ تلاشی لیتے ہیں ہاں تمہیں واپس جانا ہی پڑے گا کہ جہاں اسلام کے سچے سپاہی ہمارے بھائی افغانی پشتون طالبان تمہارے ساتھ تمہاری حرکتوں کے مطابق سلوک کرتے کہ غدار کی سزا موت افغانی افغانی تم برا تو مانو گے مگر بس بہت ہو گئی تم ہوتے کون ہو کہ میرے پشتون بھائیوں کو اپنے ناپاک عزائم کے لئیے کبھی اسرائیل زندہ باد کے نعرے لگوا تو کبھی منظور افغانی کے ذریعے بہکانے کی کوشش کرو ۔۔۔ افغانیو کان کھول کر سن بھی لو اور سمجھ بھی لو کراچی میں بے گناہ شہید ہونے والا نقیب اللہ محسود ہمارا پاکستانی بھائی تھا اور پورا پاکستان اسکے شہید کیے جانے کے خلاف اکھٹا وہ تمہارا کچھ نہیں لگتا تھا وہ افغانی نہیں تھا وہ پکا سچا پاکستانی بیٹا تھا جسے ناپاک بین القوامی ایجنڈے میں استعمال کرنے کی ہم تو کیا اس شہید کے والد صاحب نے بھی اجازت نہیں دی ہے ۔۔۔ افغانیو برا مانتے ہو تو سو بار مانو کیا وجہ ہے نقیب اللہ محسود شہید کا باپ منظور افغانی کے جلسے میں نہیں جاتا ۔۔۔ اسکے باپ کو پاکستان سے محبت اپنے اداروں پر اعتبار تم کون ہوتے ہو میرے پاکستانی بھائی کے نام پر اپنی افغانی شیطانی سیاست چلانے والے ۔۔۔ فاٹا پر جو تمہارے TTP والوں نے حال کر رکھا تھا ہمارے ملک کا حصہ فاٹا ہم نے اسے پاک کیا اپنے پشتون بھائیوں کو تمہارے شیطانی افغانی دہشت گردوں سے تم چاہتے ہو کہ پھر سے تمہاری بدمعاشی ہو ۔۔ افغانی بھائی افغانی بھائی بس ۔۔۔ جاؤ جا کر پہلے اپنے ملک کو امریکا کی غلامی سے آزادی دلاؤ اپنی عورتوں بچوں کو انکے جنسی درندگی سے بچاؤ پھر میرے ملک کی میری فوج کی بات کرنا ۔۔۔۔ برا مت ماننا کہ سانپ کا سر کچلنے کا وقت آگیا ہے اور سانپ کا سب سے بڑا دشمن ۔۔۔۔ مارخور اب تمہیں نہیں چھوڑے گا. Admin #Snipr

افغانی بھائی آپ ناراض تو نہیں ہو گے ۔۔۔۔ اگر میں کہوں کہ آپ ایک بے غیرت اور غدار قوم ہو افغانی بھائی آپ ناراض تو نہیں ہو گے کہ اگر میں بتاؤں کہ 30 لاکھ افغانیوں کو پاکستان نے پناہ دی تھی افغانی بھائی آپ ناراض تو نہیں ہو گے کہ کہ اپکو روس کا غلام بننے سے روکنے کی جنگ پاکستان اور پشتون اور عرب مسلمان نے لڑی ۔۔۔۔ اور آپ لوگ تو پاکستان اور ایران بھاگ گئے تھے افغانی بھائی افغانی بھائی آپ ناراض تو نہیں ہو گے کہ پاکستان نے آپکو پناہ دی اور آپ نے یہاں بم دھماکے کر کے اپنے محسنوں کو ہی مارنا شروع کر دیا افغانی بھائی افغانی بھائی تم ناراض تو نہیں ہو گے کہ تم نے پاکستان میں ہیروئن اور کلاشنکوف کلچر متعارف کروایا اور پاکستان کے معصوم نوجوانوں کو نشے کا عادی بنا کر اپنی جائیدادیں بنائیں افغانی بھائی افغانی بھائی تم ناراض تو نہیں ہو گے کہ رشید دوستم اور اسکی ازبک و تاجک و پارسی بان ملیشیاء افغان پختونوں کو چن چن کر مار رہی تھی اور انکے گلے کاٹ کر پٹرول ڈال کر مردے کا ڈانس دیکھا کرتی تھی تو یہی پاکستانی فوج نے افغان مجاہدین و طالبان کے ساتھ اسکے ظلم کو روکا تھا افغانی بھائی افغانی بھائی تم ناراض تو نہیں ہو گے کہ تم نے پاکستان جیسے محسن ملک میں انڈین اور افغانی دہشت گردوں کو محفوظ پناہگاہیں دیں اور دہشت گرد حملے کروائے افغانی بھائی افغانی بھائی تم ناراض تو نہیں ہو گے ناں کہ تم نے جس تھالی میں کھایا اسی میں چھید کیا افغانی بھائی افغانی بھائی تم برا تو نہیں مانو گے ناں کہ جس فوج نے تمہاری آزادی کی جنگ لڑی تمہاری عزتوں کی حفاظت کی خاطر اپنی جانیں قربان کیں تم نے اسی فوج پر حملے کیئے افغانی بھائی افغانی بھائی تم برا تو نہیں مانو گے ناں کہ تمہاری غداری کی وجہ سے کسی بھی افغان مجاہد اور طالبان لیڈر نے افغانستان میں روپوشی اختیار نہیں کی افغانی بھائی افغانی بھائی تم برا تو نہیں مانو گے ناں کہ تم نے میرے ملک میں دو نمبر شناختی کارڈ بنوا کر جائدادیں خریدیں اور غیر قانونی کاموں کا سلسلہ شروع کیا افغانی بھائی افغانی بھائی تم ناراض تو نہیں ہو گے ناں کہ تم نے پاکستان میں اغوا برائے تاوان کا سلسلہ شروع کیا افغانی بھائی افغانی بھائی تم ناراض تو نہیں ہو گے ناں کہ تم نے TTP کے دہشت گردوں کے ساتھ مل کر فاٹا اور قبائلی علاقوں میں دہشت گردانہ کارروائیوں میں میرے بے گناہ پاکستانی پختونوں کو شہید کیا، انکے گلے کاٹ کر فٹبال کھیلی، انکو پھانسیاں دیں اور میرے ہی ملک میں میرے ہی مسلمان پشتون بھائیوں کی لاشیں تین تین دن لٹکتی رہتی تھیں اور کسی کو اتارنے کی اجازت بھی نہیں ہوتی تھی افغانی بھائی افغانی بھائی تم ناراض تو نہیں ہو گے اگر میں کہوں کہ جس ملک نے تمہیں پناہ دی روٹی دی عزت دی سر چھپانے کی جگہ دی تم نے اسی ملک کے خلاف سازشیں کیں افغانی بھائی تمہیں شرم تو نہیں آئے گی جب تمہارے ملک میں تمہارے آقا امریکہ نے قندوز مدرسے میں 80 سے ذیادہ معصوم حافظ قرآن بچوں کو بم مار کر شہید کردیا اور تم اور تمہاری افغان حکومت انہی امریکیوں کے بوٹوں کے تلوے چاٹتی رہی تم برا تو مانو گے مگر تمہارے ملک میں ہونے والے ظلم کا بدلہ طالبان نے لیا جبکہ تم اور تمہاری حکومت انہی طالبان کو دشمن کہتی ہے افغانیو تمہیں غیرت تو نہیں آئے گی کہ جب تمہارے ملک سے تمہاری مدد سے تمہارے دہشت گردوں نے میرے ملک کے بچوں کے اسکول پر بزدلوں کی طرح حملہ کیا اور نہتے بچوں پر انکی کلاسوں میں انکے استادوں کو زندہ جلایا گیا معصوم بچوں کو جو علم حاصل کر رہے تھے تم نے انہیں گولیوں سے چھلنی کر دیا افغانیو افغانیو تمہیں برا تو لگے گا کہ تم نے اپنی عزت اور غیرت امریکیوں، اسرائیلیوں اور انڈینز کو بیج کر جس پاک آستان نے تمہیں پناہ دی اسی کی بنیادوں پر حملہ کیا کراچی ایئرپورٹ پشاور ایئرپورٹ سے فیصل ایئربیس سے میانوالی ائربیس تک ہر جگہ تم نے حملے کیے ۔۔۔ افغانیو افغانیو تمہیں شرم تو نہیں آئے گی برا تو نہیں مانو گے کہ جب تمہاری صفوں میں سے نکلے دہشت گردوں نے مساجد پر بم باندھ کے حملے کئیے ۔۔ تم ایک لال مسجد کی بات کرتے ہوئے یہ بھول جاتے ہو کہ تم نے کتنی مساجد پر نماز کے دوران جب مسلمان اللہ کے آگے سجدہ ریز ہوتے تھے، جب تراویح میں قرآن کی تلاوت ہو رہی ہوتی تھی تم بم باندھ باندھ وہاں جا کر پھٹتے رہے ہاں برا مت ماننا کہ بس اب بہت ہو چکی اب تمہیں واپس اپنے ملک جانا پڑے گا کہ پاکستان نے جو عزت تمہیں دی وہ راس نہیں آئی تمہیں واپس اپنے ملک افغانستان جانا پڑے گا کہ جہاں امریکی ، یہودی تاجک ازبک اور پارسی بان تمہاری عورتوں کی جامہ تلاشی لیتے ہیں ہاں تمہیں واپس جانا ہی پڑے گا کہ جہاں اسلام کے سچے سپاہی ہمارے بھائی افغانی پشتون طالبان تمہارے ساتھ تمہاری حرکتوں کے مطابق سلوک کرتے کہ غدار کی سزا موت افغانی افغانی تم برا تو مانو گے مگر بس بہت ہو گئی تم ہوتے کون ہو کہ میرے پشتون بھائیوں کو اپنے ناپاک عزائم کے لئیے کبھی اسرائیل زندہ باد کے نعرے لگوا تو کبھی منظور افغانی کے ذریعے بہکانے کی کوشش کرو ۔۔۔ افغانیو کان کھول کر سن بھی لو اور سمجھ بھی لو کراچی میں بے گناہ شہید ہونے والا نقیب اللہ محسود ہمارا پاکستانی بھائی تھا اور پورا پاکستان اسکے شہید کیے جانے کے خلاف اکھٹا وہ تمہارا کچھ نہیں لگتا تھا وہ افغانی نہیں تھا وہ پکا سچا پاکستانی بیٹا تھا جسے ناپاک بین القوامی ایجنڈے میں استعمال کرنے کی ہم تو کیا اس شہید کے والد صاحب نے بھی اجازت نہیں دی ہے ۔۔۔ افغانیو برا مانتے ہو تو سو بار مانو کیا وجہ ہے نقیب اللہ محسود شہید کا باپ منظور افغانی کے جلسے میں نہیں جاتا ۔۔۔ اسکے باپ کو پاکستان سے محبت اپنے اداروں پر اعتبار تم کون ہوتے ہو میرے پاکستانی بھائی کے نام پر اپنی افغانی شیطانی سیاست چلانے والے ۔۔۔ فاٹا پر جو تمہارے TTP والوں نے حال کر رکھا تھا ہمارے ملک کا حصہ فاٹا ہم نے اسے پاک کیا اپنے پشتون بھائیوں کو تمہارے شیطانی افغانی دہشت گردوں سے تم چاہتے ہو کہ پھر سے تمہاری بدمعاشی ہو ۔۔ افغانی بھائی افغانی بھائی بس ۔۔۔ جاؤ جا کر پہلے اپنے ملک کو امریکا کی غلامی سے آزادی دلاؤ اپنی عورتوں بچوں کو انکے جنسی درندگی سے بچاؤ پھر میرے ملک کی میری فوج کی بات کرنا ۔۔۔۔ برا مت ماننا کہ سانپ کا سر کچلنے کا وقت آگیا ہے اور سانپ کا سب سے بڑا دشمن ۔۔۔۔ مارخور اب تمہیں نہیں چھوڑے گا. Admin #Snip

Tuesday, 5 June 2018

ایک جاں سوز بے چینی ہے اور تب تک رہے گی جب تک یہ مسئلہ دور نہ ہو. مطلب وہ لوگ اپنے بچوں، جوانوں، بوڑھوں کی لاشیں پاکستان کے پرچم میں لپیٹ کر دفنائیں اور پاکستان کے سکولوں میں کشمیر کو بھارت کا حصہ پڑھایا جائے؟ یعنی وہ کشمیری پاکستان کا جھنڈا بلند کرنے کے جرم میں سیدھی دل پہ گولی کھائیں لیکن جھنڈا پھر بھی نیچا نہ ہونے دیں کہ شہادت کے بعد وہی جھنڈا ان کی قبر پہ لہرایا جاتا ہے. اور ہم پاکستان میں اپنے سکولوں میں یہ پڑھائیں کہ کشمیری دراصل بھارتی ہیں؟ پچھلے اٹھ سال سے ایجوکیٹرز سکول یہی کر رہا ہے. ملک بھر کے لاکھوں بچوں کو ایجوکیٹرز سکولوں میں پڑھایا جاتا ہے کہ کشمیر بھارت کا حصہ ہے. میں بے سکون ہوں اور چاہتا ہوں کہ آپ بھی ہو جائیں. ملک سے متعلق میرا کوئی بھی مسئلہ ہو آتا میں آپ ہی کے پاس ہوں، آپ جو میرے دست و بازو ہو. آپ کو یاد ہو گا جیو نے اپنے پروگرام "آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ" میں کشمیر اور گلگت بلتستان کو بھارت کا حصہ دکھایا تھا. میں دُکھے دل اور جلتی آنکھوں کے ساتھ آپ ہی لوگوں کے پاس آیا تھا. ہم نے مل کر وہ مسئلہ سوشل میڈیا پہ اٹھایا اور اس سے اگلے دن جیو نے معافی مانگ لی تھی. اب بات اس سے بہت بڑھ کے ہے. ملک کے ہزاروں ایجوکیٹرز سکولوں کے لاکھوں بچوں کو وہ نقشہ پڑھایا جا رہا ہے جس میں کشمیر کے علاوہ گلگت بلتستان بھی بھارت کا حصہ ہیں. ایجوکیٹرز انتظامیہ والدین کی درخواستوں کے باوجود وہ نقشہ نہیں بدل رہی کیوں کہ ایک بھارتی فرم ہے جس کی انویسٹمنٹ ہے اس سکول سسٹم میں. بات ایک نقشے کی نہیں ہے. بات قوم کے باپ محمد علی جناح رح کی ہے جنہوں نے جانے سے قبل کشمیر کو پاکستان کی شہہ رگ قرار دیا تھا. بات ان لاکھوں شہداء کی بھی ہے جن کا لہو آج بھی وادی ء کشمیر میں تازہ ہے. بات سرحد پار کی میری ان ہزاروں کشمیری بہنوں کی بھی ہے جن کی عزتیں پاکستان سے محبت کے جرم پہ لوٹ لی گئیں. بات میری ان کم سن بیٹیوں کی بھی ہے جن چادروں پہ آج بھی بے غیرت ہندو درندے ہاتھ ڈالیں تو وہ امید بھری نظروں سے یہاں پاکستان کی جانب دیکھتی ہیں. کیا یہ سودا اتنا سستا ہے کہ ایجوکیٹرز والے چند لاکھ ڈالرز کے عوض کر لیں؟ آج سے عہد کر لیں ہم تب تک سکون سے نہیں بیٹھیں گے جب تک ایجوکیٹرز سکول اپنی درسی کتابیں درست کر کے قوم سے معافی نہیں مانگتا. چاہے پورے ملک کے ایجوکیٹرز سکولوں پہ تالے بھی پڑ جائیں ہمیں گوارہ ہے. لیکن ہمیں یہ گوارہ نہیں کہ کشمیری ہمیں بے وفا کہہ کر یہ گلہ دیں کہ تم ہمیں آزاد کروانے سے پہلے اپنی کتابوں کو تو ٹھیک کروا لو. ایجوکیٹرز کو اس سازشی کھیل کی اجازت نہیں دی جائے گی چاہے ملک بھر سے اس ادارے کا بوریا بستر گول ہی کیوں نہ کر دیا جائے۔ یہ یاد رہے کہ ایجوکیٹرز بیکن ھاؤس کی ایک زیلی شاخ ہے اور بیکن ھاؤس وہ ادارہ ہے جس کی طلباء ایامِ حیض کی نمائش کرتی رہی تھیں۔ اور اب ایجوکیٹرز یہ پڑھا رہا ہے کہ کشمیر بھارت کا ہے سنگین علی زادہ

اک قیامت جو سر پہ آ کھڑی ہے. درختوں کی قلت کے باعث کراچی میں سینکڑوں ہلاکتیں ہوئیں کسی کو کوئی فرق پڑا، کوئی تکلیف ہوئی؟ آپ کو؟ آپ کے اردگرد موجود لوگوں کو؟ مجھے اور میرے اردگرد رہتے لوگوں کو؟ خود کراچی کے شہریوں کو؟ ان کو بھی چھوڑیں جو مرے ان کے گھر والوں کو کوئی تکلیف ہوئی؟ نہیں ہر گز نہیں. اچھا تکلیف سے مراد رونا پیٹنا یا افسردہ ہونا نہیں ہے. ایک جانور کا بچہ بھی مر جائے تو افسردہ تو وہ بھی ہوتا ہے. تکلیف سے مراد یہ ہے کہ گرمی کی شدت سے ہونے والی ہلاکتوں پہ کسی نے دکھ اور تکلیف سے سوچا کہ اگر کراچی میں مطلوبہ تعداد میں درخت لگائے گئے ہوتے، اگر گلوبل وارمنگ کو روکنے کےلیے اقدامات کیے گئے ہوتے تو شاید وہ مسکین جو گرمی کی بھینٹ کی چڑھے وہ بچ جاتے. سینکڑوں مر گئے ہم لوگ جیسے تھے ویسے اب بھی ہیں. سینکڑوں مزید مر جائیں گی ہم لوگ جیسے ہیں ویسے تب بھی رہیں گے. یہ تو گرمی کی صورت حال تھی. پانی کی قلت کا مسئلہ آگے سر پہ کھڑا ہے. تھر میں بھوک پیاس سے مرنے والے چار سو کے لگ بھگ بچے یاد ہیں؟ مجھے یا تمہیں کوئی تکلیف ہوئی تھی کوئی فرق پڑا تھا؟ تب تو بھارت نے ڈیم بھی نہیں بنایا تھا. اب جب بھارت ڈیم پہ ڈیم بنا چکا ہے اور قریب ہے کہ ہم لوگ پانی کی بوند بوند کو ترسیں. روٹی کے چند لقموں کی خاطر لوگ قتل ہوتے ہیں قتل کرتے ہیں اب جب پانی کےلیے بھی یہ صورت حال ہونے جا رہی ہے تو آپ کو کیا لگتا ہے ہمیں کوئی فرق پڑے گا؟ نہیں تو ہر گز نہیں. کیسے پڑ سکتا ہے. کراچی اور تھر والوں کی اموات پہ نہیں پڑا تو بعد میں کیسے پڑے گا. کراچی میں درخت لگانے اور گلوبل وارمنگ گھٹانے کےلیے کہیں ہم نے کوئی آواز اٹھائی ہو، کوئی مظاہرہ کیا ہو کوئی تحریک چلائی ہو؟ ککھ وی نئی. یہی مردہ ضمیری، بے غیرتی اور بے حسی پانی کے مسئلے پر ہے. نا ہم میں سے کوئی بھارت کی آبی جارحیت کے خلاف بولا نا کالا باغ ڈیم کےلیے بولا، نا پانی کی بچت اور لانگ ٹرم منصوبوں کےلیے بولا. کوئی کیوں بولے گا جب کسی کو پتہ ہی نہیں کہ قومی مسئلہ ہوتا کیا ہے اور اس کا قوم کے ہر فرد کو کیسے نقصان ہوتا ہے. تو پھر سن لو، اجتماعی گناہوں کی سزا اجتماعی ہوتی ہے اے کھوتا خور کتا خور مردار خور عوام کے جمِ غفیر (جس میں آپ بھی ہو اور میں بھی ہوں) خدا زمین کو تمہارے لیے جہنم کا اعلی نمونہ بنا چکا ہے. یہ دھوپ جو کبھی زندگی بخش ہوتی تھی آج تمہیں تَلی ہوئی لاشوں میں تبدیل کر رہی ہے، تمہاری بے حسی کے عوض. یہ پانی بھی جو ہمیں اور ہماری زمینوں کو حیات بخشتا ہے اب اپنا منہ ہم سے پھیر چکا ہے. تھوڑے عرصہ تک، تمہاری زمینیں جو کبھی سونا اگلتی تھیں زہر بھی نہیں اگا سکیں گی جس کی ایک چٹکی کھا کے تم خود کشی کر سکو. لیکن تمہیں اور تمہاری قیادت کو کوئی ضرورت نہیں ہے اس پہ بولنے کی. جس بے حسی کا مظاہرہ کرتے چلے آ رہے ہو، اسی کا کرتے رہو. وہ وقت اب دور نہیں رہا جب تم اپنی پیاس بجھانے کےلیے اپنی ہی رگوں کا لہو پینے پہ مجبور ہو جاؤ گے. اسے کسی سر پھرے کی دھمکی یا کسی مجنون کی ھاھو نہ سمجھنا. گرمی کے تیور تمہاری آنکھوں کے سامنے ہیں، منتظر رہو جب پانی ناپید ہو جائے گا. اور ہاں بھارت یا حکومت کو گلہ دینے سے پہلے اپنے گریبان میں ضرور جھانکنا. گرمی کی بھیانک صورت یہ جو مل رہی ہے ہمارے اجتماعی کرتوتوں کی اجتماعی سزا ہے. پانی کی جان لیوا قلت کی صورت وہ جو ملے گی وہ بھی ہماری اجتماعی بے حسی کی اجتماعی سزا ہو گی. چلو اب پڑھ کے ہمیشہ کی طرح نظر انداز کرو اور کھیل کود میں لگ جاؤ. سنگین علی زادہ.

منتخب اور خالص جمہوری حکمرانوں نے قوم کے وسیع تر مفاد میں الیکشن کے لیے نامزدگی فارم سے مندرجہ ذیل شقیں ختم کر دیں۔ 1۔ موجودہ اثاثے ظاہر کرنے کی شق کا خاتمہ۔ 2۔ دوہری شہریت نہ ہونے کا حلف نامہ حذف 3۔ تعلیمی قابلیت اور ڈگری ظاہر کرنے کی پابندی ختم 4۔ انکم ٹیکس اور زرعی ٹیکس کی معلومات فراہم کرنے کی شق کا خاتمہ 5۔ بچوں اور دیگر افراد خانہ کے لئے "زیر کفالت" کے الفاظ کی تبدیلی 6۔ بیوی بچوں کے اثاثے ظاہر کرنے کی شق کا خاتمہ 7۔ بینکوں یا دیگر مالیاتی اداروں سے معاف کرائے گئے قرضوں کو ظاہر کرنے کی شق ختم 8۔ تھانوں اور عدالتوں کا کریمنل ریکارڈ ظاہر کرنے کی شق کا خاتمہ 9۔ گزشتہ تین برس کے دوران غیر ملکی دوروں کی تفصیلات فراہم کرنے کی پابندی کا خاتمہ 10۔ غلط معلومات فراہم کرنے کی صورت میں اسمبلی کی رکنیت سے محرومی کا حلف نامہ حذف یعنی اگر وہ غلط بیانی بھی کریں تو اس پر ان کے خلاف ایکشن نہیں لیا جا سکتا۔ اس کے خلاف ھائی کورٹ میں درخواست دائر کی گئی تو ہائی کورٹ نے نامزدگی فارم میں کی گئی ان تبدیلیوں کو فوری طور پر معطل کر دیا۔ اسی وقت پاکستان میں عدل و انصاف کے علمبردار سابقہ اور موجودہ " منصف اعظم" حرکت میں آئے۔ سپریم کورٹ کے سابقہ " منصف اعظم" ناصر الملک ( موجودہ نگران وزیراعظم) نے لاھور ھائی کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کی۔ ( یاد رہے کہ یہ ناصر ملک وہی جج ہیں جس نے افتخار چودھری کے ساتھ ملکر آصف زردای کی سویزرلینڈ میں موجود دولت قرق ہونے سے بچائی تھی ) اور اہم ترین فیصلوں پر کڑک مرغی کی طرح بیٹھے موجودہ منصف اعظم ثاقب نثار نے فوری فیصلہ سناتے ہوئے ھائی کورٹ کا فیصلہ کلعدم قرار دے دیا۔ دونوں " منصفوں " نے بیان جاری فرمایا کہ " انتخاب وقت پر ہونا ہی اصل مقصود ہے" امیداوار کون ہے؟ کیسا ہے؟ سے فرق نہیں پڑتا۔ اب عوام کسی امیدوار کے اثاثوں، تعلیم، شہریت، اقاموں، جائداد اور غیر ملکی فلیٹس، ٹیکس، زیر کفالت بیوی بچوں، قرضوں، جرائم اور غیر ملکی دوروں کے بارے میں نہیں جان سکے گی۔ نیز بیان حلفی ختم ہونے سے معلومات فراہم کرنے کے جو خانے چھوڑ دئیے ہیں ان میں بھی جھوٹ لکھا جا سکتا ہے! چنانچہ اتنخابی فارم میں مذکورہ تبدیلیوں کے بعد اب ایم کیو ایم کے الطاف حسین اور ٹی ٹی پی کے ملا فضل اللہ بھی انتخاب میں حصہ لے سکتے ہیں۔ تاہم دونوں " اعلی ترین " جج اور حکمران یہ بتانے پر تیار نہیں کہ ۔۔۔ حکمرانوں کو یہ شرانط ختم کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ اور یہ شرائط ختم کرنے میں عوام کا کیا فائدہ ہے؟؟ تحریر شاہدخان نوٹ ۔۔ کمنٹ میں موجود لنک پر کلک کر کے آپ آصف زرداری صاحب کی دولت اور اثاثوں کے بارے میں جان سکتے ہیں ۔۔۔ :)

امریکہ دانشوروں میں سے ایک جنرل ضیاءالحق مخالف دانشور سلیگ ہیرسن نے واشنگٹن پوسٹ میں لکھا تھا کہ "ضیاءالحق کے مر جانے کے بعد بھی جنرل کی روح پاکستان اور امریکہ کی افغان پالیسی پر چھائی ہوئی ہے مرحوم نے جو طاقتور ملٹری اینٹلیجنس تنظیم (آئی ایس آئی) قائم کی تھی آج بھی وہی افغان معاملات کو کنٹرول کر رہی ہے" آج امریکہ افغانستان میں بری طرح شکست کھا چکا ہے اور ہم نہایت منافقت اور بے انصافی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک طرف افغان مجاہدین پر داد و تحسین کے ڈونگرے برسا رہے ہیں اور دوسری طرف پاکستان میں برپا ہر فساد کی جڑ جنرل ضیاءالحق کو قرار دیتے ہیں ہم اپنے تعصب میں اتنے آگے چلے جاتے ہٰیں کہ اس بات کو بھی نظر انداز کر دیتے ہیں کہ امریکہ کو شکست دینے والے سارے گروہ بشمول ملا عمر، حقانی، گل بدین اور یونس خالص وغیرہ یا جنرل ضیاءالحق کے دور کی پیداوار تھے یا پاکستان آئی ایس آئی کے ان لوگوں نے ان کو تیار کیا تھا جو جنرل کی پالیسیوں کے حامی تھے جیسے جنرل اختر عبدالرحمن جنرل حمید گل اور کرنل امام وغیرہ یہ ماننا پڑے گا کہ جنرل کی روح آج بھی افغان پالیسی پر چھائی ہوئی ہے اور امریکہ جنرل ضیاءالحق سے بالاآخر شکست کھا رہا ہے جنرل ضیاءالحق کے نام پر تعصب کی گرد پڑی ہوئی ہے اور اسکو کبھی انصاف کے ساتھ پڑھا اور سمجھا نہیں گیا وہ جنرل جس نے روس جیسی سپر طاقت کو شکست دی جس نے امریکہ کی دم پر دس سال تک پاؤں رکھے رکھا اور کبھی پاکستان کے معاملے میں اپنے کسی موقف پر ذرا بھی لچک نہٰیں دکھائی جس نے انڈیا کو اتنا خوفزدہ کر دیا تھا کہ وہ کہنے پر مجبور ہو گئے تھے کہ "اگر ضیاءالحق زیادہ دیر زندہ رہا تو انڈیا کا شیرازہ بکھر جائے گا" جس نے بغیر کسی دباؤ کے نہایت تیزرفتاری سے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی تکمیل کی وہ ضیاءالحق جس کے دور میں پہلی بار افغانستان کے اندر "پاکستان زندہ باد" کے نعرے لگے وہ ضیاءالحق جب شہید ہوا تو دنیا کے ستر سے زائد ممالک کے سربراہان اور ملک بھر سے دس لاکھ سے زیادہ لوگوں نے اسکے جنازے مٰیں شرکت کی جو اسکا ایسا ریفرنڈم تھا جو تا قیامت اسکو امر کر گیا! یہ وہی ضیاءالحق ہے جس نے کہا تھا کہ "میں اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے کم از کم اتنا کام ضرور کر دینا چاہتا ہوں کہ پھر آنے والے وقت میں کسی کے لیے پیچھے ہٹنا اور واپس لوٹنا ممکن نہ رہے" اور اس نے کر دکھایا جنرل ضیاءالحق ایک غیر معمولی لیڈر تھے شائد ان عظیم مسلم لیڈروں میں سے ایک جو پوری امت مسلمہ کی تاریخ مٰیں مسلمانوں کو نصیب ہوئے میں جنرل کے نام سے اس گرد کو جھاڑنے کی کوشش ضرور کرتا رہوں گا اور ان شاءاللہ ان سارے معاملات پر لکھوں گا جن کا کسی طرح بھی جنرل ضیاءالحق سے تعلق بنتا ہے میں کوشش کروں گا کہ واقعات کو لکھوں تا کہ یہ پوسٹیں محض تعریف و توصیف کے گوشوارے نہ بنیں بلکہ عوام ان واقعات کی تصدیق کر کے خود نتائج اخذ کر سکے میں ہرگز کوئی لکھاری نہیں اور میرا علم بھی محدود ہے لیکن اسکے باوجود انشااللہ میں پوری طاقت سے لکھوں گا اور اس معاملے میں کسی بھی مخالفت کی مجھے پرواہ نہٰیں جنرل ضیاءالحق شہید مجھے آج بھی بہت سے "زندوں" سے زیادہ عزیر ہے. عالم اسلام کا عظیم مجاھد جرنیل جسے ایک عالمی سازش کے تحت شہید کروا دیا گیا 😢 شہید حق جنرل ضیاءالحق رحمتہ اللہ علیہ دفاع پاکستان.محمد قاسم

مغرب اور امریکہ میں آئی ایس آئی کے بارے میں مشہور ہے کہ آئی ایس آئی کسی کے قابو میں نہیں آتی، سپر پاورز کی نفسیات ہوتی ہے کہ وہ ہمیشہ ترقی پذیر اور کمزور ممالک کو کسی نہ کسی طریقے سے اپنا محتاج بنا کر رکھتی ہیں تاکہ ضرورت پڑنے پر انہیں بلیک کرکے یا بزور طاقت اپنی بات منوائی جا سکے، یہاں یہ بات واضح رہے کہ امریکن جو پینٹاگان اور واشنگٹن میں بیٹھ کر پوری دنیا کے امور دیکھتے ہیں،یہ لوگ اپنی حتی الامکان کوشش کر چکے ہیں کہ پاکستان کو اپنی مرضی سے استعمال کیا جا سکے اور ان کے اس مقصد کی تکمیل میں آئی ایس آئی اور پاکستان آرمی سب سے بڑی رکاوٹ ہیں مثال کے طور پر روس افغانستان جنگ میں امریکہ پاکستان کو افغانستان کے خلاف استعمال کرنا چاہتا تھا، جواب میں پاکستان میں امریکہ کو ہی روس کے خلاف استعمال کر لیا۔ روس افغان جنگ کی آڑ میں آئی ایس آئی نے پاکستان کا جوہری پروگرام مکمل کیا، جس پر امریکہ آج تک سر پیٹتا ہے۔ امریکہ افغانستان کے جنگجو سرداروں سے رابطے بڑھا کر مستقبل میں انہیں اپنے لئے استعمال کرنا چاہتا تھا، آئی ایس آئی نے یہ بھی ناکام بنا دیا۔ اپنے زمینی حقائق کے مطابق آئی ایس آئی نے امریکہ کی سیاسی مداخلت کو پاکستان میں کبھی اعلانیہ اور کبھی خفیہ طور پر روکا۔ پاکستان کے مخالفین کیلئے نظریہ پاکستان اس ملک کا بہت بڑا مسئلہ ہے کیونکہ یہ نظر یہ پاکستان ہی ہے جس کی وجہ سے پاکستانی نہ صرف ہندوستان بلکہ تمام غیر مسلم اقوام سے جدا ہوکر اپنی الگ انفرادی شناخت بناتے ہیں۔ یہ انفرادی شناخت ایک طرف گلوبل ازم کے خواب دیکھنے والوں کی آنکھوں میں کھٹکتی ہے تو دوسری طرف بھارت سے تعلقات کیلئے ایک حد مقرر کرتی ہے۔اس نظریہ کو مسخ کرنے کیلئے عالمی سطح کی گئی کوششوں کو ہمیشہ سے آئی ایس آئی نے ناکام بنایا۔ امریکہ نے دنیا بھر کی اقوام کو یہ باور کروایا کہ پاکستان افغانستان کے اسلام پسند دہشتگردوں کو مدد دیر ہا ہے۔ آئی ایس آئی نے صرف ایک حرکت کی اور عالمی سطح پر اس تاثر کو عام کیا کہ گورے جن کو اسلام پسند دہشتگرد کہہ رہے ہیں وہ اپنی آزادی کیلئے لڑرہے ہیں۔ آئی ا یس آئی نے دنیا بھر کو دہشتگردی، انتہا پسندی اور جنگ آزادی کے درمیان واضح فرق بناکر دئیے۔بالآخر دنیا کو تسلیم کرنا پڑا کہ نہیں بالکل ویسا نہیں جیسا امریکہ بتارہا ہے کچھ پاکستان کی بھی سنو۔یہی چال بھارت نے کشمیر کے حریت پسند جنگجووں کے متعلق چلی اور کہا کہ پاکستان جیش محمد اور لشکر طیبہ کے دہشتگردوں کی مدد کرتا ہے۔ یہ آئی ایس آئی تھی جس نے بتایا کشمیر میں لڑنے والے بھارت کی بربریت کی وجہ سے کھڑے ہوئے ہیں۔ پاکستان کے نیوکلیئر پروگرام کے متعلق عالمی سطح پر امریکہ اور یورپی یونین کے ممالک نے اتنا شور مچایا کہ گمان ہونے لگا کہ دنیا ایک چلتے ہوئے ٹائم بم کے اوپر رکھی ہوئی ہے جو کسی بھی وقت پھٹے گا اور دنیا تباہ ہو کر رہ جائے گی۔اس کے علاوہ کہا گیا کہ پاکستان کے ایٹمی ہتھیار عنقریب دہشت گردوں کے قبضے میں چلے جائیں گے اور انگریز صفحہ ہستی سے مٹ جائیں گے۔ یہاں یہ بات واضح رہے کہ آئی ایس آئی پاکستان کے دفاع کی پہلی اور آخری لائن ہے۔ خدانخواستہ اگر آئی ایس آئی کو درمیان سے ہٹا دیا جائے تو نہ آپ کا ایٹم بم محفوظ ہے، نہ آپ کا نظریہ محفوظ رہتا ہے اور نہ ہی آپ کا جغرافیہ اور سرحدی وجود سلامت رہتا ہے۔ آئی ایس آئی پاکستان کے دشمنوں کی جھنجھلاہٹ، گھبراہٹ اور ندامت کی علامت ہے۔ پاکستان کے خلاف حیلے بہانے کرکے نقصان دینے والے عناصر جب اپنے مقاصد میں ناکام ہوتے ہیں تو رخ پاکستان سے ہٹاکر آئی ایس آئی کی طرف موڑ لیا جاتا ہے ۔

ایک عظیم گمنام مارخور کی داستان کیپٹن قدیر شہید ہیرو پاکستانی دوستو کچھ دن پہلے آپ نے سوشل میڈیا پر ایک روڈ ایکسیڈنٹ میں شہید ہونے والے پاک فوج کے کیپٹن کی خبر سنی ہوگی آج آپ کو اس ہیرو کے ایسے سچے کارنامے بتاتا ہوں کہ سن کر حیران ہو جائیں یہ انسان نہی فرشتہ تھا وطن کی مٹی کی محبت میں اس فرشتے نے خود کو مٹی مٹی کر دیا کیپٹن قدیر کا تعلق ایک بہت بڑے زمیندار گھرانے سے تھا خود کیپٹن قدیر 300ایکٹر قابل کاشت آراضی کا زاتی مالک تھا سونا کا چمچمہ منہ میں لیا پیدا ہوا یہ نوجوان جب بڑا ہوا تو وطن عزیز کی حفاظت کیلئے پاک فوج میں بھرتی ہوگیا اس کے رشتے داروں نے اس پر طنز کیا کہ جب روپیہ پیسہ کی گھر میں ریل پیل ہے تو نوکری کرنے کی کیا ضرورت ہے تنخواہ پر نوکر بن رہے ہو یہ سن کر کیپٹن قدیر کا خون جوش مارنے لگا اور چیخ کر کہا فوجی تنخواہ کے لیے بھرتی نہی ہوتا ہے فوجی تو وطن عزیز کی حفاظت کی خاطر بنتے ہیں اور میں اس ملک پر اپنا تن من دھن سب قربان کر دونگا یہی جذبہ لے کر یہ نوجوان فوج میں سیکنڈ لیفٹینٹ بھرتی ہوتا ہے مقابلہ کا امتحان پاس کرکے اور ترقی کرکے کیپٹن بن جاتا ہے اس کا جذبہ دیکھ کر اسے خفیہ ایجنسی ملٹری انٹیلی جینس میں بھیج دیا جاتا ہے جہاں پر مزید اسے بلوچستان خفیہ مشن پر بھیج دیا جاتا ہے اس کے زمہ یہ مشن لگتا ہے کہ بلوچستان میں را کا نیٹ ورک تلاش کرنا ہے اور دہشتگردوں کو ختم کرنا ہے را کے نیٹ ورک کو تلاش کرنے کے لئے مٹی کی محبت میں یہ جنونی انسان جس نے اپنی ساری جوانی نرم گرم بستروں پر گزاری جہاں گھر میں نوکر چاکر کی بھر مار تھی ایک ایک چیز بستر پر نوکر چاکر آرڈر کرکے لے آتے تھے مگر آفرین آفرین اس شیر دل ہیرو کی اپنے دیس کو دشمنوں سے بچانے کے لئے یہ جنونی کوڑا چننے والا بن جاتا ہے اور پورے تین سال یہ جنونی بلوچستان کے مخلتف شہروں میں فقیر بن کر کوڑا چنتے چنتے گزار دیتا ہے اس کا بستر بھی کوڑا کرکٹ کا ڈھیر وہی اس کا کھانا پینا سخت ترین سردیوں میں یہ جنونی ایک انتہائی بدبودار پھٹے پرانے کمبل میں کھلے آسمان تلے گزارتا ہے صرف دیس کی حفاظت کیلئے آخر اس کی محنت رنگ لاتی ہے اور یہ را کے بہت بڑے نیٹ ورک کلبھوشن تک پہنچنے میں کامیاب ہوجاتا ہے جی ہاں دوستو کلبھوشن جیسے مشہور ومعروف دہشتگرد کو پکڑنے کے پیچھے اس جنونی مارخور کی تین سال کی محنت ہوتی ہے اور اس ماہ رمضان کے آغاز میں سلمان نامی دہشت گرد جس کو مارتے مارتے ہمارے کرنل سہیل خود شہید ہوگئے تھے اس کی اطلاع دینے والا بھی یہی مار خور تھا آج بلوچستان میں جو امن وامان قائم ہوا ہے تو اس کے پیچھے اس جنونی نوجوان کا بہت بڑا کردار ہے کیپٹن قدیر کے اتنے بڑے بڑے کارنامے ہیں کہ لکھنے کے لئے کتابیں کم پڑ جائیں میں سوچ رہا ہوں دوستو یہ کیسا انسان تھا 300 ایکڑ اراضی کا مالک شخص کس طرح تین سال کوڑا چننے والا فقیر بنا رہا کس طرح بدبودار کمبل میں اس نے تین سال گزار دیے ایسے لوگ انسان ہرگز نہی ہوسکتے یہ فرشتہ تھا ہم جیسے نام نہاد حب الوطنی کے دعویدار ایک رات بھی کوڑا کرکٹ کے ڈھیر پر نہی گزار سکتے مگر اس شخص نے ہم پاکستانیوں کو سکھ امن دینے کی خاطر اپنے گھر کے نرم گرم بستروں کو لات مار دی اور کچھ نام نہاد فیس بُکی دانشور سارا دن ان فوجیوں کو تنخواہ دار چوکیدار ہونے کے طعنے دیتے ہیں میری فوج کو طعنے دینے والو یہ ایک امیر کبیر شخص تھا دولت اس کے گھر کی لونڈی تھی مگر یہ پاکستان کی خاطر فوجی بنا اور فوجی تنخواہ کے لئے نہی بنتے فوجی تو مجاہد ہوتے ہیں جو وطن عزیز کی خاطر بنتے ہیں شہید کیپٹن قدیر میرے ہیرو میرے پاس تیری تعریف کے لئے الفاظ نہی ہیں تو عظیم ہے ھاں اتنا کہتا ہوں شہید کیپٹن قدیر جیسے مجاہدوں کے مٹی سے اٹے بوٹ چومنا آنکھوں سے لگانا میرے لیے بہت بڑی سعادت کا درجہ رکھتا ہے میرے پیر ومرشد میری فوج ہے میرے شہید ہیں کیپٹن قدیر شہید آپ کے کارنامے تاریخ میں سنہری الفاظ میں لکھے جائیں گے خاص طور پر کلبوھشن کو پکڑنے کے لئے جس طرح تو نے تین سال کوڑا کرکٹ کے ڈھیر پر گزار دیے اے پاک فوج کے شہیدو ہم پاکستانی تمہارے احسان مند ہیں ہم یاد رکھیں گے مت سمجھو ہم نے بھلا دیا شہید تم سے یہ کہ رہے ہیں لہو ہمارا بھلا نہ دینا یہ تحریر لکھتے ہوئے میں نے گھنٹوں لگا دیئے اور بےشمار بار بلک بلک کر روتا رہا بار بار میرے سامنے کیپٹن قدیر کی کوڑا کرکٹ والی تصویر گھومتی رہی مٹی سے اٹے پاؤں میلے کچیلے پھٹے کپڑوں میں بھی اس کی آنکھوں میں ایک چمک ہے چیتے جیسی چمک شہزادہ لگ رہا ہے وطن کی مٹی گواہ رہنا وطن عزیز کی خاطر ہم نے کیسے کیسے خوبصورت شہزادے قربان کیے پاکستانیوں قدر کرو اپنے شہیدوں کی اپنی فوج کو عزت دو اور فوج کے شانہ بشانہ کھڑے ہو جاؤ اگر فوج کے شانہ بشانہ کھڑے نہ ہوئے تو یاد رکھنا داستان تک نہ ہوگی تمہاری داستانوں میں پاک فوج زندہ باد پاکستان ہمیشہ زندہ باد

Monday, 4 June 2018

کالاباغ ڈیم کا تنازعہ او اسکا حل اگر آپ لوگوں کے پاس اس بارے کوئی علم ہو تو شئیر کرے کمنٹ میں یہ پوسٹ صرف جائزے و تبصرے کیلئے ہیں کوئی اس کے حق میں ہیں کوئی نہیں ہمیں بھی پوری طرح پتہ نہیں اگر آپ حق میں ہیں تو دلیل کے ساتھ کمنٹ کرے اور اگر حق میں نہیں تو بھی۔۔ خیر آباد کا وہ مقام جہاں پر دریائے کابل اور دریائے سندھ ملتے هیں، کالا باغ ڈیم اس پوائنٹ سے 92 میل ڈون سٹریم فاصلے پر ہے ـ اس منصوبے کی پی سی ون کے مطابق اس ڈیم میں 105میلن ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش ہوگی ـ علاوہ ازیں اس سے2400میگاواٹ سے لیکر 3600 میگاواٹ تک بجلی بھی حاصل کی جاسکے گی، کالاباغ ڈیم کی جھیل کا کل رقبہ162 مربع میل ہوگا، اس میں 92 میل دریائے سندھ کی طرف، 36میل سواں کی طرف او10 میل دریائے کابل کی طرف ہوگا ـ ماہرین کے مطابق اس سے 1,36000زمین نیچھے آئے گی ـ ایک مختاط اندازے کے مطابق اس سے دو لاکھ افراد بےگھر ہونگے، جس میں ایک لاکھ بیس ہزار کے پی کے اور اسی ہزار پنجاب سے بے گھر ہونگے . کالاباغ ڈیم کی تعمیر کے بعد ایک سال سے لیکر چار سال بعد بھی 60 ہزار ایکڑ مزید زمین سیلاب سے متاثر ہوگی اور بیس دیہات زیرآب آئینگےـ اسکے علاوہ ستر ہزار لوگوں کو دوبارہ بحالی کرنی پڑے گی اور ایک لاکھ 75 ہزار لوگوں کو اپنی مال اور جائیداد کو محفوظ کرنے کی ضرورت پڑے گی ـ پوری دنیا میں بڑے بڑے ڈیموں کا رواج ختم ہو ریا ہے، چھوٹے اور درمیانہ ڈیموں کی تعمیر پر زبردست توجہ دی جا رہی ہے ـ کیونکہ ایک تو یہ دفاعی نوعیت سے محفوظ اور ماحول دوست ہوتے ہیں ـ عالمی بینک اور دوسرے عالمی مالیاتی ایجنسیوں نے ماحولیاتی بگاڑ، لوگوں کی بے گھر ہونے اور قدرتی افات کی وجہ سے قرضے دینے بند کر دیئے ہیں، امریکہ اور دوسرے یورپی ممالک نے بڑے ڈیمز بنانا چھوڑ دیئے اور جو بڑے ڈیم موجود بھی ہے انکو بھی توڑا جا رہا ہےـ عالمی بینک اور دوسرے بڑے بڑے ادارے عالمی برادری کو مجبور کر رہے ہیں کہ بڑے ڈیموں کے بجائے چھوٹے اور درمیانہ ڈیموں کی تعمیر اور متبادل زرائع توانائی کے فروغ پر خصوصی توجہ دی جائیں ـ کالاباغ ڈیم پر ماسوائے پنجاب کے تینوں صوبوں کے تحفظات ہیں ـ اور تینوں صوبائیوں اسمبلیوں میں اس کی مخالفت میں قراردادیں بھی منظور کی ہیں، تو پھر جمہوری اور اخلاقی قدروں کا تقاضا تو یہ ہے کہ اس متنازعہ منصوبے کی تعمیر کو ترک کیا جائے، جہاں تک کے پی کے کے تحفظات ہیں ان کے مطابق کالاباغ ڈیم جس کی اونچائی تقریباً 490 فٹ ہوگی اس سے پچیس کلو میٹر نیشنل ہائی وی پانی میں ڈوب جائے گا ـ اسکے علاوہ چار کلومیٹر مردان نوشہرہ سڑک، پندرہ کیلومیٹر نظام پور اٹک سڑک اور پچیس کلو میٹر پیرسباق جہنگیرہ روڈ پانی میں ڈوب جائے گی، علاوہ ازیں خیر اباد اور نوشہرہ کے درمیان آٹھ کلومیٹر اور نوشہرہ و مردان کے درمیان بارہ کلومیٹر ریل پٹڑی پانی میں ڈوب جائے گی ـ خوشحال گڑ کا پل مکمل پانی میں ڈوب جائے گا اور خیر اباد پل بیس فٹ مزیداونچا تعمیر کرنا پڑے گا، جہانگیرہ روڈ کو پچاس فیصد دوبارہ تعمیر کرنا پڑےگا، نوشہرہ مردان پل کو مزید بارہ فٹ اوپر کرنا پڑے گاـ مردان، جہانگیرہ، نوشہرہ اور اٹک میں ٹیلی کام، بجلی اور گیس کنکشن نئے سرے سے بچھائی جائیںگی ـ مردان، چارسدہ اور صوابی کا ایک لاکھ پچاس ہزار ایکڑ زرخیز زمین جو سکارپ کی مدد سے قابل کاشت بنا دی گئ ہے،اسکو مسقبل میں سیم وتور کی وجہ سے مزید خطرات لاحق ہونگے ـ کالاباغ کی لمبائی 940 فت کریسٹ الیویشن ہے، 1929 اور 1978میں اس علاقے میں جو سیلاب ایا تھا اسکی اونچائی بالترتیب 951اور فٹ تھی، ڈاکٹر کنیڈی کے رپورت کی مطابق اگر ماضی کی طرح سیلاب اتا ہے تو اس سے نہ صرف چارسدہ، مردان، جہنگیرہ اور صوابی بلکہ پشاور ویلی اور کئ علاقے بھی پانی میں ڈوب جائیں گے، بلکہ یہ سیلابی پانی کالا باغ ڈیم کی جھیل سے بھی اونچا ہوگا، اسکے علاوہ اس کو غازی بروتھا کو بھی شدید نقصان پہنچ سکتا ہے، پانی کے بیک پریشر کی وجہ سےمردان، صوابی، چارسدہ اور سکارپ جس پر تربیلا ڈیم کی وجہ سے اربوں روپے خرچ کئے گئے ہیں، یہ منصوبہ قطعی طور پر ناکام ہوگا، اس ڈیم کی بنے کی وجہ سے پانی زمین میں جذب ہوگا جس سےپرانی اور جدید عمارتیں تباہ ہو جائیں گے کیونکہ کالاباغ ڈیم کی تعمیر کے بعد، نوشہرہ، مردان، صوابی، جہانگیرہ، چارسدہ اور پشاورمیں پانی ان عمارتوں کے بنیادوں میں چلا جائے گا،کرک اور مضافاتی علاقوں میں ڈیم کی وجہ سے پانی نمکین ہوجائے گا، جو پینے کی قطعاً قابل نہ ہوگا، یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ یہ ڈیم نہ صرف زلزلہ والے علاقے میں موجود ہے بلکہ یہ میاں والی، کالاباغ، کھیوڑہ اور کوہاٹ کا علاقہ سالٹ رینج میں بھی واقع ہے جس سےڈیم کو مزید نقصان پہنچ سکتا ہے۔ بلوچستان اور سندھ کے تحفظات !!! جہاں تک بلوچستان کی تحفظات کا تعلق ہے تو اس کا کہنا ہے کہ اگر کالاباغ ڈیم بن گیا تو اسے بلوچستان کی پانی میں مزید کمی ہوگی ـ بلوچستان گدو اور پٹ فیڈر سے 3400 کیوسک پانی لے رہا ہے جو تین لاکھ ایکڑ زمین سیراب کر رہا ہے ـ اگر کالاباغ ڈیم بن گیا تو اس سے بلوچستان کے پانی میں مزید کمیِ واقع ہوگی، کیونکہ دریائے سندھ کے استعداد میں کمی اجائے گی جس سے بلوچستان کو مستقبل میں ضرورت پورہ کرنے کےلئے پانی میسر نہیں ہوگا، اسکے علاوہ صوبہ بلوچستان کی قیادت کا کہنا ہے کہ جب تینوں صوبوں نے اس ڈیم کی مخالفت کی ہے تو پنجاب کیوں چہوٹوں صوبوں پر زبردستی اپنی مرضی ٹونسنا چاہتا ہے، جبکہ سندھ کا کہنا ہے کہ کے پی کے تو سیلاب کی تباہ کاریوں سے تباہ ہو جائے گا بلکہ صوبہ سندھ پانی کی کمی کی وجہ سے انتہائی نامساعد حالات کا سامنا کرے گا ـ نمکین پانی دریائے سندھ میں داخل ہونگے جس سے بیماریوں میں اضافہ ہوگا ، فصلون کو نقصان پہنچے گا اور زمین بنجر ہو جائے گا ـ ملک کے نامی گرامی ہائیڈرالوجسٹ ڈاکٹر اقبال علی کا کہنا ہے کہ جب زمین میں نمک کی مقدار ڈھائی فیصد ہوتی ہے تو اس سے زمین کی پیدوار متاثر ہوتی ہے جب زمین میں نمکیات کی مقدار 6 فیصد تک ہوتی ہے تو اسی زمین میں حیات ناممکن ہوتا ہے، اس سے صوبہ سندھ کا 270 ملین ایکڑ زمین سیم و تور سے ناقابل کاشت ہو جائیے گی، ان کا یہ بھی خیال ہے کہ جب چناب اور جہلم میں پانی کم ہوگا تو اس سے سندھ متاثر ہوگا ـ ماہرین کہتے ہیں کہ متنازعہ ڈیموں کو نہ بنایا جائے بلکہ پانی کا صحیح استعمال کرنا چاہئے، کیونکہ کالاباغ ڈیم کے بنے کے بعد ہم تیس سے چالیس فیصد پانی ضائع کرتے رہیں گے، ماہرین یہ بھی کہتے ہیں کہ ہم کس طرح چاہے اس ڈیم کی ڈیزائن میں تبدیلی کریں مگر یہ منصوبہ ملک و قوم کی عظیم مفاد میں نہیں، اگرملک میں ایک لاکھ میگاواٹ پانی سے بجلی پیدا کرنے کی، پچاس ہزار میگاواٹ ہوا سے بجلی پیدا کرنے کی، بائیو گیس سے گھریلو سطح پر پچھتر فیصد توانائی کی ضرورت پورا کرنے کی صلاحیت ہے تو پھر اس متنازعہ ڈیم کی تعمیر پر زور کیوں دیا جا رہا ہے؟ Copied

اس کو پیسوں کی ضرورت تھی اور مجھے اس کے جسم کی ، میرے اندر کا شیطان پوری طرح جاگ چکا تھا جب میں کمرے میں اس کے پیچھے داخل ہوا وہ برقعہ پہن رہی تھی مجھے اس کا مجرا دیکھتے ہوئے مسلسل دسواں دن تھا۔ کیا غضب کی نئی چیز ہیرا منڈی میں آئی تھی۔ اس کا نام بلبل تھا۔ جب وہ ناچتی اور تھرکتی تھی تو جیسے سب تماش بین محو ہو جاتے۔ روزانہ اس کو ناچتا دیکھ کے میری شیطانی ہوس مزید پیاسی ہوتی جاتی اور میں نے فیصلہ کر لیا کہ اس سے ضرور ملوں گا۔ میں ہر قیمت پر اسے حاصل کرنا چاہتا تھا۔اس دن مجرا کے دوران وہ بجھی بجھی سی دکھائی دے رہی تھی ۔ اس کے ناچ میں وہ روانی بھی نہیں تھی لیکن مجھے اس سے ملنا تھا، بات کرنی تھی اور معاملات طے کرنے تھے۔ مجرے کے اختتام پہ جب سب تماش بین چلے گئے تو میں بھی اٹھا۔ وہ کوٹھے کی بالکنی میں اپنی نائیکہ کے ساتھ کسی بات پر الجھ رہی تھی۔ دروازہ کے تھوڑا سا قریب ہوا تو میں نے سنا کہ وہ اس سے رو رو کر کچھ مزید رقم کا مطالبہ کر رہی تھی۔ مگر نائیکہ اسکو دھتکار رہی تھی اور آخر میں غصے میں وہ بلبل کو اگلے دن وقت پہ آنے کا کہ کر وہاں سے بڑبڑاتی ہوئی نکل گئی۔بلبل کو پیسوں کی اشد ضرورت ہے، یہ جان کے میرے اندر خوشی کی اک لہر دوڑ گئی۔ چہرے پر شیطانی مسکراہٹ پھیل گئی کہ وہ ضرورت پوری کر کے میں اس کے ساتھ جو چاہے کر سکتا ہوں۔ میں اس کی جانب بڑھا، اس کا چہرہ دوسری طرف تھا اور وہ برقعہ پہن رہی تھی۔ پاس جا کر جب میں نے اسے پکارا تو وہ میری طرف مڑی۔ اسکا چہرہ آنسووں سے تر اور برف کی مانند ایسے سفید تھا جیسے کسی نے اس کا سارا خون نکال لیا ہو۔ اس کی یہ حالت دیکھ کر میں چکرا سا گیا اور اس سے پوچھا کہ کیا ہوا ہے؟ وہ ایسے کیوں رو رہی ہے؟ میری طرف دیکھتے ہوئے وہ چند لمحے خاموش رہی اور میرے دوبارہ پوچھنے پر گھٹی گھٹی آواز میں بولی “ماں مر گئی۔” “کیا؟” جب مجھے اسکی سمجھ نہیں آئی تو وہ بے اختیار روتے ہوئے دوبارہ بولی کہ “آج میری ماں مر گئی۔” اس جواب سے جیسے میرے منہ کو تالا لگ گیا۔ میری شیطانی ہوس، جس کو پورا کرنے کے لیے میں اس کی جانب آیا تھا، مجھ سے میلوں دور بھاگ گئی۔ “تو تم یہاں کیا کر رہی ہو؟” میں نے غصے اور حیرت سے اس سے پوچھا۔ ” کفن دفن کے پیسے نہیں ہیں میرے پاس۔ اس لئے میں مجرا کرنے آئی تھی۔ مگر نائیکہ آج پیسے ہی نہیں دے رہی۔ کہتی ہے بہت مندی ہے۔ تماش بین کوٹھے پر نہیں آتے۔ جو آتے ہیں وہ پہلے کی طرح کچھ لٹاتے نہیں۔ وہ کہہ رہی ہے کہ ایدھی والوں سے اپنی ماں کے کفن دفن کا انتظام کروا لو۔” اتنا کہہ کے وہ برقعہ پہن کر کوٹھے سے باہر نکل آئی۔ میں بھی اسکے پیچھے چل پڑا،”میں تمھاری ماں کے کفن و دفن کا بندوبست کرتا ہوں۔” وہ چند لمحے مجھے مشکوک نظروں سے دیکھتی رہی اور پھر خاموشی سے میرے ساتھ بیٹھ گئی۔ گاڑی ٹیکسالی سے باہر نکالتے ہوئے میں نے بلبل سے اس کے گھر کا پتہ پوچھا۔ وہ علاقہ میرے لیے نیا نہیں تھا کئی بار میں وہاں سے گزرا ہوا تھا۔ میں نے گاڑی اس طرف موڑ دی۔ سارا راستہ وہ خاموشی سے روتی رہی۔ میرے پاس اسکو تسلی دینے کے لیے الفاظ بھی نہیں تھے۔کچھ دیر میں ہم بلبل کے گھر پہنچ گئے۔ یہ چھوٹا سا ایک کمرے کا گھر تھا۔ صحن کے بیچ میں چارپائی پر اسکی ماں کی لاش ایک گدلے کمبل میں لپٹی پڑی تھی۔ صحن میں بلب کی پیلی روشنی وہاں بسنے والوں اور گھر کی حالت چیخ چیخ کر عیاں کر رہی تھی۔ چارپائی کے پاس دو بوڑھی عورتیں بیٹھی تھی ۔ ایک کی گود میں سات آٹھ ماہ کا بڑا گول مٹول اور پیارا سا بچہ کھیل رہا تھا۔ آدھی رات ہونے کو آئی تھی۔ جیسے ہی بلبل گھر میں داخل ہوئی، وہ بوڑھی عورتیں بچہ اسے سونپتے اور دیر آنے کی وجہ سے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے وہاں سے رخصت ہو گئیں۔ بلبل بچے کو لے کر کمرے کی طرف گئی۔ بچہ بہت بے قرار تھا اور پھر وہ اسکی چھاتی سے لپٹ گیا جیسے صبح سے بھوکا ہو۔ “کیا یہ بلبل کا بچہ ہے؟” یہ ایک نیا انکشاف تھا کہ بلبل شادی شدہ بھی ہے۔چند لمحوں بعد وہ کمرے سے باہر آئی مجھے یونہی کھڑا دیکھ کر پھر کمرے میں گئی اور اک پرانی کرسی اٹھا لائی۔ “سیٹھ جی! معذرت۔ میرے گھر میں آپ کو بیٹھانے کے لیے کوئی چیز نہیں ہے۔” وہ کرسی رکھتے ہوئے شرمندگی سے بولی۔میں سر ہلاتے ہوئے اس کرسی پر بیٹھ گیا۔ کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہاں سے شروع کروں۔ “تمھارا اصل نام کیا ہے بلبل؟” بالآخر میں نے اس سے پوچھا ۔وہ چپ رہی شاید بتانا نہیں چاہ رہی تھی افشاں”۔ میرے دوبارہ پوچھنے پر اس نے آہستہ سے کہا۔ ” بہت افسوس ہوا تمھاری ماں کی وفات کا۔” وہ خاموش رہی۔ “تمھارا باپ، بھائی کوئی ہے ؟” اس نے خاموشی سے “نہیں” میں سر ہلایا۔ “یہ بچہ تمھارا ہے ؟” اس نے پھر خاموشی سے “ہاں “میں سر ہلایا۔ “تمھارا شوہر کہاں ہے؟” چند لمحوں بعد وہ بولی “چھوڑ گیا۔” “تم ہیرا منڈی کیسے گئی تم مجھے ناچنے گانے والی تو نہیں لگتی؟” اب وہ نظریں اٹھا کر مجھے دیکھتی ہوئی بولی، “سیٹھ جی قسمت وہاں لے گئی۔ گھر میں کوئی مرد نہیں تھا۔ ایک بیمار ماں اور بچے کی ذمہ داری تھی۔ کہیں اور کام نہیں ملا تو ناچاہتے ہوئے بھی مجبورا”یہ راستہ اختیار کرنا پڑا۔ کچھ عرصے تک نائیکہ نے ناچ گانا سکھایا اور پھر دھندے پر بیٹھا دیا۔۔ وہ مجھے مجرا کرنے کے روزانہ دو سو روپے دیتی ہے اور ساتھ میں تماش بینوں کا بچا کھچا کھانا، جو میں گھر لا کے اپنی ماں کو کھلاتی ہوں اور خود بھی کھاتی ہوں۔ برقعے میں آتی جاتی ہوں جس سے محلے میں کسی کو پتہ نہیں چلتا اور اک بھرم قائم ہے۔ سیٹھ جی، ایسی کتنی ہی بے سہارا گمنام لڑکیاں معاشی حالات کے ہاتھوں مجبور ہو کر ان کوٹھوں پر ناچنے پر مجبور ہیں۔ آپ لوگوں کو کیا پتہ وہ کتنی مجبور ہو کر یہ قدم اٹھاتی ہیں ۔ کوئی لڑکی اپنی خوشی سے یوں سب کے سامنے اپنا جسم، اپنی عزت نیلام نہیں کرتی۔ جو لڑکیاں اک بار اس دلدل میں گر پڑتی ہیں پھر وہ دھنستی ہی چلی جاتی ہیں ۔ اور پھر اس میں ہمیشہ کے لیے ڈوب جاتی ہیں۔” یہ سب کچھ بتاتے ہوئے افشاں کے لہجے میں بے بسی اور بے چارگی تھی جیسے وہ کسی ناکردہ گناہوں کی سزا کاٹ رہی ہو۔میں کچھ دیر اس کے چہرے کو دیکھتا رہا۔ پھر پرس سے چند نوٹ نکالے اور اسکے ہاتھ میں تھماتے ہوئے بولا “کل اپنی ماں کی تدفین کروا لینا اور بچے کے لیے کچھ خوارک اور گھر کے لیے راشن پانی لے لینا۔” وہ اتنے سارے نوٹ ایک ساتھ دیکھ کر حیران ہو گئی۔ “کیا ہوا؟” میں نے اس کو یوں چپ دیکھتے ہوئے پوچھا۔ “سیٹھ جی مجھے ان روپوں کے بدلے کیا کرنا ہو گا؟” وہ ڈرتے ڈرتے پوچھ رہی تھی۔ شاید یہ سوچ رہی تھی کہ ان نوٹوں کے بدلے سیٹھ پتہ نہیں کب تک اس کا جسم نوچے گا؟ کب تک اس کو سیٹھ کی رکھیل بن کر رہنا پڑے گا؟ اس کی بات سن کر مجھے اپنے آپ سے اتنی نفرت ہوئی کہ میں خواہش کرنے لگا کہ زمین پھٹ جائے اور میں اس میں سما جاؤں۔ مجھے احساس ہوا کہ میں ذلت اور اپنے کردار کی پستی کی آخری حد کو چھو رہا تھا۔ میں اس بے حس معاشرہ میں ایک تنہا اور بے سہارا لڑکی کی مدد کر رہا تھا مگر وہ اس کو بھی ایک ڈیل کے طور پر سمجھ رہی تھی۔ شاید جہاں سے میں اٹھ کر آیا تھا وہاں پر جانے والے لوگوں سے بغیر کسی وجہ کے مدد کی توقع نہیں کی جاتی۔ میں نے لرزتی آواز میں جواب دیا، “تمھیں کچھ نہیں کرنا پڑے گا۔ اور تم اب کوٹھے پر مجرا کرنے نہیں جاؤ گی۔ اپنے گھر میں رہو گی۔ ہر مہینے تمھیں منی آرڈر مل جایا کرے گا۔ تم نے کرنا بس یہ ہے کہ یہ جو بچہ تمھاری گود میں ہے اس کی تربیت ایسے کرو کہ یہ اک دن بڑا ہو کر تمھارا سہارا بن سکے ۔ یہ جو رقم میں بجھواؤں گا یہ تم پر قرض ہے اور جب تمھارا بیٹا جوان ہو جائے گا، ایک قابل انسان بن جائے گا تو تم مجھے واپس کر دینا۔افشاں حیران پریشان کھڑی مجھے دیکھ رہی تھی۔ اس انسان کو جس کے سامنے ابھی وہ ناچ کر آئی تھی وہ اس سے ایسی باتیں کر رہا تھا۔ پھر وہ بے آواز رو پڑی۔ مجھے سے وہاں رکا نہیں گیا۔ میں نے افشاں کے گھر کا پتہ لیا اور اس کو اپنا کیا وعدہ یاد دلا کر وہاں سے رخصت ہو گیا۔ سارے راستے میں یہی سوچتا رہا۔ “مجھے تم سے کچھ نہیں چاہے۔ مجھے تم سے کچھ نہیں چاہئے افشاں۔جو تم نے مجھے دیا ہے میں اس کا احسان ساری عمر نہیں اتار پاؤں گا۔ تم نے مجھ میں دفن اس انسانیت کو جگا دیا جو میں دولت اور شیطانی ہوس کے نیچے دبا کر مار چکا تھا۔ تم نے مجھے پھر سے انسان بنایا ہے افشاں۔”اس واقعے کے بعد میں ان تمام برے کاموں سے توبہ کر کے اس کی بارگاہ میں گناہوں کا بوجھ لیے حاضر ہوا۔ ہر روز اس کے سامنے اپنے گناہوں کا اعتراف کرتا، اس سے معافی کی درخواست کرتا۔میں باقاعدگی سے ہر ماہ “افشاں” کو منی آڈر بجھواتا رہا۔ کئی دفعہ دل کیا میں اس مسیحا کو مل کر آؤں جس کی وجہ سے مجھے ان تمام گناہوں اور بدکاریوں سے نجات ملی۔ مگر ہر دفعہ اک شرمندگی آڑے آتی رہی کہ کبھی میں اپنی شیطانی ہوس کے لیے اس کا پیاسا تھا۔ اور پھر وقت گزرتا چلا گیا دن مہینوں میں بدلنے لگے اور مہینے سالوں میں تبدیل ہوتے گئے۔ مگر میں افشاں کو بھولا نہیں تھا۔ وہ بھی میری طرح بوڑھی ہو گئی ہو گی۔ اور اس کا بیٹا بھی جوان ہو گیا ہو گا۔ پتہ نہیں کسی قابل بنا ہو گا۔ اپنی ماں کا سہارا بنا ہو گا کہ نہیں؟ میرے بچے جوان ہو گئے تھے۔ زندگی اتار چڑھاؤ کے ساتھ مسلسل چل رہی تھی۔ ایک شام چھٹی کے دن جب میں اپنے گھر میں موجود تھا تو ملازم نے آکر مجھے بتایا کہ ایک عورت اور اسکے ساتھ ایک جوان لڑکا آپ سے ملنے آئے ہیں۔ “کون ہیں؟” “معلوم نہیں صاحب پہلی بار ان کو دیکھا ہے۔” ملازم نے مودبانہ لہجے میں جواب دیا۔ “اچھا انہیں ڈرائینگ روم میں بٹھاؤ میں آرہا ہوں۔” کون ہو سکتا ہے یہی سوچتے ہوئے میں ڈرائینگ روم کی طرف بڑھا۔ ایک عورت پرنور چہرہ کے ساتھ سفید بڑی چادر میں خود کو چھپائے ہوئے ہاتھ میں ایک پرانی سی ڈائری لیے کھڑی تھی۔ اور اس کے ساتھ اچھے کپڑوں میں ملبوس ایک بڑا ہینڈسم نوجوان کھڑا تھا۔ اس لڑکے کو میں جانتا تھا وہ ہمارے علاقے کا نیا ڈی ایس پی احمد تھا۔ “سلام سیٹھ جی میں افشاں ہوں اور یہ میرا بیٹا احمد ۔” جونہی اس نے افشاں کا نام لیا میرے ذہن میں اسکا ماضی کا چہرہ گھوم گیا۔ اور پھر مجھے پہچاننے میں دیر نہیں لگی کہ وہ افشاں تھی۔” آپ مجھے پہچان گئے ناں؟” میں نے سر ہلاتے ہوئے “ہاں” میں جواب دیا اور ان کو بیٹھنے کا اشارہ کیا۔افشاں پھر اپنے بیٹے سے مخاطب ہو کر بولی۔ “احمد بیٹا یہی ہیں میرے مسیحا جن کی بدولت تمھاری ماں گندگی کی دلدل میں گرتے گرتے نکلی اور یہی ہیں جو تمھاری پڑھائی کا تمھیں یہاں اس مقام تک لانے کا ذریعہ ہیں ۔” ” میں انکو جانتا ہوں امی جان ان کا شمار علاقے کے معزز ترین افراد میں ہوتا ہے ۔ مگر میں یہ نہیں جانتا تھا کہ مجھے اس مقام پر لانے میں انکا کردار سب سے اہم ہے۔” “سیٹھ صاحب جس طرح آپ ہم بے سہارا اور بے کس لوگوں کی زندگی میں مسیحا بن کر آئے . اس کا احسان ہم کبھی نہیں بھولیں گے ۔” احمد بڑی مشکور نظروں سے دیکھتا ہوا بڑی عاجزی سے بول رہا تھا۔ “ایسے کہہ کر آپ لوگ مجھے شرمندہ مت کریں۔” میں نے افشاں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ آج اسکو پکارتے ہوئے بے اختیار میرے منہ سے افشاں بہن نکل گیا۔ میں خود حیران تھا مگر یہ سچ تھا۔افشاں صوفے سے اٹھی اور آگے بڑھ کر پرانی سی ڈائری مجھے تھماتے ہوئے کہنے لگی، “سیٹھ جی اس میں وہ تمام حساب درج ہے ۔۔ میری ماں کی تدفین سے لے کر آپ کے آخری منی آڈر تک۔ میں نے اک اک پائی کا حساب رکھا۔ آپ کے دیے پیسوں کا امانت کے طور پر استعمال کیا۔ اپنے بیٹے کو ایک قابل انسان بنایا۔ آپ نے مجھے بائیس سال پہلے کہا تھا کہ یہ قرض ہے اور یہ تب واپس کرنا جب تمھارا بیٹا ایک قابل انسان بن جائے۔” کچھ لمحے خاموش رہنے کے بعد افشاں پھر سے بولی، “سیٹھ جی آج وہ وقت آگیا ہے۔ میں آپ کے احسانوں کا بوجھ تو میں نہیں اتار سکتی مگر جو پیسے آپ نے مجھے دئیے تھے میرا بیٹا وہ ضرور اتارے گا۔ اور آپ سے درخواست ہے آپ انکار مت کریں۔”میں افشاں کو بڑی تحسین نظروں سے دیکھ رہا تھا۔ آخر اس نے وہ کر ہی دکھایا۔ یقیناً قول و قرار کو نبھانا، وعدہ پر قائم رہنا اک اچھے کردار کے حامل انسان کی بڑی نشانی ہے۔ یہ سب سن کر میرے دل میں اسکی عزت اور احترام اور بڑھ گیا۔ “میں نے تم کو بہن کہا ہے افشاں بہن۔ اور میں کیسے تم سے یہ پیسے واپس لے سکتا ہوں۔ مجھے یوں شرمندہ مت کرو۔” میرے رکے رکے الفاظ میں پیسے نہ لینے کی معذرت چھپی تھی۔ مگر وہ بضد تھی۔ مجھے اس کے سامنے ہار ماننا پڑی اور وہ تمام پیسے جو میں اسکو منی آڈر کی صورت میں بھیجتا تھا . اس کو واپس لینے کی حامی بھرنی پڑی۔ پھر وہ دونوں مجھے اپنے نئے گھر کا پتہ دے کر اور آنے کی تاکید کر کے وہاں سے چلے گئے۔ “ارم میں نے تمہیں کسی سے ملوانا ہے میرے ساتھ چلو گی۔؟ ” شام کو میں نے اپنی بیگم سے کہا۔ “کیوں نہیں چلوں گی۔ مگر کون ہے؟ اور کس سلسلے میں ملنا ہے؟” بیگم نے سوالوں کی بوچھاڑ کر دی۔ “میں نے روبی بیٹی کے لیے ایک لڑکا پسند کیا ہے ۔ تم مل لو اگر تم کو پسند آجائے تو پھر اس کے بعد روبی سے بات کر لینا۔” میں نے مختصر لفظوں میں اسے وجہ بتائی۔ اگلے دن میں اور میری بیگم ارم ناز افشاں کے گھر میں تھے۔ ارم کو بھی احمد بہت پسند آیا۔ ہم نے پھر افشاں سے احمد اور روبی کے رشتے کی بات کی۔ افشاں کو بھلا اس سے کیا اعتراض ہو سکتا تھا۔ وہ پھولے سے نہیں سما رہی تھی۔ اور یوں میری بیٹی کا رشتہ افشاں کے بیٹے احمد سے طے ہو گیا۔ وہ تعلق جو اک طوائف اور تماش بین جیسے گندے رشتے سے شروع ہوا تھا اس کا اختتام ایک نہایت مہذب رشتے کی شکل میں ہوا۔یہ سچ ہے کہ ہر انسان کو قدرت سدھرنے کا موقعہ ضرور دیتی ہے۔ کبھی گندگی کے ڈھیر سے اس کو ایسا سبق سیکھا دیتی ہے، کبھی دو بھٹکے لوگوں ملا کر سیدھے راہ پر لے آتی ہے اور انسان ساری زندگی اسی کے مطابق گزارنے کو فخر محسوس کرتا ہے۔ کبھی وہ طوائف اور میں تماش بین تھا۔ مگر آج وہ میری منہ بولی بہن اور اس کا بیٹا میری بیٹی کا شوہر ہے۔ اور مجھے ان دونوں رشتوں پر فخر ہے۔۔

Wednesday, 30 May 2018

توقع کے عین مطابق عالمی بینک نے کشن گنگا ڈیم کی تعمیر پر پاکستان کی شکایات اور شواہد کو ناکافی قرار دے کر مسترد کر دیا ہے۔۔۔۔یہ پاکستان کی بھارت سے سفارتی محاذ پر ایک بڑی شکست ہے۔۔۔۔۔کشن گنگا ڈیم کی تعمیر 2009 میں شروع ہوئی جب پیپلز پارٹی کی حکومت تھی اور ن لیگ مضبوط اپوزیشن تھی۔۔۔2011 کے بعد دو سال تک یہ کیس عالمی عدالت میں چلتا رہا لیکن بالآخر عالمی ثالثی عدالت نے نہ صر ف پاکستان کے اعتراضات مسترد کر دیے بلکہ بھارت کو پانی کا رخ موڑنے کی اجازت دے دی۔۔۔۔۔یاد رہے کہ یہ وہ دور تھا جب بھارت کو پسندیدہ ترین ملک قرار دیا جارہا تھا اور خارجہ امور کا قلمدان بھی وزیر اعظم میاں نواز شریف کے پاس تھا۔۔۔۔بھارت نوازی کی داستان صرف یہیں ختم نہیں ہوئی بلکہ دریائے سندھ پر بنائے جانے والے متنازعہ پن بجلی کے منصوبے نیموباز گو کے خلاف بھی وزیر اعظم صاحب کے احکامات کے مطابق عالمی عدالت میں جانے سے روک دیا گیا کہ "خوامخواہ اس کیس پر وقت ضائع ہوگا"۔۔۔بھارت نے یہ منصوبہ مکمل کر لیا ، یہی نہیں اس دوران "چٹک" کا منصوبہ بھی پایہ تکمیل کو پہنچ گیا اور ہم صرف بھارت سے پینگیں بڑھانے کے خواب دیکھتے رہے۔۔۔۔۔۔ میں عموماً سیاسی شخصیات پر تنقید سے اجتناب کرتا ہوں لیکن گزشتہ ایک دہائی میں زراعت اور آبی وسائل کی زبوں حالی کو دیکھ کر خون کھول اٹھتا ہے۔۔۔۔مسلم لیگ ن کی ذمہ داریوں کا یہاں سے اندازہ کر لیں کہ اس دور میں بھارت صرف دریائے سندھ پر چودہ چھوٹے ڈیم اور دو بڑے ڈیم مکمل کر چکا ہے۔۔۔یہی وجہ ہے کہ منگلا ڈیم اکتوبر 2017 سے خالی پڑا ہے جبکہ تربیلا ڈیم بھی اس وقت بارش کا محتاج ہے۔۔۔یہ کہانی یہیں ختم نہیں ہوتی، پانی کے حوالہ سے ہمارا مستقبل بہت دردناک ہے، دو سال قبل بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے بیان دیا کہ وہ پاکستان کو پانی کی بوند بوند کے لیے محتاج کر دے گا اور وہ اس پر عمل کر رہا ہے۔۔۔۔ بھارت دریائے چناب پر سلال ڈیم اور بگلیہار ڈیم سمیت چھوٹے بڑے 11ڈیم مکمل کر چکا ہے ۔ دریائے جہلم پر وولر بیراج اور ربڑ ڈیم سمیت 52ڈیم بنا رہا ہےدریائے چناب پر مزید24ڈیموں کی تعمیر جاری ہے اسی طرح آگے چل کر مزید190ڈیم فزیبلٹی رپورٹس ، لوک سبھا اور کابینہ کمیٹی کے پراسس میں ہیں۔۔۔۔۔ یہ سب کچھ ہمارے سیاستدانوں اور حکمرانوں کی آنکھوں کے سامنے ہورہا ہے، لیکن کسی کو اس سے غرض نہیں، کوئی نیا پاکستان بنانے کے زعم میں ہے، کوئی ووٹرز کو عزت دینے کا مطالبہ کر رہا ہے، کوئی مذہب پر سیاست کر رہا ہے تو کوئی محض کرسی کے لیے اس گیم کا حصہ ہے۔۔۔اگر یہ مسئلہ کسی پارٹی کے منشور میں شامل نہیں ہے تو اس کے ذمہ دار ہم ہیں۔۔۔عوام کے ووٹ دینے کے معیار نالیاں پکی کرنا، قیمے والا نان یا نام نہاد نمائشی سکیمیں ہیں، دراصل عوام ذہنی غلام بن چکے ہیں جن کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں ان کے سیاسی خداؤں کے تابع ہیں۔۔۔اگر مجھ جیسے کم علم کو یہ حقائق ملکی مستقبل کے لیے فکر مند کرسکتے ہیں تو ہمارے نام نہاد دانشور اور میڈیا ہاؤسز کیوں ان موضوعات پر بات نہیں کرتے؟کیوں کہ ہم بطورِ عوام ان موضوعات پر بات کرنا ہی نہیں چاہتے۔۔۔۔مجھے سیاستدانوں سے گلہ نہیں کیوں کہ ان کی جائیدادیں پاکستان سے باہر ہیں، خدانخواستہ پاکستان پر کوئی آنچ آئی تو وہ اسے چھوڑ کر باہر بھاگنے میں دیر نہیں کریں گے۔۔۔مجھے شکوہ عام لوگوں سے ہے جنہوں نے یہاں رہنا ہے، خدا وہ دن نہ دکھائے جب پانی کے گھونٹ کے لیے ایک بھائی دوسرے کا گلا کاٹ رہا ہو۔۔۔۔۔۔!!

The National Centre of Robotics and Automation (NCRA) was inaugurated at NUST College of Electrical and Mechanical Engineering (CEME). 200 PhD scientists and 45 laboratories from all technology universities of Pakistan have been brought together. The NCRA is designed on a consortium model, with 11 labs from 13 Pakistani universities as part of the Centre, with National University of Sciences & Technology (NUST) in the leading role. Out of these 11 labs, 2 will be established by CEME, while the remaining will be set up at other premier national Higher Education Institutions (HEIs), including UET Lahore, UCP Lahore, ITU Lahore, Air University Islamabad, LUMS, FAST-NUCES Islamabad, UET Taxila, NED Karachi, MUET, BUITEMS, MUST, and UET Peshawar.

Tuesday, 29 May 2018

اسلام آباد (نیوز ڈیسک) امریکہ نے پاک افغان سرحد پر شدت پسند تنظیم داعش کے جنگجوؤں کو اکٹھا کرنے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے تاکہ پاکستان کو دوبارہ سے دہشت گردی کی جانب دھکیلا جا سکے، ان خبروں کی اطلاعات گزشتہ چند روز سے گردش میں ہیں۔اب ایک موقر انگریزی اخبار نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ سرکاری ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ ایک سینئر ایرانی عہدیدار نے اٹارنی جنرل پاکستان اشتراوصاف کی قیادت میں ایران جانے والے وفد کو مطلع کرتے ہوئے بتایا کہ ایران کے پاس قابل اعتماد انٹیلی جنس رپورٹس موجود ہیں جن کے مطابق امریکہ نے داعش اور اس کے سربراہ ابوبکر بغدادی کو افغانستان منتقل کر دیا ہے۔ ایرانی عہدیدار کا یہ بھی کہنا ہے کہ امریکہ اور اسرائیل پاکستان اور ایران کا حال شام، عراق، لیبیا اور افغانستان جیسا کرنا چاہتے ہیں۔ اٹارنی جنرل پاکستان کی قیادت میں وفد نے ایرانی اٹارنی جنرل محمد جعفر منتظری کی دعوت پر دو ہفتے قبل ایران کا دورہ کیا تھا۔ پاکستان کو ایران کی جانب سے دی گئی اطلاع کو خارجہ پالیسی کے ماہرین بہت اہمیت دے رہے ہیں کیونکہ دیگر ذرائع سے بھی یہ اطلاعات سامنے آ رہی ہیں کہ افغانستان میں امریکہ شدت پسند تنظیم داعش کولا رہا ہے تاکہ وہ اسے پاکستان کے خلاف استعمال کر سکے۔واضح رہے کہ حال ہی میں پاکستان میں تعینات تاجکستان کے سفیر نے بھی اس امر پر تشویش کا اظہار کیا ہے کہ افغانستان میں داعش کا اثر و رسوخ بڑھتا جا رہا ہے، رپورٹ کے مطابق تاجکستان کے سفیر نے اس تنظیم کی افغانستان میں موجودگی کو پورے خطے کے امن کے لیے خطرہ قرار دیا ہے۔ امریکہ نے پاک افغان سرحد پر شدت پسند تنظیم داعش کے جنگجوؤں کو اکٹھا کرنے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے تاکہ پاکستان کو دوبارہ سے دہشت گردی کی جانب دھکیلا جا سکے، ان خبروں کی اطلاعات گزشتہ چند روز سے گردش میں ہی خطرے کی گھنٹی بج گئی، امریکہ پاک افغان سرحد کے قریب کن لوگوں کو جمع کر رہا ہے؟ ایران نے بھی تصدیق کر دی، پاکستان کو باضابطہ طور پر سنگین نتائج سے آگاہ کر دیا ۔

Monday, 28 May 2018

آج ہم آپ کو خیبر پختونخواہ اسپیکر اسد قیصر کا اپنی پانچ سالہ دور حکومت میں ضلع صوابی کے چھوٹا سا گاوں بامخیل کی ترقیاتی کاموں کا لسٹ پیش کرتے ہے۔ جب 2013 الیکشن میں بامخیل کے غیور نوجوان ، بزرگ اور خواتین نے پی ٹی آئی کو کامیابی دلادی تو اس وقت بامخیل شدید مسائل کا شکار تھے اور اسپیکر صاحب نے اپنا منصب سنبھالتے ہی بامخیل میں ریکارڈ یافتہ کاموں کا آغاز کیا جو پچھلے 66 سالوں میں کسی بھی حکومت نے نہیں کی ہو۔ بامخیل میں پی ٹی آئی کا ترقیاتی کاموں کا لسٹ (1) بامخیل فیڈر 1 کروڑ 44 لاکھ لاگت ۔ (2) 30 کے قریب بجلی کے نئے ٹرانسفارمر ۔ (3) سپورٹس کمپلکس 21 کروڑ روپے۔ (4) گورنمنٹ گرلز مڈل سکول مرمت 7 کمرے 1 کروڑ 40 لاکھ روپے۔ (5) گورنمنٹ گرلز ہائی سکول 4 عدد کمریں۔ 80 لاکھ (6) شگہ جناز گاہ 40 لاکھ۔ (7) لالو ڈھیرہ جناز گاہ 30 لاکھ۔ (8) قبلہ جناز گاہ 60 لاکھ (9) بجلی کے کھمبے 300 کے قریب۔ (10) سولر لائٹس 17 کے قریب (11) بپر پروٹیکشن وال کام 4 کروڑ کے قریب۔ (12) ایریگیشن محکمہ سے 11 کے قریب نئے پل بنائے۔ (13) راستوں کی پختگی 4 کروڑ اور ابھی 2 کروڑ روپوں کی لاگت سے راستوں کی پختگی جاری ۔ ٹوٹل 6 کروڑ ۔ (14) بامخیل بائی پاس 9 کروڑ ۔ (15) بامخیل ٹو کڈی روڑ 2 کروڑ ۔ (16) بامخیل نوکریاں 18 کے قریب۔ (17) سرکاری سکولوں میں 11 اساتذہ میرٹ پر بھرتی ۔ (18) 1 پروفیسر باچا خان یونیورسٹی میں 18 سکیل میرٹ پر بھرتی ہوا۔ (19) بامخیل کیلئے اپوزیشن لیڈر کا بڑا عہدہ۔ (20) گورنمنٹ کامرس کالج پر 2 کروڑ روپے کا کام۔ (21) سولر ٹیوب ویل 90 لاکھ ۔ (22) 12 مسجدوں کیلئے سولر سسٹم۔ (23) صحت انصاف کارڈ 1800 گھرانوں میں تقسیم۔ (24) معذوروں کیلئے 90 کے قریب ویل چیئر اور 30 ٹرائی سائکل۔ (25) گورنمنٹ ہائیر سیکنڈری سکول میں کمپیوٹر آئی ٹی لیب کا قیام ۔ (26) 100 کے قریب ہینڈ پمپ۔ (27) گرلز مڈل سکول کا قیام جو عدالتی سٹے کی وجہ سے مکمل نہ ہوا۔ (28) کچکول بانڈہ گرلز سکول کیلئے 42 لاکھ پر 2 کنال زمین خریدنا۔

ﺟﺎﭘﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﺩﻭ ﺧﺮﺑﻮﺯﻭﮞ ﮐﯽ ﻗﯿﻤﺖ 34 ﻻﮐﮫ ﺭﻭﭘﮯ ٹوﮐﯿﻮ : ﺟﺎﭘﺎﻥ ﮐﮯ ﻣﺸﮩﻮﺭ ﻭ ﻣﻌﺮﻭﻑ ﭘﮭﻞ ﯾﻮﺑﺎﺭﯼ ﺧﺮﺑﻮﺯﮮ ﮐﯽ ﺟﻮﮌﯼ ﮐﯽ ﻗﯿﻤﺖ 34 ﻻﮐﮫ ﺭﻭﭘﮯ ﮨﮯ۔ ﺧﺮﺑﻮﺯﮦ ﺍﯾﮏ ﻟﺬﯾﺬ ﭘﮭﻞ ﮨﮯ ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﭘﺎﻧﯽ ﮐﯽ ﻣﻘﺪﺍﺭ ﺟﺴﻢ ﻣﯿﮟ ﭘﺎﻧﯽ ﮐﯽ ﮐﻤﯽ ﮐﻮ ﭘﻮﺭﺍ ﮐﺮﺗﯽ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﭘﮭﻞ ﻣﯿﮟ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﺩﯾﮕﺮ ﻭﭨﺎﻣﻨﺰ ﺟﺴﻢ ﮐﻮ ﺗﻮﺍﻧﺎﺋﯽ ﻓﺮﺍﮨﻢ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﺧﺮﺑﻮﺯﮦ ﮔﺮﻣﯽ ﮐﮯ ﻣﻮﺳﻢ ﻣﯿﮟ ﻗﺪﺭﺕ ﮐﺎ ﺍﻧﻤﻮﻝ ﺗﺤﻔﮧ ﮨﮯ ﺟﻮ ﺍﻧﺴﺎﻧﯽ ﺟﺴﻢ ﮐﮯ ﺩﺭﺟﮧ ﺣﺮﺍﺕ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﮐﻨﭩﺮﻭﻝ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺗﻮﺍﻧﺎﺋﯽ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﺑﺮﻗﺮﺍﺭ ﺭﮐﮭﺘﺎ ﮨﮯ۔ ﺟﺎﭘﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﺍُﮔﻨﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺧﺮﺑﻮﺯﮮ ’ ﯾﻮﺑﺎﺭﯼ ‘ ﺟﮩﺎﮞ ﺍﭘﻨﯽ ﻟﺬﺕ ﺍﻭﺭ ﻏﺬﺍﺋﯿﺖ ﮐﮯ ﺑﺎﻋﺚ ﮨﺮ ﺍﯾﮏ ﮐﯽ ﭘﺴﻨﺪ ﮨﯿﮟ ﻭﮨﯿﮟ ﺟﺎﭘﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﺍﺳﮯ ’ ﺍﺳﭩﯿﭩﺲ ﺳﻤﺒﻞ ‘ ﺑﮭﯽ ﺳﻤﺠﮭﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ۔ ﮐﺴﯽ ﭘﮭﻞ ﮐﻮ ﺍﺳﭩﯿﭩﺲ ﺳﻤﺒﻞ ﮐﯽ ﺣﯿﺜﯿﺖ ﺣﺎﺻﻞ ﮨﻮﺟﺎﻧﺎ ﺍﯾﮏ ﺣﯿﺮﺍﻥ ﮐﻦ ﺑﺎﺕ ﮨﮯ ﻟﯿﮑﻦ ﺟﺎﭘﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﯾﮧ ﺍﯾﮏ ﺣﻘﯿﻘﺖ ﮨﮯ ﺟﺲ ﮐﺎ ﺛﺒﻮﺕ ﺣﺎﻝ ﮨﯽ ﻣﯿﮟ ﭨﻮﮐﯿﻮ ﻣﯿﮟ ﮨﻮﻧﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﭘﮭﻠﻮﮞ ﮐﯽ ﻧﻤﺎﺋﺶ ﻣﯿﮟ ﯾﻮﺑﺎﺭﯼ ﺧﺮﺑﻮﺯﮮ ﮐﯽ ﻧﯿﻼﻣﯽ ﮐﮯ ﺩﻭﺭﺍﻥ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺟﺎ ﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ ﺟﮩﺎﮞ ﺍﺱ ﭘﮭﻞ ﮐﮯ ﺍﯾﮏ ﺩﻟﺪﺍﺩﮦ ﺷﺨﺺ ﻧﮯ ﯾﻮﺑﺎﺭﯼ ﺧﺮﺑﻮﺯﮮ ﮐﯽ ﺍﯾﮏ ﺟﻮﮌﯼ 34 ﻻﮐﮫ ﺭﻭﭘﮯ ﻣﯿﮟ ﺧﺮﯾﺪ ﻟﯽ۔ ﺍﯾﮏ ﺩﺭﺧﺖ ﻣﯿﮟ ﺍﮔﻨﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﺍﺱ ﺟﻮﮌﯼ ﮐﯽ ﺳﺎﺧﺖ ﺍﻭﺭ ﺭﻧﮓ ﺩﯾﮕﺮ ﯾﻮﺑﺎﺭﯼ ﺧﺮﺑﻮﺯﮮ ﺳﮯ ﻗﺪﺭﮮ ﻣﺨﺘﻠﻒ ﺑﮭﯽ ﮨﮯ ﺟﻮ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺍﻧﻔﺮﺍﺩﯾﺖ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺑﻨﯽ۔ ﺗﺎﮨﻢ ﺟﺎﭘﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﯾﻮﺑﺎﺭﯼ ﺧﺮﺑﻮﺯﮮ ﮐﻮ ﻋﺎﻡ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ ’’ ﭘُﺮ ﺗﻌﯿﺶ ﺍﺷﯿﺎﺀ ‘‘ ﮐﮯ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ ﺟﺎﻧﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﻟﻮﮒ ﺗﺤﺎﺋﻒ ﮐﮯ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ ﺍﯾﮏ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﮐﻮ ﯾﻮﺑﺎﺭﯼ ﺧﺮﺑﻮﺯﮮ ﭘﯿﺶ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺟﻮ ﮐﺎﻓﯽ ﺑﯿﺶ ﺑﮩﺎ ﻗﯿﻤﺖ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺟﺲ ﮐﺎ ﺍﻧﺪﺍﺯﮦ ﺍﺱ ﺑﺎﺕ ﺳﮯ ﻟﮕﺎﯾﺎ ﺟﺎ ﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺟﺎﭘﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﮐﺎﺭ ﮐﯽ ﻗﯿﻤﺖ ﺍﺱ ﺧﺮﺑﻮﺯﮮ ﮐﯽ ﻗﯿﻤﺖ ﮐﮯ ﺑﺮﺍﺑﺮ ﮨﮯ۔ ﯾﮧ ﺍﯾﮏ ﮨﺎﺋﺒﺮﮈ ﭘﮭﻞ ﮨﮯ ﺟﺴﮯ ﺧﺮﺑﻮﺯﻭﮞ ﮐﯽ ﺩﻭ ﺍﻟﮓ ﺍﻟﮓ ﻗﺴﻢ ﮐﮯ ﺍﺧﺘﻼﻁ ﺳﮯ ﺗﯿﺎﺭ ﮐﯿﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ۔ ﻭﺍﺿﺢ ﺭﮨﮯ ﮐﮧ ﺩﻭ ﺳﺎﻝ ﻗﺒﻞ ﻣﺌﯽ 2016 ﻣﯿﮟ ﮨﻮﻧﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﻧﯿﻼﻣﯽ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﯾﮧ ﭘﮭﻞ 27 ﮨﺰﺍﺭ ﺍﻣﺮﯾﮑﯽ ﮈﺍﻟﺮ ﻣﯿﮟ ﻧﯿﻼﻡ ﮨﻮﺍ ﺗﮭﺎ۔

Saturday, 26 May 2018

خیبر ایجنسی نمائندہ خصوصی خیال مت شاہ آفریدی خیبر پختونخواء حکومت اور اپوزیشن نگراں وزیر اعلیٰ کے نام پر متفق ہو گئے ۔ خیبر ایجنسی باڑہ کے منظور آفریدی کو نگراں وزیر اعلیٰ کے عہدے کے لئے مظبوط امیدوار قرار دیا گیا۔ تاریخ میں پہلی بار کسی صوبے کی وزیر اعلیٰ کو قبائلی خطے سے نامزد کیا گیا ہے ،تحصیل باڑہ میں ان کی نامزدگی پرجشن کا سا سماں ہے ۔ نوجوانوں اور کاروباری حلقوں نے منظور آفریدی کی نامزدگی پر عنقریب جشن منانے کا فیصلہ کیا ہے۔ منظور آفریدی کے چچا زاد پشاور زلمی کے مالک جاوید آفریدی کو اس سے قبل آفر کی گئی تھی مگر نامعلوم وجوہات کی بنا پر انہوں نے نگراں وزیر اعلیٰ بننے سے انکار کیا جبکہ اس کے بعد اپوزیشن اور صوبائی حکومت منظور آفریدی کے نام پر متفق ہو گئے ہیں۔ ،ممکنہ نگراں وزیر اعلیٰ منظور آفریدی کے بارے میں بتایا جا تا ہیں کہ وجمعیت العلماء اسلام فضل الرحمان گروپ کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کے قریبی دوست اور پارٹی کے مظبوط حامی بھی رہے ہیں ۔وہ خیبر ایجنسی کی تحصیل باڑہ آفریدی قبائل کے قبیلہ سپاہ سے تعلق رکھتا ہے جوکہ نوجوان صلاحیتوں کے مالک اور کاروباری شخصیت کے نام سے جانا جاتا ہے ۔منظور آفریدی خیبر ایجنسی تحصیل باڑہ کے علاقہ سپاہ سپین قبر میں پیدا ہوئے جبکہ ابتدائی تعلیم اور بعد میں بزنس سٹڈی سنگاپور میں حاصل کی ہے،اس کے والد حاجی نواب آفریدی اور بھائی سنیٹر حاجی ایوب آفریدی نے بھی کاروباری لحاظ سے شہرت حاصل کی ہے جبکہ سابق پارلیمنٹیرین حاجی محمد شاہ آفریدی ان کے چچا ہے۔خاندانی ذرائع کا کہنا ہے کہ وہ اپنے چچا زاد بھائی جاوید آفریدی سے تین سال بڑے ہے ۔ منظور آفریدی معروف کاروباری کمپنیوں سونی پینا سو نیک ،چیانگ ہاگ روبہ ،جنرل اور نیشنل کے سی او بھی ہے ۔

Thursday, 24 May 2018

*Great News for DIABETIC patients..* Dr. Hasaan Shamsi Pasha working in one of Jeddah's hospital as Heart Specialist, had become Sugar patient himself with as high as 500 reading of Sugar level in the mornings.. He got very worried as despite many tests & trials of different medicines, his reading was still 200 before breakfast and 300 after breakfast.. As he was a reasercher himself and he was also writer of many medical books (refer to Wikipedia for more info on him), he decided to take Olive oil as medicine for Sugar.. He took 2-3 table spoons before bed and 2-3 table spoons early morning, one hour before breakfast.. Results were amazing after only one week of use.! Sugar reading was 100 before breakfast and 180 after breakfast within 3 days and by end of 1 week it was 93 "after breakfast.!!" He then left using before bed but still continues with early morning use of Olive oil.. Those who started using Olive oil for sugar showed other benefits too.. as follows : Those who had problems of feet getting hot or cold, became better.. Others reduced the amount of their sugar medicines they used to take before.. Those using insulin injections have now reduced their dosage & are contemplating to stop injections completely.! Many said their bones of the legs have now stopped paining.! I request you all to, Please, forward this so that Diabetics in ur circle of Friends & Family are benefitted or try this for urself, if u suffer from Diabetes.... forwarded as received *I CARE 4U SO SHARED*

پاکستان کی بیٹی سبیکا شیخ جو امریکہ میں تعلیم حاصل کرنے گئی تھی جسے امریکی دہشت گرد نے گولی مار کے شہید کر دیا اس پر نہ پاکستانی حکومت کو غیرت آئی اور نہ ہی عوام کہ امریکہ سے بات کریں اور اپنی بیٹی کے انصاف کے لیے آواز اٹھائیں ۔۔۔ افسوس وہ امریکی دہشت گرد پاکستان آ کر ہمیں قتل کر دیتے ہیں اور ہم انہیں بحفاظت واپس بھیج دیتے ہیں جبکہ وہاں سے ہماری لاشیں آتی ہیں اور کوئی پوچھنے والا بھی نہیں ۔ نواز حکومت نے ایمل کانسی کو چھوڑ دیا اور اب جوزف کو بھی چھوڑ دیا مگر اپنی بیٹی عافیہ امریکہ کی جیل میں تکالیف سہہ رہی ہے پر بدلے میں اسے رہا نہیں کروایا اور اب ننھی سبیکا شیخ کے لیے بھی آواز نہیں اٹھائی ۔ لعنت ایسے ڈرپوک حکمرانوں پر ۔۔۔😠 #جگاکھوجی

پاکستان کا امریکا کو کرارا جواب پاکستان نے جوابی اقدام کرتے ہوئے امریکہ کے سفارتی عملے کی نقل و حرکت کو محدود کر دیا۔ گاڑیوں، سم کارڈ اور رہائش گاہ کے حوالے سے متعدد پابندیاں عائد کر دیں۔ قبل ازیں امریکہ نے واشنگٹن میں تعینات پاکستانی سفارتی عملے پر پابندیاں لگائی تھیں۔ حکومت پاکستان نے بڑا فیصلہ کرتے ہوئے امریکی سفارتی عملے پر سفری پابندیاں عائد کر دیں۔ گاڑیوں کے شیشے کالے کرنے، چالیس کلومیٹر کی حدود سے باہر جانے اور رہائش گاہ تبدیل کرنے کیلئے پیشگی اجازت لازم قرار دے دیا گیا اور اس حوالے سے امریکی سفارتخانے کو آگاہ کر دیا گیا۔ ذرائع کے مطابق امریکی سفارت کاروں کو آفیشل گاڑیوں پر غیرسفارتی نمبر پلیٹس اور کرائے کی گاڑیوں پر سفارتی نمبرپلیٹس کا استعمال نہیں کرنے دیا جائےگا، فون سم کارڈز نکلوانے کیلئے بائیو میٹرک تصدیق کروانا ہو گی۔ رہائشگاہ کی تبدیلی اور ریڈیو کمیونیکیشن ڈیوائسز لگانے کیلئے پیشگی اجازت نامہ حاصل کرنا ہو گا امریکی سفارتکاروں کو ویزہ مدت ختم ہونے کے بعد رکنے یا متعدد پاسپورٹ رکھنے کی ممانعت ہو گی، امریکہ سے آنے والے سامان کی ایئرپورٹس پر اسکیننگ کی جائے گی، امریکی سفارتکاروں کے پاکستانی حکام سے رابطے کیلئے قواعد پر سختی سےعملدرآمد کیا جائے گا۔ دفترخارجہ کی طرف سے لکھے گئے خط کے مطابق پاکستان نے یہ اقدام امریکہ کی جانب سے پاکستانی سفارتی عملے پر پابندیوں کے جواب میں اٹھایا۔⚔️🇵🇰️

کل سے یہ شور برپا ہے کہ اسد عمر نے یہ کیسے کہہ دیا کہ تحریک انصاف کی حکومت پانچ سال میں ایک کروڑ نوکریاں پیدا کرے گی۔ چلیں دیکھتے ہیں کہ ایک کروڑ نوکریاں کیسے پیدا ہو سکتی ہیں۔ کل اسد عمر نے تحریک انصاف کی اکنامک لائن آف ایکشن پر روشنی ڈالی، اسد کا کہنا تھا کہ پاکستان میں نوجوان اکثریت میں ہیں اور ہر سال ہمارے پاس بیس لاکھ نوجوان نوکریوں کے لئے تیار ہو رہے ہیں لیکن ہمارے پاس انہیں دینے کو نوکریاں نہیں۔ اس دعوے کے ساتھ اسد عمر نے اپنی لائن آف ایکشن اور پلاننگ بھی بتائی۔ اسد عمر کا کہنا تھا کہ ہم اس ٹارگٹ کو پورا کرنے کے لئے تین بڑے ایریاز پر فوکس کریں گے۔ 1۔ اسمال اور میڈیم انڈسٹریز کو فروغ دیں گے۔ 2۔ صنعتوں میں سستی انرجی مہیا کریں گے۔ 3۔ ایف بی آر کو ریفارم کریں گے۔ مختصرا ان تینوں نکات پر روشنی ڈالتے اسد عمر کا کہنا تھا کہ ہمارے سامنے چین رول ماڈل ہے۔ چین نے اپنی اسمال اور میڈیم انڈسٹری کو مضبوط کر کے چین کی معیشت کو کھڑا کر دیا ہے۔ ہمارے فیصل آباد کو مشرق کا مانچسٹر کہا جاتا تھا، آج فیصل آباد میں اسمال اور میڈئم انڈسٹری اس میں لگے لوہے اور سریے کی قیمت پر بک رہی ہے اور لاکھوں نوجوان بے روزگار ہو چُکے ہیں۔ ہمیں اس ایریا پر فوکس کرنا ہو گا۔ کوئی صنعت بغیر سستی بجلی اور گیس کے ترقی نہیں کر سکتی، ہم نے صنعت کو سستی بجلی اور گیس دینی ہے۔ دوسرا ہم نے چھوٹے کاروباری حضرات اور صنعتوں پر ٹیکسوں کا بوجھ کم کرنا ہے، تاکہ اسمال اینڈ میڈئم انڈسٹری بڑھے۔ اسد عمر کی بات کوئی راکٹ سائنس نہیں، چین نے پچھلی دو دہائیوں میں چین کے گھر گھر کو اسمال انڈسٹری میں بدل دیا ہے۔ اسد عمر نے تو صرف ایک کروڑ لوگوں کی بات کی ہے، جبکہ چین نے پندرہ سے بیس کروڑ چینیوں کوخط غربت سے اٹھا کر خوشحال کر دیا ہے۔ آج اتنے لوگ چین کی اسمال اور میڈیم انڈسٹری پر انحصار کرتے ہیں۔ یہاں تک تو تھی اسد عمر کی تقریر کے مطابق اسمال اینڈ میڈیم انڈسٹری، جو بے روزگاری کے مسئلے کا ایک لانگ ٹرم اور مستقل حل ہے۔ اب آئیے میگا پراجیکٹس کی طرف، میں اس سلسلے میں تین حوالے دینا چاہوں گا۔ دنیا کی چوٹی کی ملٹی میڈیا نیوز ایجنسی روٹرز Reuters نے اور پاکستان کے مشہور انگریزی اخبار ایکسپریس ٹریبیون نے بلین ٹری پراجیکٹ کے بارے مضامین شائع کئے. ان کا کہنا ہے کہ بلین ٹری پراجیکٹ نے معاشی طور پر بھی کام کیا اور پانچ لاکھ سے ذائد گرین جابز پیدا کیں۔ جو اکثر بے روزگار نوجوانوں اور دیہاتی خواتین کو ملیں۔ عالمی ادارے WWF نے پختونخواہ حکومت کے بلین ٹری پراجیکٹ پر ایک تفصیلی رپورٹ شائع کی ہے، اور نصف درجن سے ذائد مرتبہ اس پراجیکٹ کے زریعے بے شمار نئی نوکریاں تخلیق ہونے اور بے روزگار نوجوانوں کو نوکریاں ملنے کی تعریف کی ہے۔ زرا سوچیں بلین ٹری پراجیکٹ صرف پختونخواہ تک محدود پراجیکٹ تھا، اگر اس پراجیکٹ کو پھیلا کر پورے ملک پر محیط کر دیا جائے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ پچیس سے تیس لاکھ لوگوں کا روزگار تو صرف اس ایک پراجیکٹ اور اس سے متعلقہ صنعتوں سے پیدا کیا جا سکتا ہے۔ محتلم ناقدین, آپ اس کی ذیادہ ٹینشن نا لیں، تحریک انصاف نے جو کہا ہے وہ کر کے بھی دکھائے گی کیونکہ یہ کسی بھاٹی گیٹ کے لوہار یا آپ کی طرح فیس بکی دانشور کا نہیں بلکہ آکسفورڈ یونیورسٹی سے پڑھے ایک لیڈر کا وژن ہے، جسکی سوچ پائے کی پلیٹ, نہاری کے ڈونگے اور حلیم کی دیگ سے آگے بھی کام کرتی ہے...

Wednesday, 23 May 2018

پشاور: کے پی فوڈ اتھارٹی کی بڑی کاروائی : ترجمان پشاور: حیات آباد انڈسٹریل سٹیٹ میں ہمدرد فیکٹری پر چھاپہ: ترجمان پشاور: فیکٹری میں مشہورزمانہ روح افزا تیار ہوتا تھا: ترجمان پشاور: فیکٹری میں گندے اور غلیظ پھلوں کا استعمال پایا گیا: ترجمان پشاور: روح افزا کی تیاری میں ناقص پھل استعمال کئے جاتے تھے: ترجمان پشاور: روح افزا تیارکرنے والا پلانٹ سیل کردیا گیا: ترجمان پشاور: ہمدرد کی مشروبات کی چیکنگ کی گئی: ترجمان پشاور: جبکہ ادویات والا حصہ پروڈکشن جاری رکھے گا: ترجمان پشاور: باچہ خان چوک میں جعلی مصالحہ جات کی فیکٹریوں پر چھاپہ: ترجمان پشاور: تینوں فیکٹریوں میں لکڑی کا بور اور چوکر مصالحوں میں استعمال ہوتا تھا:ترجمان پشاور: لہسن کی خستہ حالی اور خام مال کی ابتر حالت پر فیکٹریاں سربمہر:ترجمان

*تلبینہ کا استعمال* “رسول اللہ ﷺ کے اہل خانہ میں سے جب کوئی بیمار ہوتا تھا تو حکم ہوتا کہ اس کیلئے تلبینہ تیار کیا جائے۔ پھر فرماتے تھے کہ تلبینہ بیمار کے دل سے غم کو اُتار دیتا ہے اور اس کی کمزوری کو یوں اتار دیتا ہے جیسے کہ تم میں سے کوئی اپنے چہرے کو پانی سے دھو کراس سے غلاظت اُتار دیتا ہے۔'' (ابن ماجہ) *رسول اللہﷺ نے حضرت جبرئیلؑ سے فرمایا کہ: جبرئیلؑ میں تھک جاتا ہوں۔ حضرت جبرئیلؑ نے جواب میں عرض کیا: اے الله کے رسولﷺ آپ تلبینہ استعمال کریں* آج کی جدید سائینسی تحقیق نے یہ ثابت کیا ہے کہ جو میں دودھ کے مقابلے میں 10 گنا ذیادہ کیلشیئم ہوتا ہے اور پالک سے ذیادہ فولاد موجود ہوتا ہے، اس میں تمام ضروری وٹامنز بھی پائے جاتے ہیں پریشانی اور تھکن کیلئے بھی تلبینہ کا ارشاد ملتا ہے۔ *نبی ﷺ فرماتے کہ یہ مریض کے دل کے جملہ عوارض کا علاج ہے اور دل سے غم کو اُتار دیتا ہے۔'' (بخاری' مسلم' ترمذی' نسائی' احمد)* جب کوئی نبی ﷺ سے بھوک کی کمی کی شکایت کرتا تو آپ اسے تلبینہ کھانے کا حکم دیتے اورفرماتے کہ اس خدا کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے یہ تمہارے پیٹوں سے غلاظت کو اس طرح اتار دیتا ہے جس طرح کہ تم میں سے کوئی اپنے چہرے کو پانی سے دھو کر صاف کرلیتا ہے ۔نبی پاک ﷺ کومریض کیلئے تلبینہ سے بہتر کوئی چیز پسند نہ تھی۔ اس میں جَو کے فوائد کے ساتھ ساتھ شہد کی افادیت بھی شامل ہوجاتی تھی۔ مگر وہ اسے نیم گرم کھانے' بار بار کھانے اور خالی پیٹ کھانے کو زیادہ پسند کرتے تھے۔ (بھرے پیٹ بھی یعنی ہر وقت ہر عمر کا فرد اس کو استعمال کرسکتا ہے۔ صحت مند بھی ' مریض بھی) نوٹ: *تلبینہ ناصرف مریضوں کیلئے بلکہ صحت مندوں کیلئے بہت بہترین چیز ہے۔ بچوں بڑوں بوڑھوں اور گھر بھر کے افراد کیلئے غذا' ٹانک بھی' دوا بھی شفاء بھی اور عطا بھی۔۔۔۔خاص طور پر دل کے مریض ٹینشن' ذہنی امراض' دماغی امراض' معدے' جگر ' پٹھے اعصاب عورتوں بچوں اور مردوں کے تمام امراض کیلئے انوکھا ٹانک ہے۔* " جو " -------- جسے انگریزی میں " بارلے " کہتے ہیں - اس کو دودھ کے اندر ڈال دیں ۔ پنتالیس منٹ تک دودھ میں گلنے دیں اور اسکی کھیر سی بنائیں ۔ اس کھیر کے اندر آپ چاھیں تو شھد ڈال دیں یا کھجور ڈال دیں ۔اسے تلبینہ ( Talbeena) کہیں گے --- *ترکیب:* ۔دودھ کو ایک جوش دے کر جو شامل کر لیں۔ ۔ ہلکی آنچ پر ۴۵ منٹ تک پکائیں اور چمچہ چلاتے رہیں۔ ۔ جو گل کر دودھ میں مل جائے تو کھجور مسل کر شامل کرلیں۔ ۔ میٹھا کم لگے تو تھوڑا شہد ملا لیں۔ ۔کھیر کی طرح بن جائے گی۔ ۔ چولہے سے اتار کر ٹھنڈا کر لیں۔ ۔ اوپر سے بادام ، پستے کاٹ کر چھڑک دیں۔ (کھجور کی جگہ شہد بھی ملا سکتے ہیں) *طبی فوائد:* طبی اعتبار سے اس کے متعدد فوائد بیان کئے جاتے ہیں-یہ غذا: 1۔غم ، (Depression) 2۔ مایوسی، 3۔ کمردرد، 4۔ خون میں ہیموگلوبن کی شدید کمی، 4۔ پڑهنے والے بچوں میں حافظہ کی کمزوری، 5۔ بهوک کی کمی، 6۔ وزن کی کمی، 7۔ کولیسٹرول کی زیادتی، 8۔ ذیابیطس کے مریضوں میں بلڈ شوگر لیول کے اضافہ، 9۔ امراض دل،انتڑیوں، 10۔ معدہ کے ورم، 11۔ السرکینسر، 12۔ قوت مدافعت کی کمی، 13۔ جسمانی کمزوری، 14۔ ذہنی امراض، 15۔ دماغی امراض، 16۔ جگر، 17۔ پٹھے کے اعصاب، 18۔ نڈھالی 19.وسوسے (Obsessions) 20. تشویش (Anxiety) کے علاوہ دیگر بے شمار امراض میں مفید ہےاور یہ بھی اپنی جگہ ایک حقیقت ہے کہ جو میں دودھ سے زیادہ کیلشیم اور پالک سے زیادہ فولاد پایا جاتا ہےاس وجہ سے تلبینہ کی اہمیت بڑھ جاتی ہے”۔

السلام علیکم میرے عزیز ھم وطنو۔۔۔! حالات کا اونٹ کس کروٹ پر بیٹھتا ھے ابھی ھمارے گمنام مجاھد اس ساری صورتحال کا نہایت باریک بینی سے مشاہدہ کر رہے ھیں۔۔۔ گذشتہ کچھ ماہ سے پاکستان کے داخلی حالات کو بھی مدنظر رکھیں کہ کیسے کفار اور یہود نے مملکت خداداد پاکستان کے اندر حقوق کے نام پر ایک نہایت خوفناک انتشار کا منصوبہ بنایا ھے جس میں منظور پشتین کو منظر عام پر لا کر اسکی ڈوریاں پیچھے سے براستہ افغانستان یہ کفار خود ہلا رہے ھیں۔ اس بدنام زمانہ وجہ انتشار تنظیم کو گراونڈ سپورٹ جو دے رہے ھیں ان میں اکثریت افغان مہاجرین کی ھے۔ جو نمک حرامی کرنے کے ماسٹر ھیں۔ جس ملک کا کھا رہے ھیں اسی ملک کے خلاف اقدامات اٹھا رہے ھیں۔ اس کے بعد اس ملک کے تمام چھٹے ھوئے ولد الحرام اور اسلام اور پاکستان کے دشمنان ھیں جن میں ملحد، گستاخان اسلام و گستاخان پاکستان، لبرلز،یہود کی پیدا کردہ این جی اوز، علی الاعلان غدار الطاف حیسن اور اس کی پارٹی جس نے کراچی کے جلسے میں ان فتنہ انگیزوں کو مکمل سپورٹ کیا اور افرادی قوت کے ساتھ جلسہ کامیاب کروایا۔۔۔ اس کے علاوہ موجودہ ن لیگی ہجڑا حکومت کی سپورٹ بھی حاصل ھے جس میں نااہل نواز شریف تین بار ملک کا خون چوسنے والی جونک جو اپنی نا اہلی کی وجہ سے اس وقت پاگل کتے کی طرح ادھر ادھر منہ مار رہا ھے۔ اس پاگل کتے کو اتنا بھی شعور نہیں کہ اسکو کفار پاکستان کے خلاف استعمال کر رہے ہیں۔ اس لعنتی کردار نے عدلیہ اور افواج کے خلاف اپنی بکواس جاری رکھی اور جوں ہی منظور پشتین کا فتنہ لانچ ھوا اس نے اس فتنے کی بھرپور حمایت کی جس کی مثال لاہور کے اندر ھونے والا پی ٹی ایم کا جلسہ تھا جس میں نواز شریف اور اسکی بیٹی نے اپنے ن لیگی جیالے بھیج کر لاھور کے اندر پی ٹی ایم کے جلسے کو دوام بخشا۔۔۔ اس دوران منظور گشتین اور اسکے پالتو کتے پاک افواج کے خلاف بدترین نعرے بازی اور کھلم کھلا بغاوت پر اتر آئے۔ لیکن موجودہ ہجڑا نواز شریف کی غلام حکومت نے پاک فوج کے وقار اور ملکی سلامتی کے پیش نظر کوئی بھی ایکشن نہیں لیا اس وجہ سے اس غدار کتے منظور پشتین کے حوصلے بڑھ گئے اور دن بدن اسکی بکواس بھی بڑھتی جا رہی ھے۔ متعدد بار پاک فوج نے مقامی جرگے منعقد کر کے منظور پشتین کو کسی بات چیت کے دائرے میں لا کر معاملات کو حل کرنے کی کوشش کی مگر اس یہودی کتے نے ھمیشہ مذاکرات سے راہ فرار اختیار کیے رکھی۔ اس منظور کے تمام گذشتہ مطالبات پورے کئے جا چکے مگر کسی کوٹھے کی رانڈ کی طرح اس کے خواہشات ناجائز حد تک بڑھتی ہی جا رہی ھیں جو اس کے ناپاک عزائم کی عکاسی کر رہی ھیں کہ یہ بندا کسی بھی حال میں پر امن نہیں رہنے والا ، یہ عوام اور سادہ لوح پختونوں کو پاک فوج کے خلاف استمعال کرنے کی کفار کی پلاننگ ہر عمل پیرا ھے۔ دوسری طرف بھارتی سفیر کی جیو نیوز کراچی سٹوڈیوز کے اندر دو گھنٹے تک دو بھارتی جرنلسٹس کے ساتھ میٹنگ اور سرگرمیاں بھی کافی شک کی نگاہ سے دیکھی جا رہی تھیں کہ ٹھیک دو دن بعد بدبخت نواز شریف نے کفار اور یہودی آقاوں کو خوش کرنے اور اپنی گھٹیا نفرت کا اظہار کرنے کی خاطر اچانک ایک بھارتی جرنلسٹ کو انٹرویو دے مارا جس میں اس نے ممبئی حملوں پر پاکستان کو ذمہ دار قرار دیا۔ (حالانکہ خود بھارتی پولیس چیف نے انکشاف کیا تھا کہ ممبئی حملہ خود بھارت نے کروایا تھا پاکستان پر ملبہ ڈال کر بین الاقوامی طور پر پاکستان کو نقصان پہنچانے کیلیئے عالمی رائے عامہ اپنے حق میں کروانے کی خاطر) پورا پاکستان اس لعنتی کردار کی بے وقت کی چوول پر حیران و پریشان ھوا کہ اس وقت اچانک ایسے بیان اور انٹرویو کی کیا ضرورت پیش آ گئی تھی۔ تو دوستو یہ بیان بھی اس نواز لعنتی سے پوری پلاننگ کے تحت دلوایا گیا نواز شریف بدلے کی آگ میں جلتا ھوا ہائی جیک ھو گیا اور کفار کا آلہ کار بن کر اپنے ہی ملک کی سلامتی پر نقب لگا بیٹھا۔۔۔ آج اس نواز شریف کے اسی بکواس بیان کی وجہ سے امریکہ نے اسرائیل کو پاکستان کی تنصیبات پر حملہ کرنے کی تجویز/ھمت دی۔ اس وقت حالات اس قدر سنگین صورتحال اختیار کر چکے ھیں کہ اسرائیل پاکستان پر حملے کی تیاری کر رہا تھا کہ پاکستان نے جوابی اقدام کے طور پر اپنی بری فوج اور فضائیہ کو ہائی الرٹ کر دیا ھے۔ اور چیئرمین جوائنٹ چیف آف سٹاف کمیٹی جنرل زبیر حیات صاحب نے اسرائیل کو انتباہ کیا کہ اگر اسرائیل نے پاکستان پر حملے کی غلطی کی تو پاکستان اسرائیل کو 12 منٹ سے کم وقت میں صفحہ ہستی سے مٹا دے گا۔ آخر حالات سنگینی کی انتہاوں پر پہنچ گئے ھیں تبھی تو ایک ذمہ دار ترین فوجی جنرل نے ایسا بیان جاری کیا۔ چائنہ کی سرکاری ویب سائٹ پر بھی یہ بیان جاری ھوا ھے کہ "ہمیں یقین ھے کہ پاکستان اسرائیل کو 12 منٹ کے اندر تباہ کر سکتا ھے اور اگر ساتھ چائنہ بھی شامل ھو تو یہ کام 2 منٹ میں ھو سکتا ھے۔ کوئی صاحب عقل کوئی صاحب ھوش کوئی صاحب ادراک ھے جو عالمی طاقتوں کے درمیان ایسی بیان بازی کی سنگینی کو سمجھ سکے اور اس بے عقل اور ناسمجھ قوم کو سمجھا سکے کہ صورت حال نہایت نازک ھو چکی ھے۔ جاگ جاو آپس کی لڑائی اور حقوق کے نام پر بک بکواس اور نفرت انگیزیاں چھوڑ دو اور اپنا ملک بچا لو اپنا۔ اس کے لیے آپکو اپنی مسلح افواج کے ساتھ بھرپور تعاون ھمدردی اور کندھے سے کندھا ملا کر کھڑا ھونا پڑے گا۔ اپنی افواج پر بھونکنے والے پاگل کتوں کو سمجھانا ھو گا۔ آپکی افواج ان شاءاللہ عز وجل وطن عزیز کا دفاع ہر صورت کر لیں گی مگر قوم کی بدگمانی اور پاک فوج کے خلاف بد زبانی اس پاک فوج کے حوصلے کہیں پست نہ کر دے۔ اب بھی وقت ھے کہ اپنے مجاھدوں کا ساتھ دیجیئے ہر جگہ میدان جنگ میں بھی اور سوشل میڈیا پر بھی۔ بین الاقوامی پروپیگنڈا چینلز پر بھی اپنے مجاھدوں کو سپورٹ کیجیئے تاکہ وطن عزیز ، دین اسلام اور اپنی قوم کی خاطر لڑنے والے یہ مجاھد کبھی ناکام نہ ھوں۔ آپکی مسلح افواج پوری طرح چوکس اور تیار ھیں دشمن بہت بڑی تعداد میں ھیں جو مشرق و مغرب اور ملک کے اندر سامنے اور چھپ کر وار کرنے کیلیئے تیار بیٹھے ھیں۔ اس نازک وقت میں اپنی صرف آٹھ لاکھ فوج کو آپکی ھمدردی اور دعاوں کی اشد ضرورت ھے۔۔۔ امید کرتا ھوں تمام حالات کو مد نظر رکھ کر آپ کوئی اچھا فیصلہ کریں گے کہ ملک بچانے کیلیئے پاک افواج کا انتخاب کرنا ھے یا پھر حقوق کے میٹھے لولی پاپ کو چوس کر ملک و قوم دونوں کو تباہ کروانا ھے۔۔۔ یہ ذہن میں رکھنا کہ وقت بہت کم ھے فیصلہ جلدی کیجیئے گا۔۔ منقول انتخاب محمد شاہد عنائیت

السلام علیکم میرے عزیز ھم وطنو۔۔۔! حالات کا اونٹ کس کروٹ پر بیٹھتا ھے ابھی ھمارے گمنام مجاھد اس ساری صورتحال کا نہایت باریک بینی سے مشاہدہ کر رہے ھیں۔۔۔ گذشتہ کچھ ماہ سے پاکستان کے داخلی حالات کو بھی مدنظر رکھیں کہ کیسے کفار اور یہود نے مملکت خداداد پاکستان کے اندر حقوق کے نام پر ایک نہایت خوفناک انتشار کا منصوبہ بنایا ھے جس میں منظور پشتین کو منظر عام پر لا کر اسکی ڈوریاں پیچھے سے براستہ افغانستان یہ کفار خود ہلا رہے ھیں۔ اس بدنام زمانہ وجہ انتشار تنظیم کو گراونڈ سپورٹ جو دے رہے ھیں ان میں اکثریت افغان مہاجرین کی ھے۔ جو نمک حرامی کرنے کے ماسٹر ھیں۔ جس ملک کا کھا رہے ھیں اسی ملک کے خلاف اقدامات اٹھا رہے ھیں۔ اس کے بعد اس ملک کے تمام چھٹے ھوئے ولد الحرام اور اسلام اور پاکستان کے دشمنان ھیں جن میں ملحد، گستاخان اسلام و گستاخان پاکستان، لبرلز،یہود کی پیدا کردہ این جی اوز، علی الاعلان غدار الطاف حیسن اور اس کی پارٹی جس نے کراچی کے جلسے میں ان فتنہ انگیزوں کو مکمل سپورٹ کیا اور افرادی قوت کے ساتھ جلسہ کامیاب کروایا۔۔۔ اس کے علاوہ موجودہ ن لیگی ہجڑا حکومت کی سپورٹ بھی حاصل ھے جس میں نااہل نواز شریف تین بار ملک کا خون چوسنے والی جونک جو اپنی نا اہلی کی وجہ سے اس وقت پاگل کتے کی طرح ادھر ادھر منہ مار رہا ھے۔ اس پاگل کتے کو اتنا بھی شعور نہیں کہ اسکو کفار پاکستان کے خلاف استعمال کر رہے ہیں۔ اس لعنتی کردار نے عدلیہ اور افواج کے خلاف اپنی بکواس جاری رکھی اور جوں ہی منظور پشتین کا فتنہ لانچ ھوا اس نے اس فتنے کی بھرپور حمایت کی جس کی مثال لاہور کے اندر ھونے والا پی ٹی ایم کا جلسہ تھا جس میں نواز شریف اور اسکی بیٹی نے اپنے ن لیگی جیالے بھیج کر لاھور کے اندر پی ٹی ایم کے جلسے کو دوام بخشا۔۔۔ اس دوران منظور گشتین اور اسکے پالتو کتے پاک افواج کے خلاف بدترین نعرے بازی اور کھلم کھلا بغاوت پر اتر آئے۔ لیکن موجودہ ہجڑا نواز شریف کی غلام حکومت نے پاک فوج کے وقار اور ملکی سلامتی کے پیش نظر کوئی بھی ایکشن نہیں لیا اس وجہ سے اس غدار کتے منظور پشتین کے حوصلے بڑھ گئے اور دن بدن اسکی بکواس بھی بڑھتی جا رہی ھے۔ متعدد بار پاک فوج نے مقامی جرگے منعقد کر کے منظور پشتین کو کسی بات چیت کے دائرے میں لا کر معاملات کو حل کرنے کی کوشش کی مگر اس یہودی کتے نے ھمیشہ مذاکرات سے راہ فرار اختیار کیے رکھی۔ اس منظور کے تمام گذشتہ مطالبات پورے کئے جا چکے مگر کسی کوٹھے کی رانڈ کی طرح اس کے خواہشات ناجائز حد تک بڑھتی ہی جا رہی ھیں جو اس کے ناپاک عزائم کی عکاسی کر رہی ھیں کہ یہ بندا کسی بھی حال میں پر امن نہیں رہنے والا ، یہ عوام اور سادہ لوح پختونوں کو پاک فوج کے خلاف استمعال کرنے کی کفار کی پلاننگ ہر عمل پیرا ھے۔ دوسری طرف بھارتی سفیر کی جیو نیوز کراچی سٹوڈیوز کے اندر دو گھنٹے تک دو بھارتی جرنلسٹس کے ساتھ میٹنگ اور سرگرمیاں بھی کافی شک کی نگاہ سے دیکھی جا رہی تھیں کہ ٹھیک دو دن بعد بدبخت نواز شریف نے کفار اور یہودی آقاوں کو خوش کرنے اور اپنی گھٹیا نفرت کا اظہار کرنے کی خاطر اچانک ایک بھارتی جرنلسٹ کو انٹرویو دے مارا جس میں اس نے ممبئی حملوں پر پاکستان کو ذمہ دار قرار دیا۔ (حالانکہ خود بھارتی پولیس چیف نے انکشاف کیا تھا کہ ممبئی حملہ خود بھارت نے کروایا تھا پاکستان پر ملبہ ڈال کر بین الاقوامی طور پر پاکستان کو نقصان پہنچانے کیلیئے عالمی رائے عامہ اپنے حق میں کروانے کی خاطر) پورا پاکستان اس لعنتی کردار کی بے وقت کی چوول پر حیران و پریشان ھوا کہ اس وقت اچانک ایسے بیان اور انٹرویو کی کیا ضرورت پیش آ گئی تھی۔ تو دوستو یہ بیان بھی اس نواز لعنتی سے پوری پلاننگ کے تحت دلوایا گیا نواز شریف بدلے کی آگ میں جلتا ھوا ہائی جیک ھو گیا اور کفار کا آلہ کار بن کر اپنے ہی ملک کی سلامتی پر نقب لگا بیٹھا۔۔۔ آج اس نواز شریف کے اسی بکواس بیان کی وجہ سے امریکہ نے اسرائیل کو پاکستان کی تنصیبات پر حملہ کرنے کی تجویز/ھمت دی۔ اس وقت حالات اس قدر سنگین صورتحال اختیار کر چکے ھیں کہ اسرائیل پاکستان پر حملے کی تیاری کر رہا تھا کہ پاکستان نے جوابی اقدام کے طور پر اپنی بری فوج اور فضائیہ کو ہائی الرٹ کر دیا ھے۔ اور چیئرمین جوائنٹ چیف آف سٹاف کمیٹی جنرل زبیر حیات صاحب نے اسرائیل کو انتباہ کیا کہ اگر اسرائیل نے پاکستان پر حملے کی غلطی کی تو پاکستان اسرائیل کو 12 منٹ سے کم وقت میں صفحہ ہستی سے مٹا دے گا۔ آخر حالات سنگینی کی انتہاوں پر پہنچ گئے ھیں تبھی تو ایک ذمہ دار ترین فوجی جنرل نے ایسا بیان جاری کیا۔ چائنہ کی سرکاری ویب سائٹ پر بھی یہ بیان جاری ھوا ھے کہ "ہمیں یقین ھے کہ پاکستان اسرائیل کو 12 منٹ کے اندر تباہ کر سکتا ھے اور اگر ساتھ چائنہ بھی شامل ھو تو یہ کام 2 منٹ میں ھو سکتا ھے۔ کوئی صاحب عقل کوئی صاحب ھوش کوئی صاحب ادراک ھے جو عالمی طاقتوں کے درمیان ایسی بیان بازی کی سنگینی کو سمجھ سکے اور اس بے عقل اور ناسمجھ قوم کو سمجھا سکے کہ صورت حال نہایت نازک ھو چکی ھے۔ جاگ جاو آپس کی لڑائی اور حقوق کے نام پر بک بکواس اور نفرت انگیزیاں چھوڑ دو اور اپنا ملک بچا لو اپنا۔ اس کے لیے آپکو اپنی مسلح افواج کے ساتھ بھرپور تعاون ھمدردی اور کندھے سے کندھا ملا کر کھڑا ھونا پڑے گا۔ اپنی افواج پر بھونکنے والے پاگل کتوں کو سمجھانا ھو گا۔ آپکی افواج ان شاءاللہ عز وجل وطن عزیز کا دفاع ہر صورت کر لیں گی مگر قوم کی بدگمانی اور پاک فوج کے خلاف بد زبانی اس پاک فوج کے حوصلے کہیں پست نہ کر دے۔ اب بھی وقت ھے کہ اپنے مجاھدوں کا ساتھ دیجیئے ہر جگہ میدان جنگ میں بھی اور سوشل میڈیا پر بھی۔ بین الاقوامی پروپیگنڈا چینلز پر بھی اپنے مجاھدوں کو سپورٹ کیجیئے تاکہ وطن عزیز ، دین اسلام اور اپنی قوم کی خاطر لڑنے والے یہ مجاھد کبھی ناکام نہ ھوں۔ آپکی مسلح افواج پوری طرح چوکس اور تیار ھیں دشمن بہت بڑی تعداد میں ھیں جو مشرق و مغرب اور ملک کے اندر سامنے اور چھپ کر وار کرنے کیلیئے تیار بیٹھے ھیں۔ اس نازک وقت میں اپنی صرف آٹھ لاکھ فوج کو آپکی ھمدردی اور دعاوں کی اشد ضرورت ھے۔۔۔ امید کرتا ھوں تمام حالات کو مد نظر رکھ کر آپ کوئی اچھا فیصلہ کریں گے کہ ملک بچانے کیلیئے پاک افواج کا انتخاب کرنا ھے یا پھر حقوق کے میٹھے لولی پاپ کو چوس کر ملک و قوم دونوں کو تباہ کروانا ھے۔۔۔ یہ ذہن میں رکھنا کہ وقت بہت کم ھے فیصلہ جلدی کیجیئے گا۔۔ منقول انتخاب محمد شاہد عنائیت

Tuesday, 22 May 2018

سعودی خواتین برقعہ اتاردیں اور ماڈرن لباس پہنا کریں سعودی شہزادے کا ایک اور شرمناک اقدام جب سے سعودی عرب شہزادہ سلمان کی بادشاہی میں آیا ہے ٹھیک اسی دن سے سعودیہ کے تھذیب و ثقافت میں کافی تبدیلی آئی ہے. وہ ملک جہاں پر خواتین کو گاڑی چلانے پر پابندی تھی آج اسی ملک میں خواتین بغیر کسی ڈر اور خوف کے گاڑیاں چلا رہی ہیں. وہ ملک جہاں پر کبھی کسی نے سر عام فحش کپڑوں میں ملبوس لڑکیوں کو نہیں دیکھا تھا آج اسی ملک میں شہزادہ سلمان کے کہنے پر سمندر کنارے ایک عالی شان بیچ بنایا جا رہا ہیں جہاں پر خواتین اور مرد بغیر کسی شرم و حیا کے کھلے عام جو چاہیں کر سکتے ہیں. اسکے علاوہ سعودی عرب میں جلدی ہی سینما گھروں کا بھی افتتاح کیا جائیگا جہاں پر سعودی فلمیں دکھائی جائیں گی. ماضی میں جن جن شہزادوں نے بھی سعودی عرب کی حکومت سنمبھالی انہوں نے خواتین پر کپڑوں کی پابندی کا رواج برکرار رکھتے ہوۓ ہر عورت کیلیے عبایا یعنی برقعہ پہننا ایک ضروری عمل سمجھا تھا. جو بھی کوئی عورت گھر سے نکلتی وہ ہمیشہ اپنا سر اور بدن ڈھانپ کے نکلتی جو کہ اسلامی غرض سے سب سے بہترین عمل ہے لیکن حال ہی میں شہزادہ سلمان نے خواتین کے عبایا پہننے کو غیر ضروری کرار دیتے هوئے، سعودی خواتین کو کھلے عام ہر قسم کے کپڑے پہننے کی اجازت دے دی ہے. سعودی شہزادے کا کہنا ہے کہ جب تک آپکے کپڑے ٹھیک ہیں تب تک اپنے سر کو ڈھانپنے، نقاب کرنے، یا پھر پورے بدن کو کالے برقع سے چھپانے کی ضرورت نہیں ہے. شہزادہ سلمان کے اس اعلان کے بعد سعودی عرب میں خواتین کی فیشن میں کافی بدلاؤ دیکھنے میں آیا ہے. وہ ملک جہاں پر کبھی کوئی عورت ننگے سر نہ نکلی تھی آج اسی ملک میں عورتیں اب سادہ دوپٹہ لیکر باہر نکل جاتی ہیں کچھ شہروں میں تو ماڈرن سعودی خواتین نے صبح صبح باہر نکل کر پتلوں یعنی جینز کی پینٹے پہن کر جاگنگ بھی شروع کر دی ہے

9

آئندہ آنے والی حکومت بھی نوازشریف صاحب کی دیکھ رہا ہوں۔ کل الیکشن ہو جائیں تو نوازشریف جیتیں گے اور زیادہ اکثریت کے ساتھ آئیں گے۔ ہمارے ملک کے لیے نوازشریف بہترین وزیراعظم ہیں۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عمران خان! آپ جو چیز (کوکین) استعمال کرتے ہیں، اس کے بعد جھوٹے خواب آئیں گے، میرے پاس بہت باتیں ہیں، زینت امان سے شروع کروں گا۔ عمران خان دھرنے کا مطلب ہی شادی سمجھتے ہیں۔ ہم نے تو اپنے بھائی عمران لیاقت کو تسلیم نہیں کیا، اس کے جنازے میں شریک نہیں ہوا، عمران نام سے میری کبھی نہیں بنی۔ عمران خان کے حوالے اقتدار کبھی نہیں کرنا چاہیے، وہ صبح کچھ شام کچھ ہوتے ہیں۔ اچانک ان کی رائے بدل جاتی ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سما نیوز کے اینکر شہزاد اقبال نے کلپس چلا کر عامر لیاقت حسین کو شرمندہ کر دیا۔

🔷 Kissinger: World War III will come and Muslims will turn to ashes ... Former US Secretary of State Henry Kissinger made loud and dangerous statements after being swallowed up by a long silence until people almost forgot his existence. "The Third World War is on the way, and Iran will be the starting point in that war, in which Israel will have to kill as many Arabs as possible and occupy half of the Middle East," Kissinger said in an interview with the DailyScape. "We have told the US military that we are forced to occupy seven countries in the Middle East because of their strategic importance, especially because they contain oil and other economic resources. There is only one step left, which is to strike Iran," he said. "When China and Russia move from their stupidity, the big bang and the Great War will have been won, and only one force, Israel and America, will win," he said. "Israel will have to fight with all its strength and weapons to kill as many Arabs as possible. And the occupation of half of the Middle East. " "The drums of war are already ringing in the Middle East, and the deaf is the only one who does not hear them," Kissinger said, noting that if things went well, from his point of view, Israel would control half of the Middle East. Kissinger noted that American and European young people have been well trained in the fighting in the last 10 years, and when they are ordered to go out to fight the crazy ones, they will obey orders and turn them [Muslims] into ashes. We haved hired or purchased many local nationals from these islamic countries and they are working for our plans as we have done heavy investment on them. These are doing well beyond our expectations. Due to these traitors we are very near to our planned goals. Kissinger also stated that "America and Israel have prepared coffins for Russia and Iran, and Iran will be the last nail in this coffin, after America gave them a chance to recover and a false sense of power. Then they will fall forever, so that America (Freemasonry) can build a new world community, where there will be only one government with superpower. " Kissinger confirmed that he had a great dream at the moment that his vision of events was realized. For those who do not know Henry Kissinger, the former Secretary of State and one of the most famous emperors of world rule and the architects of the new world order, he was born in 1923 in Germany to a Jewish family. Full meeting in English in DailyScape 👇🏻👇🏻 https://goo.gl/2Ua2uT Dangerous and planned words in the way of execution.

۔ حکومت اور اپوزیشن نے سابق سیکرٹری خارجہ جلیل عباس جیلانی کو نگران وزیراعظم بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔جلیل عباس جیلانی کا نام پیپلز پارٹی کی جانب سے تجویز کیا گیا تھا جس پر وفاقی حکومت نے رضامندی ظاہر کردی ہے۔جلیل عباس جیلانی کو نگران وزیراعظم بنانے کا اعلان کل بروز منگل کو وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی جانب سے کیا جائے گا۔ اس سے قبل میڈیا رپورٹ کے مطابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور اپوزیشن لیڈر خورشیدشاہ کے درمیان نگراں وزیراعظم کی تقرری سے متعلق کئی ملاقاتیں ہوچکی ہیں ،ْسید خورشید شاہ نے کہاکہ نگراں وزیراعظم کی تقرری کا اعلان منگل کو کیا جائیگا۔ذرائع کے مطابق حکومت اور اپوزیشن کے درمیان نگراں وزیراعظم کیلئے متفقہ نام پر اتفاق کرلیا گیا ہے اور اب کابینہ پر مشاورت شروع کر دی گئی ذرائع کے مطابق نگراں وزیراعظم کی تقرری کیلئے مختلف نام زیر غور ہیں جن پر قیاس آرائیاں شروع کردی گئی ہیں۔ ذرائع کے مطابق نگراں وزیراعظم کیلئے اقوام متحدہ میں پاکستان کے سابق مستقل مندوب عبداللہ حسین ہارون، سابق گورنر اسٹیٹ بینک ڈاکٹر شمشاد اختر اور اقوام متحدہ میں پاکستان کی مستقبل مندوب ملیحہ لودھی کا نام بھی زیر گردش ہے۔ذرائع کے مطابق سابق چیف جسٹس پاکستان تصدق حسین جیلانی اور سابق گورنر اسٹیٹ بینک ڈاکٹر عشرت حسین کے نام بھی بطور نگراں وزیراعظم زیر غور ہیں۔ذرائع نے بتایا کہ نگراں وزیراعظم کی دوڑ میں ڈاکٹر شمشاد اختر اور ملیحہ لودھی سب سے آگے ہیں ،ْ ڈاکٹر شمشاد اخترکے بطور نگراں وزیراعظم بننے پر ملیحہ لودھی کے وزیر خارجہ بننے کا امکان ہے۔دوسری جانب پیپلزپارٹی نے نگراں وزیراعظم کے لیے سابق چیئرمین پاکستان کرکٹ بورڈ ذکاء اشرف اور امریکا میں پاکستان کے سابق سفیر جلیل عباس جیلانی کے نام فائنل کرلیے ہیں۔ذرائع کے مطابق چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری اور پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے نگراں وزیراعظم کیلئے تین ناموں پر غور کیا۔ذرائع کے مطابق قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ نے بھی یہی دونوں نام وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کو دئیے ہیں۔آصف زرداری نے ذکاء اشرف اور جلیل عباس کو الگ الگ ٹیلی فون بھی کیا، اس موقع پر ان کا کہنا تھا کہ محنت اور ایمانداری کی بنیاد پر ان کے نام نگراں وزیراعظم کے لیے تجویز کیے گئے ہیں۔آصف زرداری نے امید کا اظہار کیا کہ آپ کی زیر نگرانی انتخابات ہوئے تو کسی کو شکایت نہیں ہوگی۔نجی ٹی وی کے مطابق پیپلز پارٹی کی جانب سے نگراں وزیراعظم کیلئے 3 نام دیئے گئے تاہم تیسرے امیدوار کا نام سامنے نہیں آسکا۔یاد رہے کہ ذکاء اشرف 1988 سے 1990 تک وزیراعلیٰ سندھ کے مشیر رہے ہیں جب کہ وہ پیپلز پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے ممبر بھی رہ چکے ہیں۔علاوہ ازیں ذکاء اشرف نے پیپلز پارٹی کی سی ای سی سے استعفیٰ دے دیا۔ ان کا کہنا ہیکہ استعفیٰ 10 روز پہلے آصف زرداری کے کہنے پر دیا، استعفے کے بعد نگراں وزیر اعظم کیلئے نام تجویز کیا گیا۔۔ذکاء اشرف اکتوبر 2011 سے فروری 2014 تک پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دے چکے ہیں۔جلیل عباس جیلانی سابق سفارت کار ہیں جنہوں نے 2013 سے 2017 تک امریکا میں پاکستان کے 22ویں سفیر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔اس سے قبل انہوں نے مارچ 2012 سے دسمبر 2013 تک سیکریٹری خارجہ کی حیثیت سے بھی خدمات سر انجام دی ہیں۔۔جلیل عباس جیلانی 1989 سے 1992 تک وزیراعظم آفس میں ڈپٹی سیکریٹری کے طور پر بھی فرائض سرانجام دیتے رہے ہیں اور وہ 1999 سے 2003 تک بھارت میں ڈپٹی ہائی کمشنر بھی تعینات رہ چکے ہیں ۔بریکنگ نیوز!! انتظار کی گھڑیاں ختم،نگران وزیراعظم کا اعلان ہو گیا

یہ تصویر دیکھ کر مجھے اپنی صحافت کے ابتدائی دور کی یاد آ گئی۔ 2001 کی بات ہے، میں صحافت کے میدان میں بالکل نووارد تھا۔ کوئی سفارش تو تھی نہیں ، اس لیے ایک اخبار میں بطور مشقتی کام کا آغاز کرنا پڑا۔ نہ ہونے کے برابر معاوضے کے عوض ، انگریزی سے اردو ٹرانسلیشن،عوامی سروے، نمائندوں کی قدبطہ نما تحریروں کو خبر میں ڈھالنے کی مشقت کرنا پڑتی تھی۔ اکثر سینئرز ٹیپ ریکارڈر پر انٹرویو کر کے لاتے ،تو آڈیو کیسٹس حوالے کر دیتے کہ اس میں سے سوال و جواب کو ترتیب سے لکھ کر دو۔ ایک روز اخبار کے ایڈیٹر نے مجھے بلایا اور کہا کہ میں تمارے حوالے ایک اہم ٹاسک کر رہا ہوں۔ یہ ٹیسٹ ہے، اگر تم نے اسے اچھے انداز میں کر لیا تو ٹرینی کے بجائے تمیں رپورٹر کر دوں گا۔ یہ الفاظ سُن کر مجھے محسوس ہوا کہ بس سنہرے مستقبل کا آغاز ہو ا ہی چاہتا ہے۔ ایڈیٹر صاحب نے کام بتانے سے پہلے راز داری کی شرط لگائی، کہا کہ تم یہ ساراکام میرے کمرے میں ہی بیٹھ کر کرو گے، اور اخبار کے اندریا باہر اس حوالے کسی سے ذکر نہیں کرنا۔ میں نے فورا حامی بھر لی ۔ اب میرے سپرد ایک فائل کی گئی جس پر ایک سیاستدان کا نام لکھا تھا۔ اس فائل میں کئی کاغذات کی فوٹو کاپیاں تھیں۔ کئی طرح کے گھپلے، بدعنوانیاں ، میرٹ سے ہٹ کر تقرریاں اور کرپشن کے کئی ثبوت۔ مجھے کہا گیا کہ ان سب چیزوں کو اچھی طرح پڑھ کر ایک جاندار خبر بنانی ہے۔ کل ہمارے اخبار کے صفحہ اول پر ایک ‘باکس’ شائع ہوگا، جس اس سیاستدان کے تمام ‘‘کالے کرتوت’’ دستاویزی ثبوتوں کے ہمراہ عوام کے سامنے لائے جائیں گے۔ رات گیارہ بجے تک میں نے ایک بڑی خبر اور ساتھ کئی ضمنی خبروں کے تیار کر کے ایڈیٹر صاحب کو فون کیا، تو وہ حیرت انگیز طور پر چند ہی منٹوں میں دفتر پہنچ گئے۔ خبریں پڑھنے کے بعد مجھے شاباش دے کر گھرجانے کی اجازت مرحمت فرمائی۔ اگلے دن کے فرنٹ پیج پر کالے ہاشیے میں چیختی چنگاڑتی سرخیوں کا ایک مجموعہ ایک سیاستدان کے عمالِ بد کا اعلان عام کر رہا تھا۔ خبر کو اخبار کے انوسٹی گیشن سیل کی تحقیق قرار دیا گیا تھا۔ دو دن بعد ہی خبر آئی کی پرویز مشرف کی جانب سے قائم کیے گئے قومی احتساب بیورو نے میڈیا کی خبروں کا نوٹس لیتے ہوئے اُسی سیاست دان کے خلاف انکوائری کا آغاز کر دیا ہے۔ ایٹریٹر صاحب نے مجھے بطور خاص بلوا کر نیب کی پریس ریلیز دیکھائی ۔ پھر یہ معمول بن گیا، ایڈیٹر صاحب ہر تیسرے چوتھے روز ایک فائل میرے حوالے کرتے، میں خبر بناتا، جو اخبار میں بہت نمایاں انداز میں شائع ہوتی۔ اور پھر جلد ہی نیب بھی نوٹس لے لیتا۔ تین سے چار مہینوں کے اندر ہم نے کوئی 70 کے قریب سیاستدانوں کو بے نقاب کیا۔ جن کے خلاف نیب نے بھی تحقیقات شروع کر دیں۔ کچھ عرصے بعد مجھے محسوس ہوا، کہ جس سیاست دان کے خلاف ہم خبر چلاتے اور نیب انکوائری شروع کرتا۔ وہ جلد ہی مسلم لیگ قاف میں شمولیت کا اعلان کر دیتا۔ اس کے بعد اُس کے خلاف نیب کے کسی اقدام کی کوئی خبر نہ آتی۔ البتہ جو لوگ قاف لیگ میں شامل نہیں ہوئے اُن کی گرفتاریاں بھی ہوئیں اور مقدمات اور نا اہلیوں کا بھی انہیں سامنا کرنا پڑا۔ یوں کہہ لیجیے کہ قاف لیگ بنوانے میں میرا بھی اہم کردار رہا ہے۔ یا پھر میرے صحافتی کیرئیر میں قاف کی تحلیق کا اہم کردار رہا ہے۔ خیر آج یہ تصویر دیکھ کر 17 سال پہلے کا زمانہ یاد آگیا۔ ہاں یہ بھی خیال آیا کہ تبدیل صرف قاف لیگ کی جگہ پی ٹی آئی کی صورت آئی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کی سوچ بدلی ہے نہ ہی طریقہ واردات۔ عوام پھر تبدیلی کے نعروں سے بہل جانے کو تیار ہے۔ انہوں نے نہ سمجھنے اور نہ سوچنے کی قسم کھا رکھی ہے۔ مہتاب عزیز

نقیب اللہ قتل کیس کے سرکاری وکیل کو سنگین دھمکیاں ملنے کا انکشاف ویب ڈیسک ہفتہ 19 مئ 2018 نقیب اللہ قتل کیس کی مزید سماعت 28 مئی کو ہوگی کراچی: نقیب اللہ قتل کیس کے وکیل استغاثہ سنگین دھمکیوں کی وجہ سے عدالت میں پیش نہیں ہوئے جب کہ سرکاری وکلا نے عدالتی نوٹس وصول کرنے سے معذرت کرلی۔ ایکسپریس نیوز کے مطابق کراچی کی انسداد دہشت گردی کی عدالت میں نقیب اللہ قتل کیس کی سماعت ہوئی، جیل حکام نے سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار سمیت دیگر ملزمان کو عدالت کے روبرو پیش کردیا۔ مقدمے کی سماعت بند کمرے میں ہوئی۔ تفتیشی افسرنے سی سی ٹی وی فوٹیج پر مشتمل سی ڈی اور دیگر شواہد عدالت کے روبرو پیش کردیئے تاہم مقدمے کے وکیل استغاثہ علی رضا ایڈووکیٹ پیش نہ ہوئے ان کی جگہ دیگر سرکاری وکلا پیش ہوئے۔ سماعت کے دوران صورت حال اس وقت پیچیدہ ہوگئی جب کہ سرکاری وکلا نے عدالتی نوٹس وصول کرنے سے انکار کردیا، جس پر فاضل جج نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ حیرت ہے سرکاری وکلا نوٹس بھی وصول نہیں کررہے، میں نے پہلے ہی ہائی کورٹ کو لکھا تھا کہ کیس بھیج رہے ہیں توعملہ اور سرکاری وکیل بھی بھیجیں۔ عدالت نے پیش کردہ سی ڈی کی کاپیاں پیش کرنے کا حکم دے دیا۔ کیس کی مزید سماعت 28 مئی کو ہوگی۔ مقدمے کے وکیل استغاثہ علی رضا عدالت میں پیش نہیں ہوئے، ان کی عدم موجودگی کے باعث دیگر سرکاری وکلا پیش ہوئے۔ سرکاری وکلا نے نام خفیہ رکھنے کی شرط پر میڈیا کو بتایا کہ علی رضا کا کہنا ہے کہ وہ راؤ انوار کے مقدمےمیں پیش نہیں ہوسکتا، اسے دھمکیاں مل رہی ہیں۔

نقیب اللہ قتل کیس کے سرکاری وکیل کو سنگین دھمکیاں ملنے کا انکشاف ویب ڈیسک ہفتہ 19 مئ 2018 نقیب اللہ قتل کیس کی مزید سماعت 28 مئی کو ہوگی کراچی: نقیب اللہ قتل کیس کے وکیل استغاثہ سنگین دھمکیوں کی وجہ سے عدالت میں پیش نہیں ہوئے جب کہ سرکاری وکلا نے عدالتی نوٹس وصول کرنے سے معذرت کرلی۔ ایکسپریس نیوز کے مطابق کراچی کی انسداد دہشت گردی کی عدالت میں نقیب اللہ قتل کیس کی سماعت ہوئی، جیل حکام نے سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار سمیت دیگر ملزمان کو عدالت کے روبرو پیش کردیا۔ مقدمے کی سماعت بند کمرے میں ہوئی۔ تفتیشی افسرنے سی سی ٹی وی فوٹیج پر مشتمل سی ڈی اور دیگر شواہد عدالت کے روبرو پیش کردیئے تاہم مقدمے کے وکیل استغاثہ علی رضا ایڈووکیٹ پیش نہ ہوئے ان کی جگہ دیگر سرکاری وکلا پیش ہوئے۔ سماعت کے دوران صورت حال اس وقت پیچیدہ ہوگئی جب کہ سرکاری وکلا نے عدالتی نوٹس وصول کرنے سے انکار کردیا، جس پر فاضل جج نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ حیرت ہے سرکاری وکلا نوٹس بھی وصول نہیں کررہے، میں نے پہلے ہی ہائی کورٹ کو لکھا تھا کہ کیس بھیج رہے ہیں توعملہ اور سرکاری وکیل بھی بھیجیں۔ عدالت نے پیش کردہ سی ڈی کی کاپیاں پیش کرنے کا حکم دے دیا۔ کیس کی مزید سماعت 28 مئی کو ہوگی۔ مقدمے کے وکیل استغاثہ علی رضا عدالت میں پیش نہیں ہوئے، ان کی عدم موجودگی کے باعث دیگر سرکاری وکلا پیش ہوئے۔ سرکاری وکلا نے نام خفیہ رکھنے کی شرط پر میڈیا کو بتایا کہ علی رضا کا کہنا ہے کہ وہ راؤ انوار کے مقدمےمیں پیش نہیں ہوسکتا، اسے دھمکیاں مل رہی ہیں۔

چل یی ټول ما او تاته دی ـ دوی خپلو کی خه جوړ دی ـ ISLAMABAD: In an incident that reads like the script of a Bollywood spy thriller, Usman Durrani, son of former ISI chief retired Lt. General Asad Durrani who was arrested in Mumbai in May 2015 was rescued and sent safely back home by the Indian intelligence RAW. The episode has been revealed in recently published book “The Spy Chronicles” jointly authored by General Asad Durrani and former chief of Indian Raw A S Dulat. It stated that in May 2015, former director general of Pakistan’s Inter-Services Intelligence (ISI) General Asad Durrani’s son Osman Durrani came to Kochi for work on behalf of a German company. Osman should have exited the country from the city that he entered from. But his office booked him from a flight back via Mumbai. He was stopped by authorities in Mumbai and what followed were 24 hours of backchannel networking to get him out of India despite the visa violation. Durrani and former secretary of India’s external spy agency Research &Analysis Wing (RAW) A S Dulat discuss this in the upcoming book- The Spy Chronicles: RAW, ISI and the Illusion of Peace - by the two spymasters and journalist Aditya Sinha. “We were in a panic because we did not know what would happen. But even those people (Mumbai special branch) did not say to him, ‘you don’t have a visa for Bombay, what are you doing, pakro, andar karo (arrest him and consign him behind bar.)’ That could have happened, but it didn’t. All this while my wife and I had another concern-what if someone reported that Osman, the son of a former ISI chief, was roaming around Mumbai, which hadn’t forgotten 26/11,’’ recalls Durrani. When Durrani heard that Osman had been detained, he called Dulat for help. Dulat called several people including then RAW chief Rajinder Khanna. The wheels of the Indian intelligence establishment began to turn even as Osman was stonewalled. Things however worked out, and Osman was able to fly back to Germany after a day from Mumbai. Dulat recalls the most touching part of the incident was that when he called Khanna to thank him for his help, the RAW chief said in reference to Durrani, “It’s our duty,’ he said, ‘after all, he’s a colleague.” General Asad Durrani while talking briefly with The News Sunday evening confirmed the episode about his son and said that he is co-author of the book that will shortly be available in Pakistan. The book has also discussed so-called surgical strike of the Indian Army in Azad Kashmir, arrest of Kalbhsh Jadev, Nawaz Sharif, Hafiz Muhammad Saeed, Kashmir, Muzaffar Burhan Wani Shaheed and Akhand Bharat. Former Indian RAW chief AS Dulat has reminded Indian leadership to address the Kashmir first of all. The book has also indicated possibility of resumption of talks between Pakistan and India in the wake of the polls in Pakistan. Interestingly after months of tough posturing, Pakistan and India renewed Track II diplomacy when an Indian delegation held talks with a Pakistani team in Islamabad on April 28-30. While officially insisting that such informal talks did not signify any watering down of India’s position that terror and talks can’t go together, a senior bureaucrat privately admitted that such a dialogue would not be possible “without the blessings, or at least a wink or a nod, from the government”. The revival of the so-called Neemrana Dialogue, named after the fort in Rajasthan where it was first held in October 1991, was shrugged off by the Indian side, with Ministry of External Affairs spokesperson Raveesh Kumar saying that “...functional exchanges between the two sides have continued and is actually a part of normal process between the two countries. So there is nothing new which we see in this dialogue”. A former Pakistani politician and MNA, who requested anonymity given the “sensitivity” of the subject, said the talks were “probably part of an exploratory probe by Hindustan to see whether a formal dialogue can be resumed, probably after the elections in Pakistan in July. But much depends on what happens between now and then, and the reports that each side submits to their respective governments after the meeting last month. The ceasefire offered by the Indian side in Kashmir for Ramzan should be seen in that context.” While both sides remained tightlipped about the composition of their delegations for this meeting in Islamabad, media reports said the Indian delegation was led by former diplomat Vivek Katju while the Pakistani side was headed by former foreign minister Inam-ul-Haq. Professor Rakesh Dutta of Department of Defence and National Security Studies, Panjab University, who was part of the delegation, however, said the nine-member Indian side was led by former Cabinet Secretary Surinder Singh and comprised, apart from him, Katju, Rakesh Sood, Lt-Gen (retd) Aditya Singh, Women Political Watch President Veena Nayar, former NCERT director Jagmohan Rajput, Director of the Energy and Research Institute Vibha Dhawan and coordinator Suresh Mathur. The Pakistani side, led by former foreign minister Inamul Haq, included former high commissioner to India and foreign secretary Salman Bashir, Lt-Gen Asif Yasin Malik, former law minister Barrister Shahida Jamil, National Defence University Dean Perviaz Iqbal Cheema, former I&B Minister Javed Jabbar, former State Bank of Pakistan governor Ishrat Hussain, Islamabad Policy Research Institute Fellow Muhammad Munir and a few others. An Indian diplomat who has served in Pakistan expressed “deep skepticism” over the possibility of formal talks resuming anytime soon. “You see, as long as Pakistan keeps harping on Kashmir and we keep stressing on terrorism, there is really no common ground. So what’s there to really talk about?” Dulat reminded that the track II talks restarted in 2016 and the same took place in Istanbul, Kathmandu and Bangkok. He observed that IPL was underway for last seven years. Some cricketers like Shahid Afridi could amuse the Indian spectators although he is retired but cricket fan in India would like to see him in action who can provide good entrainment. Dulat revealed that “they” don’t want that any Pakistani should earn some money. General Durrani is of the view that Pakistan and India should initiate back channel dialogue. A person who is acceptable to major political parties, Foreign Office and Army should head such talks. He reminded that such a team was appointed to sort out differences between Eastern Communist Europe and Western Europe. Published in the daily The News of May 21, 2018.

Sunday, 20 May 2018

قوت برداشت۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ صدر ایوب خان پاکستان کے پہلے ملٹری ڈکٹیٹر تھے‘ وہ روزانہ سگریٹ کے دو بڑے پیکٹ پیتے تھے‘ روز صبح ان کا بٹلر سگریٹ کے دو پیکٹ ٹرے میں رکھ کر ان کے بیڈ روم میں آجاتاتھا اورصدر ایوب سگریٹ سلگا کر اپنی صبح کا آغاز کرتے تھے‘ وہ ایک دن مشرقی پاکستان کے دورے پر تھے‘ وہاں ان کا بنگالی بٹلرانہیں سگریٹ دینا بھول گیا‘ جنرل ایوب خان کو شدید غصہ آیا اورانہوں نے بٹلر کو گالیاں دینا شروع کر دیں۔ جب ایوب خان گالیاں دے دے کر تھک گئے تو بٹلر نے انہیں مخاطب کر کے کہا ’’جس کمانڈر میں اتنی برداشت نہ ہو وہ فوج کو کیا چلائے گا‘ مجھے پاکستانی فوج اور اس ملک کا مستقبل خراب دکھائی دے رہا ہے‘‘۔ بٹلر کی بات ایوب خان کے دل پر لگی ‘ انہوں نے اسی وقت سگریٹ ترک کر دیا اور پھر باقی زندگی سگریٹ کو ہاتھ نہ لگایا۔ قوت برداشت میں چین کے بانی چیئرمین ماؤزے تنگ اپنے دور کے تمام لیڈرز سے آگے تھے‘ وہ75سال کی عمر میں سردیوں کی رات میں دریائے شنگھائی میں سوئمنگ کرتے تھے اوراس وقت پانی کا درجہ حرارت منفی دس ہوتا تھا۔ ماؤ انگریزی زبان کے ماہر تھے لیکن انہوں نے پوری زندگی انگریزی کا ایک لفظ نہیں بولا۔آپ ان کی قوت برداشت کا اندازا لگائیے کہ انہیں انگریزی میں لطیفہ سنایا جاتا تھا‘ وہ لطیفہ سمجھ جاتے تھے لیکن خاموش رہتے تھے لیکن بعدازاں جب مترجم اس لطیفے کا ترجمہ کرتا تھا تو وہ دل کھول کر ہنستے تھے۔ قوت برداشت کا ایک واقعہ ہندوستان کے پہلے مغل بادشاہ ظہیر الدین بابر بھی سنایا کرتے تھے۔ وہ کہتے تھے انہوں نے زندگی میں صرف ڈھائی کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ ان کی پہلی کامیابی ایک اژدھے کے ساتھ لڑائی تھی‘ ایک جنگل میں بیس فٹ کے ایک اژدھے نے انہیں جکڑ لیا اور بابر کو اپنی جان بچانے کیلئے اس کے ساتھ بارہ گھنٹے اکیلے لڑنا پڑا۔ ان کی دوسری کامیابی خارش تھی۔ انہیں ایک بارخارش کا مرض لاحق ہو گیا‘خارش اس قدر شدید تھی کہ وہ جسم پر کوئی کپڑا نہیں پہن سکتے تھے۔ بابر کی اس بیماری کی خبر پھیلی تو ان کا دشمن شبانی خان ان کی عیادت کیلئے آ گیا۔ یہ بابر کیلئے ڈوب مرنے کا مقام تھا کہ وہ بیماری کے حالت میں اپنے دشمن کے سامنے جائے۔ بابر نے فوراً پورا شاہی لباس پہنا اور بن ٹھن کر شبانی خان کے سامنے بیٹھ گیا‘ وہ آدھا دن شبانی خان کے سامنے بیٹھے رہے‘ پورے جسم پر شدید خارش ہوئی لیکن بابر نے خارش نہیں کی۔ بابران دونوں واقعات کو اپنی دو بڑی کامیابیاں قرار دیتا تھا اورآدھی دنیا کی فتح کو اپنی آدھی کامیابی کہتا تھا۔ دنیا میں لیڈرز ہوں‘ سیاستدان ہوں‘ حکمران ہوں‘ چیف ایگزیکٹو ہوں یا عام انسان ہو‘ان کا اصل حسن ان کی قوت برداشت ہوتی ہے۔ دنیا میں کوئی شارٹ ٹمپرڈ‘ کوئی غصیلہ اور کوئی جلد باز شخص ترقی نہیں کر سکتا۔ دنیا میں معاشرے‘ قومیں اور ملک بھی صرف وہی آگے بڑھتے ہیں جن میں قوت برداشت ہوتی ہے۔ جن میں دوسرے انسان کی رائے‘ خیال اور اختلاف کو برداشت کیا جاتا ہے لیکن بدقسمتی سے ہمارے ملک‘ ہمارے معاشرے میں قوت برداشت میں کمی آتی جا رہی ہے۔ ہم میں سے ہر شخص ہروقت کسی نہ کسی شخص سے لڑنے کیلئے تیار بیٹھا ہے۔ شائد قوت برداشت کی یہ کمی ہے جس کی وجہ سے پاکستان میں دنیا میں سب سے زیادہ قتل اور سب سے زیادہ حادثے ہوتے ہیں لیکن یہاں پر سوال پیدا ہوتا ہے کیا ہم اپنے اندر برداشت پیدا کر سکتے ہیں؟ اس کا جواب ہاں ہے اور اس کا حل رسول اللہ ﷺکی حیات طیبہ میں ہے۔ ایک بار ایک صحابیؓ نے رسول اللہ سے عرض کیا ’’یارسول اللہ ﷺ!آپ مجھے زندگی کو پر سکون اور خوبصورت بنانے کاکوئی ایک طریقہ بتا دیجئے‘‘ آپﷺ نے فرمایا ’’غصہ نہ کیا کرو‘‘ آپﷺ نے فرمایا ’’دنیا میں تین قسم کے لوگ ہوتے ہیں۔ اول وہ لوگ جو جلدی غصے میں آجاتے ہیں اور جلد اصل حالت میں واپس آ جاتے ہیں۔ دوم وہ لوگ جو دیر سے غصے میں آتے ہیں اور جلد اصل حالت میں واپس آ جاتے ہیں اور سوم وہ لوگ جو دیر سے غصے میں آتے ہیں اور دیر سے اصل حالت میں لوٹتے ہیں‘‘ آپﷺ نے فرمایا ’’ ان میں سے بہترین دوسری قسم کے لوگ ہیں جبکہ بدترین تیسری قسم کے انسان‘‘۔ غصہ دنیا کے90فیصد مسائل کی ماں ہے اور اگر انسان صرف غصے پر قابو پا لے تواس کی زندگی کے 90فیصد مسائل حل ہوجاتے ہیں..... اللہ ھم سب کو قوت برداشت نصیب کرے۔امین

Saturday, 19 May 2018

Pakistan are wary about Mohammad Amir’s fitness issues after the left-arm pacer went off injured in the only Test against Ireland in Dublin. The selection committee is not keen to risk the fast-bowler in case he is not fully fit and is consequently pondering over options to replace him if required. Pakistan fret over Mohammad Amir injury According to Express.pk, Wahab Riaz, Waqas Maqsood and Mir Hamza are amongst the top contenders to replace Mohammad Amir. Riaz, who recently underwent a nose surgery, has resumed training at the National Academy as he looks to regain full form and fitness. The left-arm pacer also has a contract with Derbyshire County for the upcoming T20 Blast, where he will play the first ten matches of the season. Pakistan beat Ireland by five wickets in one-off Test Maqsood and Hamza, who both have accumulated over 200 wickets in first-class cricket, are also in the reckoning for a place in the side. Maqsood was also the highest wicket-taker in the recently concluded Pakistan Cup, where he bagged 14 wickets representing Federal Areas. The two-Test series between Pakistan and England is scheduled

https://www.facebook.com/MaqboolVideos/posts/1590965614359133

حقیقت بادشاہ کا موڈ اچھا تھا‘ وہ نوجوان وزیر کی طرف مڑا اور مسکرا کر پوچھا ”تمہاری زندگی کی سب سے بڑی خواہش کیا ہے“ وزیر شرما گیا‘ اس نے منہ نیچے کر لیا‘ بادشاہ نے قہقہہ لگایا اور بولا ”تم گھبراﺅ مت‘ بس اپنی زندگی کی سب سے بڑی خواہش بتاﺅ“ وزیر گھٹنوں پر جھکا اور عاجزی سے بولا ”حضور آپ دنیا کی خوبصورت ترین سلطنت کے مالک ہیں‘ میں جب بھی یہ سلطنت دیکھتا ہوں تو میرے دل میں خواہش پیدا ہوتی ہے اگر اس کا دسواں حصہ میرا ہوتا تو میں دنیا کا خوش نصیب ترین شخص ہوتا“ وزیر خاموش ہو گیا‘ بادشاہ نے قہقہہ لگایا اور بولا ”میں اگر تمہیں اپنی آدھی سلطنت دے دوں تو؟“ وزیر نے گھبرا کر اوپر دیکھا اور عاجزی سے بولا ”بادشاہ سلامت یہ کیسے ممکن ہے‘ میں اتنا خوش قسمت کیسے ہو سکتا ہوں“ بادشاہ نے فوراً سیکرٹری کو بلایا اور اسے دو احکامات لکھنے کا حکم دیا‘ بادشاہ نے پہلے حکم کے ذریعے اپنی آدھی سلطنت نوجوان وزیر کے حوالے کرنے کا فرمان جاری کر دیا‘ دوسرے حکم میں بادشاہ نے وزیر کا سر قلم کرنے کا آرڈر دے دیا‘ وزیر دونوں احکامات پر حیران رہ گیا‘ بادشاہ نے احکامات پر مہر لگائی اور وزیر کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولا ”تمہارے پاس تیس دن ہیں‘ تم نے ان 30 دنوں میں صرف تین سوالوں کے جواب تلاش کرنا ہیں‘ تم کامیاب ہو گئے تو میرا دوسرا حکم منسوخ ہو جائے گا اور تمہیں آدھی سلطنت مل جائے گی اور اگر تم ناکام ہو گئے تو پہلا حکم خارج سمجھا جائے گا اور دوسرے حکم کے مطابق تمہارا سر اتار دیا جائے گا“ وزیر کی حیرت پریشانی میں بدل گئی‘ بادشاہ نے اس کے بعد فرمایا ”میرے تین سوال لکھ لو“ وزیر نے لکھنا شروع کر دیا‘ بادشاہ نے کہا ”انسان کی زندگی کی سب سے بڑی سچائی کیا ہے؟“ وہ رکا اور بولا ”دوسرا سوال‘ انسان کی زندگی کا سب سے بڑا دھوکا کیا ہے“ وہ رکا اور پھر بولا ”تیسرا سوال‘ انسان کی زندگی کی سب سے بڑی کمزوری کیا ہے“ بادشاہ نے اس کے بعد نقارے پر چوٹ لگوائی اور بآواز بلند فرمایا ”تمہارا وقت شروع ہوتا ہے اب“۔ وزیر نے دونوں پروانے اٹھائے اور دربار سے دوڑ لگا دی‘اس نے اس شام ملک بھر کے دانشور‘ ادیب‘ مفکر اور ذہین لوگ جمع کئے اور سوال ان کے سامنے رکھ دیئے‘ ملک بھر کے دانشور ساری رات بحث کرتے رہے لیکن وہ پہلے سوال پر ہی کوئی کانسینسس ڈویلپ نہ کر سکے‘ وزیر نے دوسرے دن دانشور بڑھا دیئے لیکن نتیجہ وہی نکلا‘ وہ آنے والے دنوں میں لوگ بڑھاتا رہا مگر اسے کوئی تسلی بخش جواب نہ مل سکا یہاں تک کہ وہ مایوس ہو کر دارالحکومت سے باہر نکل گیا‘ وہ سوال اٹھا کر پورے ملک میں پھرا مگر اسے کوئی تسلی بخش جواب نہ مل سکا‘ وہ مارا مارا پھرتا رہا‘ شہر شہر‘ گاﺅں گاﺅں کی خاک چھانتا رہا‘ شاہی لباس پھٹ گیا‘ پگڑی ڈھیلی ہو کر گردن میں لٹک گئی‘ جوتے پھٹ گئے اور پاﺅں میں چھالے پڑ گئے‘ یہاں تک کہ شرط کا آخری دن آ گیا‘ اگلے دن اس نے دربار میں پیش ہونا تھا‘ وزیر کو یقین تھا یہ اس کی زندگی کا آخری دن ہے‘ کل اس کی گردن کاٹ دی جائے گی اور جسم شہر کے مرکزی پُل پر لٹکا دیا جائے گا‘ وہ مایوسی کے عالم میں دارالحکومت کی کچی آبادی میں پہنچ گیا‘ آبادی کے سرے پر ایک فقیر کی جھونپڑی تھی‘ وہ گرتا پڑتا اس کٹیا تک پہنچ گیا‘ فقیر سوکھی روٹی پانی میں ڈبو کر کھا رہا تھا‘ ساتھ ہی دودھ کا پیالہ پڑا تھا اور فقیر کا کتا شڑاپ شڑاپ کی آوازوں کے ساتھ دودھ پی رہا تھا‘ فقیر نے وزیر کی حالت دیکھی‘ قہقہہ لگایا اور بولا ”جناب عالی! آپ صحیح جگہ پہنچے ہیں‘ آپ کے تینوں سوالوں کے جواب میرے پاس ہیں“ وزیر نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا اور پوچھا ”آپ نے کیسے اندازہ لگا لیا‘ میں کون ہوں اور میرا مسئلہ کیا ہے“ فقیر نے سوکھی روٹی کے ٹکڑے چھابے میں رکھے‘ مسکرایا‘ اپنا بوریا اٹھایا اور وزیر سے کہا ”یہ دیکھئے‘ آپ کو بات سمجھ آ جائے گی“ وزیر نے جھک کر دیکھا‘ بوریئے کے نیچے شاہی خلعت بچھی تھی‘ یہ وہ لباس تھا جو بادشاہ اپنے قریب ترین وزراءکو عنایت کرتا تھا‘ فقیر نے کہا ”جناب عالی میں بھی اس سلطنت کا وزیر ہوتا تھا‘ میں نے بھی ایک بار آپ کی طرح بادشاہ سے شرط لگانے کی غلطی کر لی تھی‘نتیجہ آپ خود دیکھ لیجئے“ فقیر نے اس کے بعد سوکھی روٹی کا ٹکڑا اٹھایا اور دوبارہ پانی میں ڈبو کر کھانے لگا‘ وزیر نے دکھی دل سے پوچھا ”کیا آپ بھی جواب تلاش نہیں کر سکے تھے“ فقیر نے قہقہہ لگایا اور جواب دیا ”میرا کیس آپ سے مختلف تھا‘ میں نے جواب ڈھونڈ لئے تھے‘ میں نے بادشاہ کو جواب بتائے‘ آدھی سلطنت کا پروانہ پھاڑا‘ بادشاہ کو سلام کیا اور اس کٹیا میں آ کر بیٹھ گیا‘ میں اور میرا کتا دونوں مطمئن زندگی گزار رہے ہیں“ وزیر کی حیرت بڑھ گئی لیکن یہ سابق وزیر کی حماقت کے تجزیئے کا وقت نہیں تھا‘ جواب معلوم کرنے کی گھڑی تھی چنانچہ وزیر اینکر پرسن بننے کی بجائے فریادی بن گیا اور اس نے فقیر سے پوچھا ”کیا آپ مجھے سوالوں کے جواب دے سکتے ہیں“ فقیر نے ہاں میں گردن ہلا کر جواب دیا ”میں پہلے دو سوالوں کا جواب مفت دوں گا لیکن تیسرے جواب کےلئے تمہیں قیمت ادا کرنا ہو گی“ وزیر کے پاس شرط ماننے کے سوا کوئی آپشن نہیں تھا‘ اس نے فوراً ہاں میں گردن ہلا دی‘فقیر بولا ”دنیا کی سب سے بڑی سچائی موت ہے‘ انسان کوئی بھی ہو‘ کچھ بھی ہو‘ وہ اس سچائی سے نہیں بچ سکتا“ وہ رکا اور بولا ”انسان کی زندگی کا سب سے بڑا دھوکا زندگی ہے‘ ہم میں سے ہر شخص زندگی کو دائمی سمجھ کر اس کے دھوکے میں آ جاتا ہے“ فقیر کے دونوں جواب ناقابل تردید تھے‘ وزیر سرشار ہو گیا‘ اس نے اب تیسرے جواب کےلئے فقیر سے شرط پوچھی‘ فقیر نے قہقہہ لگایا‘ کتے کے سامنے سے دودھ کا پیالہ اٹھایا‘ وزیر کے ہاتھ میں دیا اور کہا ”میں آپ کو تیسرے سوال کا جواب اس وقت تک نہیں دوں گا جب تک آپ یہ دودھ نہیں پیتے“ وزیر کے ماتھے پر پسینہ آ گیا ‘اس نے نفرت سے پیالہ زمین پر رکھ دیا‘ وہ کسی قیمت پر کتے کا جوٹھا دودھ نہیں پینا چاہتا تھا‘ فقیر نے کندھے اچکائے اور کہا ”اوکے تمہارے پاس اب دو راستے ہیں‘ تم انکار کر دو اور شاہی جلاد کل تمہارا سر اتار دے یا پھر تم یہ آدھ پاﺅ دودھ پی جاﺅ اور تمہاری جان بھی بچ جائے اور تم آدھی سلطنت کے مالک بھی بن جاﺅ‘ فیصلہ بہرحال تم نے کرنا ہے“ وزیر مخمصے میں پھنس گیا‘ ایک طرف زندگی اور آدھی سلطنت تھی اور دوسری طرف کتے کا جوٹھا دودھ تھا‘ وہ سوچتا رہا‘ سوچتا رہا یہاں تک کہ جان اور مال جیت گیا اور سیلف ریسپیکٹ ہار گئی‘ وزیر نے پیالہ اٹھایا اور ایک ہی سانس میں دودھ پی گیا‘ فقیر نے قہقہہ لگایا اور بولا ”میرے بچے‘ انسان کی سب سے بڑی کمزوری غرض ہوتی ہے‘ یہ اسے کتے کا جوٹھا دودھ تک پینے پر مجبور کر دیتی ہے اور یہ وہ سچ ہے جس نے مجھے سلطنت کا پروانہ پھاڑ کر اس کٹیا میں بیٹھنے پر مجبور کر دیا تھا‘ میں جان گیا تھا‘ میں جوں جوں زندگی کے دھوکے میں آﺅں گا‘میں موت کی سچائی کو فراموش کرتا جاﺅں گا اور میں موت کو جتنا فراموش کرتا رہوں گا‘ میں اتنا ہی غرض کی دلدل میں دھنستا جاﺅں گا اور مجھے روز اس دلدل میں سانس لینے کےلئے غرض کا غلیظ دودھ پینا پڑے گا لہٰذا میرا مشورہ ہے‘ زندگی کی ان تینوں حقیقتوں کو جان لو‘ تمہاری زندگی اچھی گزرے گی“ وزیر خجالت‘ شرمندگی اور خودترسی کا تحفہ لے کر فقیر کی کٹیا سے نکلا اور محل کی طرف چل پڑا‘ وہ جوں جوں محل کے قریب پہنچ رہا تھا اس کے احساس شرمندگی میں اضافہ ہو رہا تھا‘ اس کے اندر ذلت کا احساس بڑھ رہا تھا‘ وہ اس احساس کے ساتھ محل کے دروازے پر پہنچا‘ اس کے سینے میں خوفناک ٹیس اٹھی‘ وہ گھوڑے سے گرا‘ لمبی ہچکی لی اور اس کی روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی۔ہمیں کسی دن کسی ٹھنڈی جگہ پر بیٹھ کر زندگی کے ان بنیادی سوالوں پر ضرور غور کرناچاہیے‘ ہمیں یہ سوچنا چاہیے ہم لوگ کہیں زندگی کے دھوکے میں آ کر غرض کے پیچھے تو نہیں بھاگ رہے‘ ہم لوگ کہیں موت کو فراموش تو نہیں کر بیٹھے‘ ہم کہیں اس کہانی کے وزیر تو نہیں بن گئے ‘ مجھے یقین ہے ہم لوگوں نے جس دن یہ سوچ لیا اس دن ہم غرض کے ان غلیظ پیالوں سے بالاتر ہو جائیں گے۔

Friday, 18 May 2018

Acting Foreign Secretary summoned Indian High Commissioner and condemned the unprovoked ceasefire violations by the Indian occupation forces along the Line of Control and the Working Boundary today. The firing, which continues in Pukhlian, Cahprar, Harpal, Charwah and Shakargarh Sectors, led to martyrdom of four innocent members of the family of Noor Hussain in village Khanoor besides injuries to ten other. http://www.radio.gov.pk/18-05-2018/pakistan-condemns-indian-unprovoked-cvfs-along-loc-working-boundary

- ‏ایف سی دفترکوئٹہ میں خودکش حملہ آورکوروکنےوالاموٹروےپولیس کااہلکارشہید - ‏اسسٹنٹ پٹرول افسرمحمدادریس ایف سی آفس کےمین گیٹ پرڈیوٹی پرموجود تھا - ‏خودکش حملہ آورکی گاڑی کومحمدادریس نےچیکنگ کیلئےروکاتو بمبارنےاپنےآپ کواڑادیاتھا ‎ - ‏حملے میں شہید محمد ادریس کی دو چھوٹی بیٹیاں ہیں ‎ - ‏محمدادریس2010میں بطورجونیئر پٹرول آفیسرموٹروے پولیس میں بھرتی ہوئے تھے۔

میں نے پوچھا، اعظمی چاچا! کل میرے گھر میں افطاری ہے، قریباً پچاس احباب ہونگے، مجھے پکوڑے چاہئیں، آپ کو اڈوانس کتنے پیسے دے جاوں؟ چاچا جی نے میری طرف دیکھا اور سوالیہ نظروں سے مسکرائے ۔ "کتنے پیسے دے سکتے ہو" مجھے ایسے لگا، جیسے چاچا جی نے میری توہین کی ہے، مجھے ایک عرصے سے جانتے ہوئے بھی یہ سوال بے محل اور تضحیک تھی، میں نے اصل قیمت سے زیادہ پیسے نکالے اور چاچا جی کے سامنے رکھ دئیے، چاچا جی نے پیسے اٹھائے اور مجھے دیتے ہوئے بولے، وہ سامنے سڑک کے اس پار اس بوڑھی عورت کو دے دو، کل آ کر اپنے سموسے پکوڑے لے جانا، میری پریشانی تم نے حل کر دی، افطاری کا وقت قریب تھا اور میرے پاس اتنے پیسے جمع نہیں ہو رہے تھے کہ اسے دے سکتا ، اب بیچاری چند دن سحری اور افطاری کی فکر سے آزاد ہو جائے گی۔ میرے جسم میں ٹھنڈی سی لہر دوڑ گئی۔ وہ کون ہے آپکی ؟؟ میرے منہ سے بے اختیار سوال نکلا ۔ چاچا جی تپ گئے، وہ میری ماں ہے ، بیٹی ہے اور بہن ہے ۔ تم پیسے والے کیا جانو، رشتے کیا ہوتے ہیں، جنہیں انسانیت کی پہچان نہیں رہی انہیں رشتوں کا بھرم کیسے ہو گا؟ پچھلے تین گھنٹے سے کھڑی ہے، نہ مانگ رہی ہے اور نہ کوئی دے رہا ہے۔ تم لوگ بھوکا رہنے کو روزہ سمجھتے ہو اور پیٹ بھرے رشتےداروں کو افطار کرا کے سمجھتے ہو ثواب کما لیا۔ "اگر روزہ رکھ کے بھی احساس نہیں جاگا تو یہ روزہ نہیں، صرف بھوک ہے بھوک" میں بوجھل قدموں سے اس بڑھیا کی طرف جا رہا تھا اور سوچ رہا تھا، اپنے ایمان کا وزن کر رہا تھا، یہ میرے ہاتھ میں پیسے میرے نہیں تھے غریب پکوڑے والے کے تھے، میرے پیسے تو رشتوں کو استوار کر رہے تھے۔ چاچا جی کے پیسے اللہ کی رضا کو حاصل کرنے جا رہے تھے۔ میں سوچ رہا تھا کہ اس بڑھیا میں ماں، بہن اور بیٹی مجھے کیوں دکھائی نہیں دی؟ اے کاش میں بھی چاچا جی کی آنکھ سے دیکھتا. اے کاش تمام صاحبان حیثیت بھی اسی آنکھ کے مالک ہوتے، اسی #کاش، کے ساتھ بیشمار تمنائیں میرا پیچھا کر رہی تھیں

*یہ تحریر نہ پڑھی تو سمجھو کچھ بھی نہ پڑھا* ایک بار جب جبرائیل علیہ سلام نبی کریم کے پاس آے تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ جبرایل کچھ پریشان ہے آپ نے فرمایا جبرائیل کیا معاملہ ہے کہ آج میں آپکو غمزدہ دیکھ رہا ہو ں *جبرائیل نے عرض کی اے محبوب کل جہاں آج میں اللہ پاک کے حکم سے جہنم کا نظارہ کرکہ آیا ہوں اسکو دیکھنے سے مجھ پہ غم کے آثار نمودار ہوے ہیں* نبی کریم نے فرمایا جبرائیل مجھے بھی جہنم کے حالات بتاو *جبرائیل نے عرض کی جہنم کے کل سات درجے ہیں* *ان میں جو سب سے نیچے والا درجہ ہے اللہ اس میں منافقوں کو رکھے گا* *اس سے اوپر والے چھٹے درجے میں اللہ تعالی مشرک لوگوں کو ڈالیں گے* *اس سے اوپر پانچویں درجے میں اللہ سورج اور چاند کی پرستش کرنے والوں کو ڈالیں گے* *چوتھے درجے میں اللہ پاک آتش پرست لوگوں کو ڈالیں گے* *تیسرے درجے میں اللہ پاک یہود کو ڈالیں گے* *دوسرے درجے میں اللہ تعالی عسائیوں کو ڈالیں گے* یہ کہہ کر جبرائیل علیہ سلام خاموش ہوگئے تو نبی کریم نے پوچھا *جبرائیل آپ خاموش کیوں ہوگئے مجھے بتاو کہ پہلے درجے میں کون ہوگا* جبرائیل علیہ سلام نے عرض کیا *اے اللہ کے رسول پہلے درجے میں اللہ پاک آپکی امت کے گنہگاروں کو ڈالیں گے* جب نبی کریم نے یہ سنا کہ میری امت کو بھی جہنم میں ڈالا جاے گا *تو آپ بے حد غمگین ہوے اور آپ نے اللہ کے حضور دعائیں کرنا شروع کیں* *تین دن ایسے گزرے کہ اللہ کے محبوب مسجد میں نماز پڑھنے کے لیے تشریف لاتے نماز پڑھ کر حجرے میں تشریف لے جاتے اور دروازہ بند کرکہ اللہ کے حضور رو رو کر فریاد کرتے* *صحابہ اکرام* حیران تھے کہ نبی کریم پہ یہ کیسی کیفیت طاری ہوئی ہے مسجد سے حجرے جاتے ہیں گھر بھی تشریف لیکر نہیں جا رہے۔ جب تیسرا دن ہوا تو *سیدنا ابو بکررضی اللہ تعالی عنہ* سے رہا نہیں گیا وہ دروازے پہ آے دستک دی اور سلام کیا لیکن سلام کا جواب نہیں آیا ۔ آپ روتے ہوے *سیدنا عمررضی اللہ تعالی عنہ* کے پاس آے اور فرمایا کہ میں نے سلام کیا لیکن سلام کا جواب نہ پایا لہذا آپ جائیں آپ کو ہوسکتا ہے سلام کا جواب مل جاے آپ گئے تو *آپ نے تین بار سلام کیا لیکن جواب نہ آیا* *حضرت عمر* نے *سلمان فارسی رضی اللہ تعالی عنہ* کو بھیجا لیکن پھر بھی سلام کا جواب نہ آیا حضرت سلمان فارسی نے واقعے کا تذکرہ *علی رضی اللہ تعالی* سے کیا انہوں نے سوچا کہ جب اتنی عظیم شحصیات کو سلام کا جواب نہ ملا تو مجھے بھی خود نھی جانا چاھیئے بلکہ *مجھے انکی نور نظر بیٹی فاطمہ اندر بھیجنی چاھیئے*۔ لہذا آپ نے فاطمہ رضی اللہ تعالی کو سب احوال بتا دیا آپ حجرے کے دروازے پہ آئیں *ابا جان اسلام وعلیکم* *بیٹی کی آواز سن کر محبوب کائینات اٹھے دروازہ کھولا اور سلام کا جواب دیا* ابا جان آپ پر کیا کیفیت ھے کہ تین دن سے آپ یہاں تشریف فرما ہے نبی کریم نے فرمایا کہ جبرائیل نے مجھے آگاہ کیا ہے کہ *میری امت بھی جہنم میں جائے گی فاطمہ بیٹی مجھے اپنے امت کے گنہگاروں کا غم کھائے جا رہا ہے اور میں اپنے مالک سے دعائیں کررہا ہوں کہ اللہ انکو معا ف کر اور جہنم سے بری کر یہ کہہ کر آپ پھر سجدے میں چلے گئے اور رونا شروع کیا یا اللہ میری امت یا اللہ میری امت کے گنہگاروں پہ رحم کر انکو جہنم سے آزاد کر* کہ اتنے میں حکم آگیا *وَلَسَوْفَ يُعْطِيكَ رَبُّكَ فَتَرْضَى* اے میرے محبوب غم نہ کر میں تم کو اتنا عطا کردوں گا کہ آپ راضی ہوجاو گے *آپ خوشی سے کھل اٹھے اور فرمایا لوگو۔۔ اللہ نے مجھ سے وعدہ کرلیا ہے کہ وہ روز قیامت مجھے میری امت کے معاملے میں خوب راضی کرے گا اور میں نے اس وقت تک راضی نہیں ہونا جب تک میرا آخری امتی بھی جنت میں نہ چلا جاے* لکھتے ہوے آنکھوں سے آنسو آگئے کہ *ہمارا نبی اتنا شفیق اور غم محسوس کرنے والا ہے اور بدلے میں ہم نے انکو کیا دیا؟* آپکا ایک سیکنڈ اس تحریر کو دوسرے لوگوں تک پہنچانے کا زریعہ ہے میری آپ سے عاجزانہ اپیل ہے کہ لاحاصل اور بے مقصد پوسٹس ہم سب شیئر کرتے ہیں . *آج اپنے نبی کی رحمت کا یہ پہلو کیوں نہ شیئر کریں.*

Friday, 11 May 2018

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک بادشاہ تھا، بادشاہ جو بھی بات کرتا تو وزیر کہتا اسی میں کوی بہتری ھو گی۔ایک دفعہ بادشاہ کی انگلی کٹ گئی تو وزیر نے کہا اس میں اللہ کی ضرور کوی بہتری ھوگی بادشاہ کو بہت غصہ آیا کہ میری انگلی کٹ گئی ھے اور تم کہہ رھے ھو کہ اس میں بھی اللہ کی کوی بہتری ھوگی۔ بادشاہ نے وزیر کو جیل میں ڈال دیا تو پھر بھی وزیر نے کہا کہ اس میں بھی اللہ کی کوی بہتری ھوگی بادشاہ کو غصہ آیا۔بحرحال بادشاہ شکار کے لئیے گیا جنگل میں ایسی جگہ چلا گیا جہاں پر ایسے لوگ رھتے تھے کہ وہ لوگ سال میں ایک آدمی کو زبح کرتے تھے انہوں نے باشاہ کو پکڑلیا جب اس کو زبح کرنے لگے تو انہوں نے دیکھا بادشاہ کی انگلی کٹی ھوی ھے انہوں نے بادشاہ کو چھوڑ دیا کہ ھم ایسے شخص کو زبح نہیں کرتے جس کے جسم سے کوی بھی چیز کٹی ھو یا خراب ھو انہوں نے بادشاہ کو چھوڑ دیا۔بادشاہ واپس آتا ھے وزیر سے بہت خوش ھوتا ھے اس کو بلاتا ھے اور کہتا ھے واقعی اللہ کے ھرکام اللہ کی کوی بہتری ھوتی ھے میری انگلی کٹی تھی میری جان بچ گئی جب میں نے تمہیں جیل میں ڈالا اس وقت بھی تم نے یہی کہا ۔تمہارے جیل جانے میں کیا بہتری تھی؟وزیر کہتا ھے اگر میں جیل میں نہ ھوتا آپ نے مجھے شکار پر لے کر جانا تھا آپ کی انگلی کٹی تھی آپ کو انہوں نے چھوڑ دینا تھا اور آپ کی جگہ انہوں نے مجھے زبح کر دینا تھا اب سمجھ آی کہ اللہ کے ھر کام میں بہتری ھوتی ھے ….اے انسان!! تقدیر کے لکھے پر کبھی شکوہ نہ کیا کر،تو اتنا عقل مند نہیں جو “رب” کے ارادے کو سمجھ سکے !

Tuesday, 8 May 2018

حساس اداروں کی بروقت کاروائی پی ٹی ایم کے کارکن بارودی سرنگ لگاتے ہوئے رنگے ہاتھوں گرفتار۔ شائد بارودی سرنگیں لگانا بھی آئین کے عین مطابق ہے۔ دو تین دن سے منظور پشتین اور اس کے حواری پاکستان کے خلاف جنگ شروع کرنے کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔ منظور پشتین کے مطالبات کے حوالے میں نے چند دن پہلے کہا تھا کہ ایسا ممکن ہے کہ اگر پاک فوج تمام بارودی سرنگیں صاف بھی کردے تو پی ٹی ایم کے پشت پناہ نئی بارودی سرنگیں لگا کر کچھ اور پشتونوں کو مروا کر اپنی تحریک کو تازہ دم رکھیں۔ ذرا غور کریں ۔۔۔ راؤ انوار کر گرفتاری کو انہوں نے لفٹ نہیں کرائی، چیک پوسٹیں پر حسن سلوک اور شربت پلانے کا انہوں نے مذاق اڑایا، پاک فوج نے اکثر چیک پوسٹیں خالی کر دیں اور کچھ ایف سی کے حوالے کر دیں اس پر بھی یہ خوش نہیں ہوئے، حکومت نے مسنگ پرسنز کی لسٹ مانگی وہ فراہم کرنے میں ناکام رہے، پاک فوج نے مزاکرات کی دعوت اور ہم قسم کے تعاؤن کا یقین دلایا تو جواباً منظور پشتین نے جنگ کی دھمکی دے ڈالی۔ البتہ ان کے کارکن ویڈیو پیغامات کے ذریعے پاکستان کے حق میں بات کرنے والے پشتونوں کی پھر سے گردنیں کاٹنے کی دھمکیاں دے رہے ہیں، کچھ بارودی سرنگیں لگا رہے ہیں، کچھ اسرائیل زندہ باد کے نعرے لگا رہے ہیں، اور کچھ امریکہ، اقوام متحدہ اور انڈیا کو پاکستان پر حملہ کرنے کی دعوت دے رہے ہیں۔ اب نہیں سمجھو گے تو کب سمجھو گے؟؟ ان کا مقصد سوائے فتنہ و فساد اور پشتونوں پر ایک نئی جنگ مسلط کرنے کے اور کچھ نہیں؟؟ یہ خون کے پیاسے درندے ہیں جو ایک بار پھر تم لوگوں کا خون بہانا چاہتے ہیں۔ ہوش میں آؤ ۔۔۔۔۔۔ تحریر شاہدخان

Monday, 7 May 2018

ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﺴﯽ ﺟﮕﮧ ﺍﯾﮏ ﺷﺨﺺ ﺭﮨﺘﺎ ﺗﮭﺎ ﺟﺲ ﮐﮯ ﺗﯿﻦ ﺑﯿﭩﮯ ﺗﮭﮯ۔ ﺍﺱ ﺷﺨﺺ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺍﻥ ﺗﯿﻨﻮﮞ ﺑﯿﭩﻮﮞ ﮐﮯ ﻧﺎﻡ “ ﺣﺠﺮ ” ﺭﮐﮭﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺗﮭﮯ۔ ﺩﻥ ﮔﺰﺭﺗﮯ ﺭﮨﮯ ﺣﺘﯽٰ ﮐﮧ ﺍﺳﮯ ﻣﺮﺽ ﺍﻟﻤﻮﺕ ﻧﮯ ﺁﻥ ﻟﯿﺎ۔ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺗﯿﻨﻮﮞ ﺑﯿﭩﻮﮞ ﮐﻮ ﺑﻼ ﮐﺮ ﻭﺻﯿﺖ ﮐﯽ ﮐﮧ ﺣﺠﺮ ﮐﻮ ﻭﺭﺍﺛﺖ ﻣﻠﮯ ﮔﯽ، ﺣﺠﺮ ﮐﻮ ﻭﺭﺍﺛﺖ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﻠﮯ ﮔﯽ ﺍﻭﺭ ﺣﺠﺮ ﮐﻮ ﻭﺭﺍﺛﺖ ﻣﻠﮯ ﮔﯽ۔ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﮨﯽ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺭﻭﺡ ﻗﺒﺾ ﮨﻮﮔﺌﯽ۔ ﯾﮧ ﺧﻮﺩ ﺗﻮ ﻓﻮﺕ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ ﻣﮕﺮ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﯿﭩﻮﮞ ﮐﻮ ﺣﯿﺮﺕ ﻣﯿﮟ ﮈﺍﻝ ﮔﯿﺎ ﮐﮧ ﮐﯿﺴﮯ ﻓﯿﺼﻠﮧ ﮐﺮﯾﮟ ﮐﻦ ﺩﻭ ﺣﺠﺮ ﮐﻮ ﻭﺭﺍﺛﺖ ﻣﻠﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﻭﺭ ﮐﺲ ﺍﯾﮏ ﮐﻮ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﻠﮯ ﮔﯽ۔ ﺗﯿﻨﻮﮞ ﻧﮯ ﻓﯿﺼﻠﮧ ﮐﯿﺎ ﮐﮧ ﺷﮩﺮ ﺟﺎ ﮐﺮ ﻗﺎﺿﯽ ﺳﮯ ﺍﭘﻨﺎ ﻣﺴﺌﻠﮧ ﺑﯿﺎﻥ ﮐﺮﯾﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﺳﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﺣﻞ ﻣﺎﻧﮕﯿﮟ۔ ﺗﯿﻨﻮﮞ ﺍﭘﻨﮯ ﺯﺍﺩ ﺭﺍﮦ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺷﮩﺮ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﻋﺎﺯﻡ ﺳﻔﺮ ﮨﻮﺋﮯ۔ ﺭﺍﺳﺘﮯ ﻣﯿﮟ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﯾﮏ ﺍﯾﺴﮯ ﺷﺨﺺ ﮐﻮ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺟﻮ ﺍﭘﻨﯽ ﮐﺴﯽ ﮔﻢ ﺷﺪﮦ ﭼﯿﺰ ﮐﻮ ﺗﻼﺵ ﮐﺮﺗﺎ ﭘﮭﺮﺗﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﺍﻥ ﺑﮭﺎﺋﯿﻮﮞ ﮐﮯ ﭘﻮﭼﮭﻨﮯ ﭘﺮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺑﺘﺎﯾﺎ ﮐﮧ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺍﻭﻧﭩﻨﯽ ﮔﻢ ﮨﻮ ﮔﺌﯽ ﮨﮯ ﺟﺴﮯ ﻭﮦ ﺗﻼﺵ ﮐﺮﺗﺎ ﭘﮭﺮ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ۔ ﺍﯾﮏ ﺣﺠﺮ ﻧﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﮐﯿﺎ ﺗﯿﺮﯼ ﺍﻭﻧﭩﻨﯽ ﺍﯾﮏ ﺁﻧﮑﮫ ﺳﮯ ﮐﺎﻧﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﺍﺱ ﺁﺩﻣﯽ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮨﺎﮞ ﮨﺎﮞ، ﺍﯾﺴﺎ ﮨﯽ ﺗﮭﺎ۔ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﺣﺠﺮ ﻧﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﮐﯿﺎ ﺗﯿﺮﯼ ﺍﻭﻧﭩﻨﯽ ﺍﯾﮏ ﭨﺎﻧﮓ ﺳﮯ ﻟﻨﮕﮍﯼ ﺗﮭﯽ ﺗﻮ ﺍﺱ ﺁﺩﻣﯽ ﻧﮯ ﺟﻠﺪﯼ ﺳﮯ ﮐﮩﺎ، ﺑﺎﻟﮑﻞ ﺻﺤﯿﺢ، ﻣﯿﺮﯼ ﺍﻭﻧﭩﻨﯽ ﻭﺍﻗﻌﯽ ﺍﯾﮏ ﭨﺎﻧﮓ ﺳﮯ ﻟﻨﮕﮍﯼ ﺗﮭﯽ۔ ﺗﯿﺴﺮﮮ ﺣﺠﺮ ﻧﮯ ﺍﻭﻧﭩﻨﯽ ﮐﮯ ﻣﺎﻟﮏ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﮐﯿﺎ ﺗﯿﺮﯼ ﺍﻭﻧﭩﻨﯽ ﮐﯽ ﺩﻡ ﮐﭩﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﺗﮭﯽ ﺗﻮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺧﻮﺷﯽ ﺳﮯ ﮐﮩﺎ ﺑﺎﻟﮑﻞ ﭨﮭﯿﮏ، ﻣﯿﺮﯼ ﺍﻭﻧﭩﻨﯽ ﮐﯽ ﺩُﻡ ﺑﮭﯽ ﮐﭩﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﺑﺲ ﺍﺏ ﺟﻠﺪﯼ ﺳﮯ ﺑﺘﺎ ﺩﻭ ﻣﯿﺮﯼ ﺍﻭﻧﭩﻨﯽ ﮐﮩﺎﮞ ﮨﮯ؟ ﺗﯿﻨﻮﮞ ﺣﺠﺮ ﻧﮯ ﻣﻞ ﮐﺮ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﺎ؛ ﺑﺨﺪﺍ ﮨﻤﯿﮟ ﺁﭖ ﮐﯽ ﺍﻭﻧﭩﻨﯽ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﻋﻠﻢ ﻧﮩﯿﮟ، ﮨﻢ ﻧﮯ ﺍﺳﮯ ﮨﺮﮔﺰ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﯾﮑﮭﺎ۔ ﺍﻭﻧﭩﻨﯽ ﮐﺎ ﻣﺎﻟﮏ ﺍﻥ ﮐﯽ ﯾﮧ ﺑﺎﺕ ﺳﻦ ﮐﺮ ﻏﺼﮯ ﺳﮯ ﭘﺎﮔﻞ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ، ﺍﺱ ﻧﮯ ﻓﯿﺼﻠﮧ ﮐﯿﺎ ﮐﮧ ﺍﺱ ﺗﯿﻨﻮﮞ ﮐﻮ ﮐﮭﯿﻨﭻ ﮐﺮ ﻗﺎﺿﯽ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﻟﮯ ﺟﺎﺋﯿﮕﺎ۔ ﺍﺳﮯ ﭘﻮﺭﺍ ﯾﻘﯿﻦ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺍﻭﻧﭩﻨﯽ ﮐﻮ ﯾﮧ ﺗﯿﻨﻮﮞ ﺫﺑﺢ ﮐﺮ ﮐﮯ ﮐﮭﺎ ﭼﮑﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﺏ ﺍﭘﻨﮯ ﺟﺮﻡ ﮐﻮ ﭼﮭﭙﺎﻧﮯ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﺟﮭﻮﭦ ﺑﻮﻝ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ۔۔ ﺍﻭﻧﭩﻨﯽ ﻭﺍﻟﮯ ﻧﮯ ﺟﺐ ﺗﯿﻨﻮﮞ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﺎ ﺍﺭﺍﺩﮦ ﺑﺘﺎﯾﺎ ﺗﻮ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮨﻤﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﺍﻋﺘﺮﺍﺽ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﮨﻢ ﺧﻮﺩ ﺑﮭﯽ ﻗﺎﺿﯽ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﮨﯽ ﺟﺎ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ ﺟﺐ ﯾﮧ ﭼﺎﺭﻭﮞ ﻗﺎﺿﯽ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﭘﮩﻨﭽﮯ ﺗﻮ ﺍﻭﻧﭩﻨﯽ ﻭﺍﻟﮯ ﻧﮯ ﻗﺎﺿﯽ ﺳﮯ ﺍﭘﻨﺎ ﻗﺼﮧ ﺑﯿﺎﻥ ﮐﯿﺎ۔ ﻗﺎﺿﯽ ﻧﮯ ﺍﻥ ﺗﯿﻨﻮﮞ ﺳﮯ ﮐﮩﺎ ﺟﺲ ﻃﺮﺡ ﺗﻢ ﺗﯿﻨﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﻭﻧﭩﻨﯽ ﮐﯽ ﻧﺸﺎﻧﯿﺎﮞ ﺑﺘﺎﺋﯽ ﮨﯿﮟ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺍﯾﮏ ﮨﯽ ﻧﺘﯿﺠﮧ ﻧﮑﻠﺘﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﻭﻧﭩﻨﯽ ﺗﻢ ﺗﯿﻨﻮﮞ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﮨﮯ، ﺑﮩﺘﺮ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺗﻢ ﺍﭘﻨﮯ ﺟﺮﻡ ﮐﺎ ﺍﻋﺘﺮﺍﻑ ﮐﺮ ﻟﻮ۔ ﭘﮩﻠﮯ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ؛ ﺟﻨﺎﺏ ﻋﺎﻟﯽ، ﮨﻢ ﻧﮯ ﺍﻭﻧﭩﻨﯽ ﺗﻮ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﯾﮑﮭﯽ ﺗﮭﯽ، ﮨﺎﮞ ﺍﻟﺒﺘﮧ ﺍﻭﻧﭩﻨﯽ ﮐﮯ ﺁﺛﺎﺭ ﺿﺮﻭﺭ ﺩﯾﮑﮭﮯ ﺗﮭﮯ۔ ﺟﺐ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﺳﮯ ﮐﮩﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﺗﯿﺮﯼ ﺍﻭﻧﭩﻨﯽ ﺍﯾﮏ ﺁﻧﮑﮫ ﺳﮯ ﮐﺎﻧﯽ ﮨﮯ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﺭﺍﺳﺘﮯ ﮐﮯ ﺍﯾﮏ ﻃﺮﻑ ﮐﺎ ﮔﮭﺎﺱ ﺗﻮ ﺧﻮﺏ ﭼﺮﺍ ﮨﻮﺍ ﺗﮭﺎ ﻣﮕﺮ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﻃﺮﻑ ﮐﺎ ﻭﯾﺴﮯ ﮨﯽ ﺑﺂﻣﺎﻥ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﺗﮭﺎ۔ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺍﯾﮏ ﮨﯽ ﻣﻄﻠﺐ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﺍﺱ ﺷﺨﺺ ﮐﯽ ﺍﻭﻧﭩﻨﯽ ﺍﯾﮏ ﺁﻧﮑﮫ ﺳﮯ ﮐﺎﻧﯽ ﺭﮨﯽ ﮨﻮﮔﯽ۔ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﺣﺠﺮ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ؛ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﺭﺍﺳﺘﮯ ﻣﯿﮟ ﺗﯿﻦ ﻗﺪﻡ ﺗﻮ ﮔﮩﺮﮮ ﻟﮕﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮨﯿﮟ ﺟﺒﮑﮧ ﭼﻮﺗﮭﺎ ﻗﺪﻡ ﺯﻣﯿﻦ ﭘﺮ ﻣﻌﻤﻮﻟﯽ ﭘﮍﺍ ﮨﻮﺍ ﺗﮭﺎ ﺟﺲ ﮐﺎ ﻣﻄﻠﺐ ﺑﺲ ﺍﺗﻨﺎ ﮨﯽ ﺑﻨﺘﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﯾﮧ ﺟﺎﻧﻮﺭ ﻟﻨﮕﮍﺍ ﺑﮭﯽ ﺗﮭﺎ۔ ﺗﯿﺴﺮﮮ ﺣﺠﺮ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ؛ ﺍﻭﻧﭧ ﺟﺐ ﺭﺍﮦ ﭼﻠﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺍﭘﻨﺎ ﮔﻮﺑﺮ ﮔﺮﺍﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺗﻮ ﺩﻡ ﺳﮯ ﺍﺩﮬﺮ ﺍُﺩﮬﺮ ﺑﮑﮭﯿﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﺟﺒﮑﮧ ﮨﻢ ﺟﺲ ﺭﺍﮦ ﺳﮯ ﺁﺋﮯ ﺗﮭﮯ ﻭﮨﺎﮞ ﭘﺮ ﮔﻮﺑﺮ ﺍﯾﮏ ﮨﯽ ﻻﺋﻦ ﻣﯿﮟ ﺳﯿﺪﮬﺎ ﮔﺮﺍ ﮨﻮﺍ ﺗﮭﺎ ﺟﺲ ﮐﺎ ﺍﯾﮏ ﻣﻄﻠﺐ ﮨﻮ ﺳﮑﺘﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﺍﻭﻧﭩﻨﯽ ﮐﯽ ﺩُﻡ ﮐﭩﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﮨﮯ ﺟﻮ ﺍﭘﻨﺎ ﮔﻮﺑﺮ ﺩﺍﺋﯿﮟ ﺑﺎﺋﯿﮟ ﻧﮩﯿﮟ ﭘﮭﯿﻼ ﭘﺎﺋﯽ۔ ﻗﺎﺿﯽ ﻧﮯ ﺑﻐﯿﺮ ﮐﺴﯽ ﺩﯾﺮ ﮐﮯ ﺍﺱ ﺁﺩﻣﯽ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﮐﮩﺎ، ﺗﻢ ﺟﺎ ﺳﮑﺘﮯ ﮨﻮ۔ ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﺍﻭﻧﭩﻨﯽ ﺍﻥ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻧﺎﮞ ﮨﯽ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺍُﺳﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﮨﮯ۔ ﺍﻭﻧﭩﻨﯽ ﻭﺍﻟﮯ ﺷﺨﺺ ﮐﮯ ﺟﺎﻧﮯ ﮐﮯ ﺍﻥ ﺗﯿﻨﻮﮞ ﺑﮭﺎﺋﯿﻮﮞ ﻧﮯ ﻗﺎﺿﯽ ﺳﮯ ﺍﭘﻨﺎ ﻗﺼﮧ ﺑﯿﺎﻥ ﮐﯿﺎ ﺟﺴﮯ ﺳُﻦ ﮐﺮ ﻗﺎﺿﯽ ﺑﮩﺖ ﺣﯿﺮﺍﻥ ﮨﻮﺍ۔ ﺍﻥ ﺗﯿﻨﻮﮞ ﺳﮯ ﮐﮩﺎ ﺗﻢ ﺁﺝ ﮐﯽ ﺭﺍﺕ ﻣﮩﻤﺎﻥ ﺧﺎﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﭨﮭﮩﺮﻭ، ﻣﯿﮟ ﮐﻞ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺳﻮﭺ ﮐﺮ ﮐﻮﺋﯽ ﺣﻞ ﺑﺘﺎﺅﻧﮕﺎ۔ ﯾﮧ ﺗﯿﻨﻮﮞ ﻣﮩﻤﺎﻥ ﺧﺎﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﺟﺎ ﮐﺮ ﭨﮭﮩﺮﮮ ﺗﻮ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﻣﺤﺴﻮﺱ ﮐﯿﺎ ﮐﮧ ﺍﻥ ﮐﯽ ﻧﮕﺮﺍﻧﯽ ﮐﯽ ﺟﺎ ﺭﮨﯽ ﮨﮯ۔ ﮐﭽﮫ ﺩﯾﺮ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺍﻥ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﻻﯾﺎ ﮔﯿﺎ ﺟﻮ ﮔﻮﺷﺖ ﮐﮯ ﭘﮑﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺳﺎﻟﻦ ﺍﻭﺭ ﺭﻭﭨﯿﻮﮞ ﭘﺮ ﻣﺸﺘﻤﻞ ﺗﮭﺎ۔ ﭘﮩﻠﮯ ﻧﮯ ﮐﮭﺎﻧﮯ ﮐﻮ ﺩﯾﮑﮭﺘﮯ ﮨﯽ ﮐﮩﺎ ﯾﮧ ﺳﺎﻟﻦ ﮐﺘﮯ ﮐﮯ ﮔﻮﺷﺖ ﮐﺎ ﺑﻨﺎ ﮨﻮﺍ ﮨﮯ۔ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﺭﻭﭨﯿﺎﮞ ﺟﺲ ﻋﻮﺭﺕ ﻧﮯ ﭘﮑﺎﺋﯽ ﮨﯿﮟ ﻭﮦ ﺣﻤﻞ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺍﻭﺭ ﭘﻮﺭﮮ ﺩﻧﻮﮞ ﺳﮯ ﮨﮯ۔ ﺗﯿﺴﺮﮮ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﯾﮧ ﻗﺎﺿﯽ ﺣﺮﺍﻡ ﮐﯽ ﺍﻭﻻﺩ ﮨﮯ۔ ﺑﺎﺕ ﻗﺎﺿﯽ ﺗﮏ ﭘﮩﻨﭻ ﮔﺌﯽ، ﺍُﺱ ﻧﮯ ﺗﯿﻨﻮﮞ ﮐﻮ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﺩﻥ ﺍﭘﻨﯽ ﻋﺪﺍﻟﺖ ﻣﯿﮟ ﻃﻠﺐ ﮐﺮ ﻟﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺗﯿﻨﻮﮞ ﺳﮯ ﻣﺨﺎﻃﺐ ﮨﻮ ﮐﺮ ﮐﮩﺎ؛ ﺗﻢ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﮐﺲ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﺗﮭﺎ ﯾﮧ ﮐﺘﮯ ﮐﺎ ﮔﻮﺷﺖ ﭘﮑﺎ ﮨﻮﺍ ﮨﮯ؟ ﭘﮩﻼ ﺑﻮﻻ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﻗﺎﺿﯽ ﻧﮯ ﺑﺎﻭﺭﭼﯽ ﮐﻮ ﺑﻠﻮﺍ ﮐﺮ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﺗﻮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﻋﺘﺮﺍﻑ ﮐﯿﺎ ﮐﮧ ﭘﮑﺎﻧﮯ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﮐﭽﮫ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﺎ ﺗﻮ ﺍﺱ ﮐﻮ ﺷﺮﺍﺭﺕ ﺳﻮﺟﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﻧﮯ ﮐﺘﺎ ﻣﺎﺭ ﮐﺮ ﺍﺱ ﮐﺎ ﮔﻮﺷﺖ ﭘﮑﺎﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﮐﻮ ﮐﮭﺎﻧﮯ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﺑﮭﺠﻮﺍ ﺩﯾﺎ۔ ﻗﺎﺿﯽ ﻧﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﮐﯿﺴﮯ ﭘﺘﮧ ﭼﻼ ﯾﮧ ﮔﻮﺷﺖ ﮐﺘﮯ ﮐﺎ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺑﺘﺎﯾﺎ ﮔﺎﺋﮯ، ﺑﮑﺮﯼ ﯾﺎ ﺍﻭﻧﭧ ﮐﮯ ﮔﻮﺷﺖ ﮐﮯ ﻧﯿﭽﮯ ﭼﺮﺑﯽ ﻟﮕﯽ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ ﺟﺒﮑﮧ ﯾﮧ ﺳﺎﺭﺍ ﭼﺮﺑﯽ ﻧﻤﺎ ﺗﮭﺎ ﺟﺲ ﮐﮯ ﻧﯿﭽﮯ ﮐﮩﯿﮟ ﮐﮩﯿﮟ ﮔﻮﺷﺖ ﻟﮕﺎ ﮨﻮﺍ ﺗﮭﺎ۔ ﻗﺎﺿﯽ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﺗﻢ ﻭﮦ ﺣﺠﺮ ﮨﻮ ﺟﺲ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﺎﭖ ﮐﮯ ﻣﺎﻝ ﺳﮯ ﻭﺭﺍﺛﺖ ﻣﻠﮯ ﮔﯽ۔ ﻗﺎﺿﯽ ﻧﮯ ﺩﻭﺑﺎﺭﮦ ﺍﻥ ﺳﮯ ﻣﺨﺎﻃﺐ ﮨﻮ ﮐﺮ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﮐﺲ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﯾﮧ ﺭﻭﭨﯿﺎﮞ ﺍﯾﺴﯽ ﻋﻮﺭﺕ ﻧﮯ ﺑﻨﺎﺋﯽ ﮨﯿﮟ ﺟﻮ ﻧﻮ ﻣﺎﮦ ﮐﮯ ﺣﻤﻞ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﮯ ﭘﻮﺭﮮ ﺩﻧﻮﮞ ﺳﮯ ﮨﮯ؟ ﺟﻮﺍﺏ ﻣﯿﮟ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﻣﯿﮟ ﮨﻮﮞ ﺟﺲ ﻧﮯ ﯾﮧ ﮐﮩﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﻗﺎﺿﯽ ﻧﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﮐﯿﻮﻧﮑﺮ ﯾﮧ ﻟﮕﺎ ﺗﻮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺭﻭﭨﯿﺎﮞ ﺍﯾﮏ ﻃﺮﻑ ﺳﮯ ﭘﮭﻮﻟﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﺍﻭﺭ ﺧﻮﺏ ﭘﮑﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﮨﯿﮟ ﺗﻮ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﺳﮯ ﮐﭽﯽ ﺍﻭﺭ ﻣﻮﭨﯽ ﺭﮦ ﮔﺌﯽ ﮨﯿﮟ۔ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﺱ ﺳﮯ ﯾﮩﯽ ﺍﺧﺬ ﮐﯿﺎ ﺭﻭﭨﯿﺎﮞ ﺑﻨﺎﻧﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﺍﯾﺴﯽ ﺧﺎﺗﻮﻥ ﮨﮯ ﺟﺲ ﺳﮯ ﺗﮑﻠﯿﻒ ﮐﮯ ﻣﺎﺭﮮ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺟﮭﮑﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﺎ ﺭﮨﺎ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﮐﯽ ﭼﯿﺰ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﯾﮑﮫ ﭘﺎ ﺭﮨﯽ ﺟﺲ ﮐﺎ ﻣﻄﻠﺐ ﯾﮩﯽ ﺑﻨﺘﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﻋﻮﺭﺕ ﺣﺎﻣﻠﮧ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺭﻭﭨﯿﺎﮞ ﺑﻨﺎﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﺗﮑﻠﯿﻒ ﻣﺤﺴﻮﺱ ﮐﺮﺗﯽ ﺭﮨﯽ ﮨﮯ۔ ﻗﺎﺿﯽ ﻧﮯ ﺍﺱ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﺗﻢ ﻭﮦ ﺣﺠﺮ ﮨﻮ ﺟﺴﮯ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﺎﭖ ﮐﮯ ﺗﺮﮐﮧ ﺳﮯ ﻭﺭﺍﺛﺖ ﻣﯿﮟ ﺣﺼﮧ ﻣﻠﮯ ﮔﺎ۔ ﭘﮭﺮ ﻗﺎﺿﯽ ﻧﮯ ﺗﯿﻨﻮﮞ ﺳﮯ ﻣﺨﺎﻃﺐ ﮨﻮ ﮐﺮ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﯾﮧ ﮐﺲ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﺗﮭﺎ ﻣﯿﮟ ﻭﻟﺪ ﺍﻟﺤﺮﺍﻡ ﮨﻮﮞ؟ ﺗﯿﺴﺮﮮ ﻧﮯ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﺎ ﮐﮧ ﯾﮧ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﻗﺎﺿﯽ ﺍُﭨﮫ ﮐﺮ ﺍﻧﺪﺭ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﯽ ﻣﺎﮞ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﮐﯿﺎ ﯾﮧ ﺳﭻ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺣﺮﺍﻣﯽ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺍُﺱ ﮐﯽ ﻣﺎﮞ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﯾﮧ ﺳﭻ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺗﻢ ﺣﺮﺍﻡ ﮐﮯ ﮨﻮ۔ ﻗﺎﺿﯽ ﻧﮯ ﻭﺍﭘﺲ ﺁﮐﺮ ﺍﺱ ﺗﯿﺴﺮﮮ ﺣﺠﺮ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﮐﯿﻮﻧﮑﺮ ﻣﻌﻠﻮﻡ ﮨﻮﺍ ﻣﯿﮟ ﺣﺮﺍﻣﯽ ﮨﻮﮞ ﺗﻮ ﺍُﺱ ﻧﮯ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﺎ؛ ﺍﮔﺮ ﺗﻢ ﺣﻼﻟﯽ ﮨﻮﺗﮯ ﺗﻮ ﻣﮩﻤﺎﻥ ﺧﺎﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﮨﻢ ﭘﺮ ﻧﮕﺮﺍﻥ ﻧﺎ ﻣﻘﺮﺭ ﮐﺮﺗﮯ، ﻧﺎ ﮨﯽ ﮐﺘﮯ ﮐﺎ ﮔﻮﺷﺖ ﭘﮑﻮﺍ ﮐﺮ ﮨﻤﯿﮟ ﮐﮭﺎﻧﮯ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﺑﮭﺠﻮﺍﺗﮯ ﺍﻭﺭ ﻧﺎ ﮨﯽ ﮐﭽﯽ ﺭﻭﭨﯿﺎﮞ ﮐﺴﯽ ﻣﻈﻠﻮﻡ ﻋﻮﺭﺕ ﺳﮯ ﺑﻨﻮﺍ ﮐﺮ ﮨﻤﯿﮟ ﮐﮭﻠﻮﺍﺗﮯ۔ ﻗﺎﺿﯽ ﻧﮯ ﺍُﺳﮯ ﻣﺨﺎﻃﺐ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﺗﻢ ﻭﮦ ﺣﺠﺮ ﮨﻮ ﺟﺴﮯ ﺍُﺱ ﮐﮯ ﺑﺎﭖ ﮐﮯ ﻣﺎﻝ ﺳﮯ ﻭﺭﺛﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﻠﮯ ﮔﺎ۔ ﺗﯿﺴﺮﮮ ﻧﮯ ﺣﯿﺮﺕ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻗﺎﺿﯽ ﮐﻮ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﻣﮕﺮ ﺍﯾﺴﺎ ﮐﯿﻮﮞ ﮨﮯ؟ ﻗﺎﺿﯽ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ؛ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺍﯾﮏ ﺣﺮﺍﻣﯽ ﮨﯽ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﻭﻟﺪ ﺍﻟﺤﺮﺍﻡ ﮐﻮ ﭨﮭﯿﮏ ﭨﮭﯿﮏ ﭘﮩﭽﺎﻥ ﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺗﻢ ﺑﮭﯽ ﻣﯿﺮﯼ ﻃﺮﺡ ﺣﺮﺍﻡ ﮐﯽ ﺍﻭﻻﺩ ﮨﻮ۔ ﻭﺭﺍﺛﺖ ﭘﺎﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﺣﺠﺮ ﺍﭘﻨﯽ ﻣﺎﮞ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﻟﻮﭨﮯ ﺍﻭﺭ ﺩﺭﯾﺎﻓﺖ ﮐﯿﺎ ﮐﮧ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﺗﯿﺴﺮﮮ ﺑﮭﺎﺋﯽ ﮐﺎ ﮐﯿﺎ ﻣﺎﺟﺮﺍ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺍُﻥ ﮐﯽ ﻣﺎﮞ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﺗﻤﮩﺎﺭﺍ ﺑﺎﭖ ﺍﯾﮏ ﺑﺎﺭ ﺻﺒﺢ ﮐﯽ ﻧﻤﺎﺯ ﭘﮍﮬﻨﮯ ﻣﺴﺠﺪ ﮔﯿﺎ ﺗﻮ ﺍﺳﮯ ﺩﺭﺍﻭﺯﮮ ﭘﺮ ﺭﮐﮭﺎ ﮨﻮﺍ ﭘﺎﯾﺎ ﺗﮭﺎ، ﺍﺳﮯ ﮔﮭﺮ ﻻﯾﺎ، ﺍﺱ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﺑﮭﯽ ﺗﻢ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﺟﯿﺴﺎ ﺣﺠﺮ ﺭﮐﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﯽ ﭘﺮﻭﺭﺵ ﮐﯽ۔ ﺟﯽ، ﺗﻮ ﺍﯾﺴﯽ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﯿﮟ ﻋﺮﺑﻮﮞ ﮐﯽ ﺣﮑﺎﯾﺘﯿﮟ ﺟﻦ ﻣﯿﮟ ﺣﮑﻤﺖ ﮐﮯ ﺩﺭﺱ ﺑﮭﯽ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﻣﻀﻤﻮﻥ ﻋﺮﺑﯽ ﺳﮯ ﻟﯿﮑﺮ ﺁﭖ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﺗﺮﺟﻤﮧ ﮐﯿﺎ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ۔ یونین کونسل مینی

Sunday, 6 May 2018

INBOX-SMS-WHATSAPP 03-111-125-129 ORDER BY CALL 03-111-437-239 - https://bit.ly/2HtJAKP بڑھے ہویے پیٹ اور وژن کیلیے جڑی بوٹیوں اور فوڈ آئٹمز سے تیار انتہائی مفید اور سیف پروڈکٹ مختلف کورسز ابھی آرڈر کرنے کیلیے تصویر پر کلک کریں کورسز کی قیمت اور تفصیل دیکھیں جزا : ہینگ - ہرہر- ادرک- اجوائن - سونف - الائچی - دارچینی - پودینہ - اسپغول - جنسنگ ہمدرد یونیورسٹی سے کوالیفائیڈ فارماسسٹ کے زیر نگرانی تیار اور پاکستان کی سب سے بڑی. لیبارٹری سے تصدیق شدہ سیف فارمولا بغیر سائیڈ افیکٹ کے جڑی بوٹیوں اور فوڈ آئٹمز سے تیار شدہ OTHER NETWORKS JAZZ-WARID 03022587645 ZONG 03111125129 TELENOR 03490822278 UFONE 03364677425 Order > https://bit.ly/2vNVoq2 Important Note : Herbex Fat Burn is Registered Trademark of Herbex Solution Pvt Ltd. and our all brands are tested by Leading Lab of Govt of Pakistan and our Manufacturing is Approved by Drug Regulatory Authority of Pakistan. Notice: Hamari Website Per Doctors ki Biography-Degrees-History-Awards aur Company ke Tamam Legal Documents-Certifications-Brands-Copyright-Trade Mark aur Products ki LAB Test Reports Check kerain aur online Product kharedne se pehle batai gae tamam Documents talab kerain ta ke ap Fake Pages se hoshyar rahain . Shukrya

Friday, 4 May 2018

کہتے ہیں کہ جب جنرل ايوب صاحب پاکستان کے صدر تھے تو ان دنوں جنرل ايوب صاحب کو بھارت میں ایک مشاعرے میں مہمان خصوصی کے طور پر بلایا گیا جب مشاعرہ سٹارٹ ہوا تو ایک شاعر نے ایک درد بھری غزل سے اپنی شاعری کا آغاز کیا۔ جب وہ شاعر شاعری کر کے فارغ ہوا تو جنرل صاحب اس شاعر کو کہتے ہیں کہ محترم جو غزل آپ نے سٹارٹ میں پڑھی بہت درد بھری غزل تھی یقینن کسی نے خون کے آنسووں سے لکھی ہو گی اور داد دیتے ہوئے کہا کہ مجھے بہت پسند آئی ہے تو وہ شاعر بولے جناب عالی اس سے بڑی آپ کے لئے خوشخبری اور حیرت کی بات یہ ہے کہ اس غزل کا خالق، اس کو لکھنے والا لکھاری یعنی شاعر آپ کے ملک پاکستان کا ہے، جب جنرل صاحب نے یہ بات سنی تو آپ دھنگ رہ گے اتنا بڑا ہیرہ میرے ملک کے اندر اور مجھے پتہ ہی نہیں جب آپ نے اس شاعر سے اس غزل کے لکھاری یعنی شاعر کا نام پوچھا تو اس نے کہا جناب عالی اس درد بھرے شاعر کو ساغر صدیقی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ جب جنرل صاحب پاکستان واپس آئے اور ساغر صدیقی صاحب کا پتہ کیا تو کسی نے بتایا کہ جناب عالی وہ لاہور داتا صاحب کے قریب رہتے ہیں تو جنرل صاحب نے اسی وقت اپنے چند خاص آدمیوں پہ مشتمل وفد تحائف کے ساتھ لاہور بھیجا اور ان کو کہا کہ ساغر صدیقی صاحب کو بڑی عزت و تکریم کے ساتھ میرے پاس لاو اور کہنا کہ جنرل ايوب صاحب آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔ جب وہ بھیجا ہوا وفد لاہور پہنچا تو انہوں نے اپنا تعارف نہ کرواتے ہوئے داتا دربار کے سامنے کھڑے چند لوگوں سے شاعر ساغر صدیقی کی رہائش گاہ کے متعلق پوچھا تو ان کھڑے چند لوگوں نے طنزیہ لہجوں کے ساتھ ہنستے ہوئے کہا کہ کیسی رہائش؟؟ کون سا شاعر؟؟ ارے آپ اس چرسی اور بھنگی آدمی سے کیا توقع رکھتے ہیں اور پھر کھڑے ان چند لوگوں نے اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ دیکھیں سامنے پڑا ہے چرسیوں اور بھنگیوں کے جھرمٹ میں، جب وہ ايوب صاحب کا بھیجا ہوا وفد ساغر صدیقی صاحب کے پاس گیا اور ان کو ايوب صاحب کا پیغام دیا تو ساغر صدیقی صاحب کہنے لگے جاو ان سے کہہ دو کہ ساغر کی کسی کے ساتھ نہیں بنتی اسی لئے ساغر کسی سے نہیں ملتا (جب ساغر صدیقی نے یہ بات کہی تو بشمول ساغر نشے میں مست وہاں موجود ہر نشئی ایک زور دار قہقہے کے ساتھ کچھ دیر کے لئے زندگی کے دیے غموں کو بھول گیا) بہرحال بےپناہ اسرار (ترلوں) کے باوجود وہ وفد واپس چلا گیا اور سارے احوال و حالات سے ايوب صاحب کو آگاہ کیا۔ کہتے ہیں کہ ايوب صاحب پھر خود ساغر صدیقی صاحب سے ملنے کے لئے لاہور آئے اور جب ان کا سامنا ساغر صدیقی صاحب سے ہوا تو ساغر صدیقی صاحب کی حالت زار دیکھ کر جنرل صاحب کی آنکھوں سے آنسووں کی اک نہ رکنے والی جھڑی لگ گئ اور پھر انہوں نے ہاتھ بڑھاتے ہوئے غم سے چور اور نشے میں مست ساغر صدیقی سے جب مصافحہ کرنا چاہا تو ساغر صدیقی صاحب نے یہ کہتے ہوئے ان سے ہاتھ پیچھے ہٹا لیا کہ جس عہد میں لٹ جائے غریبوں کی کمائی،،، اس عہد کے سلطاں سے کوئی بھول ہوئی ہے آؤ اک سجدہ کریں عالم مدہوشی میں لوگ کہتے ہیں کہ ساغر کو خدا یاد نہیں ( منقول )

It’s great to be back home in Australia. I have had some time away to come to terms with everything and now it’s time to get back into it. The amount of emails and letters I have received has been incredible and I have been extremely humbled by the enormous amount of support you have given me. I now have a lot to do to earn back your trust. To my Mum, Dad and Dani you have been my rock through this and I can’t thank you enough. Family is the most important thing in the world and I thank you for your love and support.

گجرات ۔ بربریت کی انتہاء ایک اور ننھا پھول درندگی کا شکار سات سالہ حمزه مبینہ زیادتی کے بعد قتل لاش کھیتوں سے برامد گجرات ۔ تھانہ کنجاہ کے علاقے جسوکی میں سات سالہ حمزہ کو مبینہ زیادتی کے بعد قتل کر لاش کھیتوں میں پھینک دی گئی ۔ ورثاء کے مطابق سات سالہ حمزہ اپنی دادی کے ساتھ گھر سے کھیتوں کی طرف گیا جو راستہ میں غائب ہو گیا۔ چند گھنٹوں بعد حمزه کی لاش کھیتوں سے برآمد ہوئی جسے مبینہ زیادتی کے بعد گلہ دبا کر قتل کر دیا گیا تھا۔ پولیس نے موقع پر پہنچ کر لاش قبضہ میں لے کر پوسٹ مارٹم کے لئے ہسپتال منتقل کر کے والدہ کی مدعیت میں مقدمہ درج کر کے ملزمان کی تلاش شروع کر دی ہے۔ حمزہ اکلوتا بیٹا تھا اور اس کا باپ حمزہ کی پیدائش سے پہلے روزگار کے سلسلے میں بیرونِ ملک سپین مقیم تھا۔ بدقسمت باپ کو اپنے اکلوتے پھول کے ساتھ کھیلنا تک نصیب نہ ہوا۔ ورثاء کا وزیراعلیٰ اور چیف جسٹس سے نوٹس لینے کی اپیل ۔

عمران خان کے وکیل نعیم بخاری لندن سیر کرنے گئے ۔۔ کسی دل جلے نے انڈرگرونڈ میٹرو کی سیڑیوں پر سے دھکا دے دیا ۔۔۔۔ لڑھک کر سیڑیوں سے منہ کے بل وہ پڑے۔ شدید زخمی ہوگئے ۔۔ دو پسلیاں بھی ٹوٹ کر چورا ہو گئیں ۔۔ یاد رہے کہ ن لیگ والے ان کے ٹویٹ اور بیانات سے بہت تنگ تھے ۔۔ جس طرح عمران خان کو الیکشن ۲۰۱۳ میں اسٹیج پر سے دھکا دیکر جان سے مارنے کی کوشش کی تھی بلکل اسی طرح وکیل کو بھی ٹیکنکل دھکا دیکر راستے سے ہٹانے کی کوشش کی گئی ۔۔۔

https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=2041972275873272&id=1010478395689337