Tuesday, 22 May 2018
یہ تصویر دیکھ کر مجھے اپنی صحافت کے ابتدائی دور کی یاد آ گئی۔ 2001 کی بات ہے، میں صحافت کے میدان میں بالکل نووارد تھا۔ کوئی سفارش تو تھی نہیں ، اس لیے ایک اخبار میں بطور مشقتی کام کا آغاز کرنا پڑا۔ نہ ہونے کے برابر معاوضے کے عوض ، انگریزی سے اردو ٹرانسلیشن،عوامی سروے، نمائندوں کی قدبطہ نما تحریروں کو خبر میں ڈھالنے کی مشقت کرنا پڑتی تھی۔ اکثر سینئرز ٹیپ ریکارڈر پر انٹرویو کر کے لاتے ،تو آڈیو کیسٹس حوالے کر دیتے کہ اس میں سے سوال و جواب کو ترتیب سے لکھ کر دو۔ ایک روز اخبار کے ایڈیٹر نے مجھے بلایا اور کہا کہ میں تمارے حوالے ایک اہم ٹاسک کر رہا ہوں۔ یہ ٹیسٹ ہے، اگر تم نے اسے اچھے انداز میں کر لیا تو ٹرینی کے بجائے تمیں رپورٹر کر دوں گا۔ یہ الفاظ سُن کر مجھے محسوس ہوا کہ بس سنہرے مستقبل کا آغاز ہو ا ہی چاہتا ہے۔ ایڈیٹر صاحب نے کام بتانے سے پہلے راز داری کی شرط لگائی، کہا کہ تم یہ ساراکام میرے کمرے میں ہی بیٹھ کر کرو گے، اور اخبار کے اندریا باہر اس حوالے کسی سے ذکر نہیں کرنا۔ میں نے فورا حامی بھر لی ۔ اب میرے سپرد ایک فائل کی گئی جس پر ایک سیاستدان کا نام لکھا تھا۔ اس فائل میں کئی کاغذات کی فوٹو کاپیاں تھیں۔ کئی طرح کے گھپلے، بدعنوانیاں ، میرٹ سے ہٹ کر تقرریاں اور کرپشن کے کئی ثبوت۔ مجھے کہا گیا کہ ان سب چیزوں کو اچھی طرح پڑھ کر ایک جاندار خبر بنانی ہے۔ کل ہمارے اخبار کے صفحہ اول پر ایک ‘باکس’ شائع ہوگا، جس اس سیاستدان کے تمام ‘‘کالے کرتوت’’ دستاویزی ثبوتوں کے ہمراہ عوام کے سامنے لائے جائیں گے۔ رات گیارہ بجے تک میں نے ایک بڑی خبر اور ساتھ کئی ضمنی خبروں کے تیار کر کے ایڈیٹر صاحب کو فون کیا، تو وہ حیرت انگیز طور پر چند ہی منٹوں میں دفتر پہنچ گئے۔ خبریں پڑھنے کے بعد مجھے شاباش دے کر گھرجانے کی اجازت مرحمت فرمائی۔ اگلے دن کے فرنٹ پیج پر کالے ہاشیے میں چیختی چنگاڑتی سرخیوں کا ایک مجموعہ ایک سیاستدان کے عمالِ بد کا اعلان عام کر رہا تھا۔ خبر کو اخبار کے انوسٹی گیشن سیل کی تحقیق قرار دیا گیا تھا۔ دو دن بعد ہی خبر آئی کی پرویز مشرف کی جانب سے قائم کیے گئے قومی احتساب بیورو نے میڈیا کی خبروں کا نوٹس لیتے ہوئے اُسی سیاست دان کے خلاف انکوائری کا آغاز کر دیا ہے۔ ایٹریٹر صاحب نے مجھے بطور خاص بلوا کر نیب کی پریس ریلیز دیکھائی ۔ پھر یہ معمول بن گیا، ایڈیٹر صاحب ہر تیسرے چوتھے روز ایک فائل میرے حوالے کرتے، میں خبر بناتا، جو اخبار میں بہت نمایاں انداز میں شائع ہوتی۔ اور پھر جلد ہی نیب بھی نوٹس لے لیتا۔ تین سے چار مہینوں کے اندر ہم نے کوئی 70 کے قریب سیاستدانوں کو بے نقاب کیا۔ جن کے خلاف نیب نے بھی تحقیقات شروع کر دیں۔ کچھ عرصے بعد مجھے محسوس ہوا، کہ جس سیاست دان کے خلاف ہم خبر چلاتے اور نیب انکوائری شروع کرتا۔ وہ جلد ہی مسلم لیگ قاف میں شمولیت کا اعلان کر دیتا۔ اس کے بعد اُس کے خلاف نیب کے کسی اقدام کی کوئی خبر نہ آتی۔ البتہ جو لوگ قاف لیگ میں شامل نہیں ہوئے اُن کی گرفتاریاں بھی ہوئیں اور مقدمات اور نا اہلیوں کا بھی انہیں سامنا کرنا پڑا۔ یوں کہہ لیجیے کہ قاف لیگ بنوانے میں میرا بھی اہم کردار رہا ہے۔ یا پھر میرے صحافتی کیرئیر میں قاف کی تحلیق کا اہم کردار رہا ہے۔ خیر آج یہ تصویر دیکھ کر 17 سال پہلے کا زمانہ یاد آگیا۔ ہاں یہ بھی خیال آیا کہ تبدیل صرف قاف لیگ کی جگہ پی ٹی آئی کی صورت آئی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کی سوچ بدلی ہے نہ ہی طریقہ واردات۔ عوام پھر تبدیلی کے نعروں سے بہل جانے کو تیار ہے۔ انہوں نے نہ سمجھنے اور نہ سوچنے کی قسم کھا رکھی ہے۔ مہتاب عزیز
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment