Thursday, 14 June 2018

شرارتی لڑکے اور پتھروں کا دور!!! جنوری 2018 کی یکم کو ہمیں دینا تھا لیکن امریکہ یعنی ٹرمپ کو ملا سرپرائز کہ وہ لٹ چکا, برباد ہوا اور اس کو لوٹنے اور برباد کرنے والے اور کوئی نہیں بلکہ وہ تھے جن کو بش نے 9112001 کے بعد اس طرح منایا تھا کہ "دینی یا تھانے جانا ہے؟"۔ "ساتھ دو ورنہ پتھروں کے دور میں لوٹادیں گے۔" سامنے فرمائش نما حکم سننے والا اس وقت کا آرمی چیف اور صدر پاکستان اور تاریخ پاکستان کا متنازعہ ترین شخص جناب جنرل پرویز مشرف تھا۔ جس نے یہ "دھمکی" سنی اور فوراً "لم لیٹ" ہوکر کہا کہ "سوہنیو" غصہ کیوں اور کس لیئے جی؟ جب "ساتھ" کے ملک میں "پتھروں کا ڈھیر" موجود ہے تو ایک ہنستے بستے "کمزور" ملک کا تیا پانچہ بغیر کسی وجہ "چہ معنی دارد"؟ امریکی خوش ہوئے کہ یہ صاحب بہادر جو کہتے ہیں کہ "ڈرتا ورتا کسی سے نہیں" ہماری ایک "کال" پر ہی "بچھ" گئے۔ کہتے ہیں جب گیڈر کی شامت آتی ہے تو وہ شہر کا رخ کرتا ہے اور جب کسی سوپر پاور کی مت ماری جائے تو وہ پاکستان کے اطراف میں ڈیرے جمالیتی ہے۔ بابا جی حمید گل کہتے کہتے چلے گئے کہ تاریخ لکھے گی کہ ہم نے روس کو امریکہ کی مدد سے ہرایا (یاد رہے افغان جنگ خالص ہماری تھی روس کے خلاف اور امریکہ ہمارا ٹشو پیپر بنا تھا, الحمدللہ) اور پھر مورخ دوبارہ تاریخ مرتب کرتے وقت مجبورہوگا یہ لکھنے پر کہ پاکستان نے امریکہ کو امریکہ کی مدد سے شکست سے دوچار کیا تھا۔ تو مشرف نے حمید گل والی بات کو شاید دل میں گرہ لگا رکھی تھی کہ موقع ملا تو بدلے چکانے ہیں۔ خیر امریکہ لڈیاں اور جھومر بنگھڑے ڈالتا ہوا افغانستان میں براستہ پاکستان اترا لیکن پھر جو وہ تب سے اب تک وہاں "پتھروں" سے سر ٹکرا رہا ہے تو اس کو یہ بھول چکا ہے کہ وہ یہاں "دینی یا تھانے جانے" جیسی دھمکی کے زیر اثر ایک پوری ریاست کو قابو کرنے آئے تھے لیکن یہ کیا ہوا سرکار؟ جن کی "بجانے" آئے تھے وہ "پیچھے" کھڑے ہیں جبکہ امریکی ان کے "آگے" کھڑے ہیں اور "ہاتھ" سامنے والی "دیوار" پر ٹکے ہیں جبکہ "سر" شرمندگی سے جھکا ہوا اور "کمر میں بل" ہے یعنی ایک قوم کے ہاتھوں بیوقوف بن گئے ہیں اور کرتے کرتے سولا سال کا عرصہ گزرگیا اور بندہ تبدیل ہوا جو کہ "دینے اور تھانے" جیسی اصطلاحات سے اچھی طرح واقف ہوچکا تھا کو احساس ہوا کہ اوئے تیری یہ تو سالا ہمیں "تھانے" بھی لے آئے اور "زور و شور" سے "لے" بھی رہے ہیں اور ساتھ ساتھ "بل" ہاتھ میں تھما کر "پیسے" بھی "وصول" رہے ہیں۔ چچ چچ چچ یہ تو فول ہوگیا ہمارے ساتھ, صدی کا بہت بڑا دھوکہ ہوگیا, تیتس ارب ڈالر کا چونا لگ گیا اور ہاتھ نہ تیتر لگا نہ بٹیر اور ہم سمجھتے رہے کہ یہ ہماری جنگ ہے جو ہم پاکستان سے لڑوارہے ہیں لیکن دراصل یہ تو پاکستان کی ہی جنگ تھی جو ہم اسی کی دہائی سے لڑنا شروع ہوئے اور اب تک لڑ لڑ کر سوائے ہار اور حزمیت کے کچھ ہاتھ نہیں آرہا۔ چلوجی پھردھمکی دھمکی کھیلتے ہیں تو نئے امریکی صاحب نے فرمائش دہرائی کہ جی مزہ نہیں آرہا تو "ڈومور" لیکن اب "پچھلے" ہر بار "ڈومور" کی "فرمائش" پر "مزے" کرواتے کرواتے "تھک" اور "اکتا" چکے تھے جس کا احساس بھی امریکہ کو ہوچکا تھا فرمائش دہرانے سے پہلے بس منہ سے سننا چاہتا تھا جو پھر سننے کو ملا کہ جی حضور کیا کہا؟ ڈو مور؟ نا جی نا ہن نو مور نو کبوتر۔ ۔ ۔ اب پاکستان خود انحصاری اور خودمختاری کی شاہراہ پر رواں دواں ہے لہذا تم چنگڑ چوڑے اپنا بستر گول کرکے امریکہ کی بس پکڑو مترو۔ مشرف سترہ سال بعد قوم کے عالی دماغوں کو سمجھانے میں اور یقین دلانے میں کامیاب ٹھہرا کہ تب ادھوری سدھوری میزائیل ٹیکنالوجی, شاپروں میں پڑی ایٹمی ٹیکنالوجی اور امریکی ساختہ ایف سکسٹین وغیرہ وغیرہ کے ساتھ پاکستان سوپرپاور سے براہ راست جنگ کا متحمل نہیں ہوسکتا تھا لہذا یہ جنگ شیروں (MI) اور مارخوروں (ISI) سے الگ الگ طریقے سے کسی دوسری سرزمین پر لڑنی پڑے گی, کیا کریں گندا ہے پر دھندا ہے۔ جنگ کا تخمینہ پہلے لگایا جا چکا تھا کہ اگر اپنے گھر میں لڑتے ہیں تو گیم صرف چوبیس گھنٹے کی ہوگی اور نقصان یکطرفہ ہوگا جس میں کم سے کم ستر لاکھ اور زیادہ سے زیادہ سات کروڑ قیمتی جانوں کے ضیاع کے ساتھ کھربوں کا مالی نقصان علاوعہ تمام دفاعی و ایٹمی تنصیبات سے ہاتھ دھونا ہوتا۔ دماغ لڑائے گئے اور یہ طے ہوا کہ یہ تخمینہ یوں ہو سکتا ہے کہ جانی نقصان کا ہندسہ کسی صورت لاکھ سے زیادہ نہ ہو اور مالی نقصان کاہندسہ اربوں میں ہو بھی جائے تو خیر ہم وہ وصول کرلیں گے سود سمیت اور میدان اپنا گھر ہرگز نہ ہو تو ایک لاکھ قربانیوں کے ساتھ جنگ کا دورانیہ چوبیس گھنٹے سے بڑھا کر من چاہی مدت ہوسکتا ہے۔ یاد رہے ایسا کرنا ہی واحد آپشن تھا کہ مقابلہ ایک اور سو کا تھا اور ٹیکنالوجی و وسائل کا تو آٹے اور نمک والا تناسب تھا امریکہ اور پاکستان کا اس وقت۔ بہرحال جنگ سے منہ نہیں موڑا گیا خواہ اسکو امریکہ نے اپنی دہشت گردی کے خلاف جنگ کہہ کر ہی آغاز کیا ہو لیکن "بزدل کمانڈو" اور آل ان آل کمانڈر نے بساط بچھا کر مہرے سرکانے شروع کیئے۔ افغانستان میں "ایم آئی" کو امریکہ کے ڈسپوزیبل پر دے دیا "آنکھ" مارکر اور ادھر "شرارتی لڑکوں" عرف "مارخوروں" المعروف "آئی ایس آئی" کو ان کے پیچھے روانہ کردیا براہ راست اپنی کمانڈ میں رکھ کر۔ اب صدی کی ہی نہیں بلکہ تاریخ کی سب سے پیچیدہ اور خطرناک جنگ کا آغاز کردیاتھا تو پیٹھ موڑنا یا میدان خالی چھوڑنا ناممکن تھا۔ ادھر کمانڈو ایم آئی سے "پتھروں" کی نشاندہی کروادیتا امریکنوں کو اور ادھر "شرارتی لڑکوں" کے ہاتھ میں وہی "پتھر" تھما دیتا یہ حکم دے کر کہ ان "پتھروں" سے ان "امریکی گدھوں" کا "سر"پھوڑ دو,نشانہ سر سے کم بلکل نہ ہو ورنہ خیر نہیں۔ اس جنگ کا نتیجہ خود بتارہا ہے کہ پتھروں کا دور کن کو دیکھنا پڑا اور کن کی ٹکریں افغانستان کے ہر پتھر سے مروائیں ہیں شراشرتی لڑکوں نے۔ بہرحال امریکہ کی مدد کو بھارت اور نیٹو کودے کہ جی ہم امریکہ کو "تھانے" سے"باعزت" رہا بھی کروائیں گے اور "شرارتی لڑکوں" کو "سبق" بھی سکھائیں گے جنہوں نے "بیچارے امریکہ" کو "کوڈا" کرکے "کانا" کرچھوڑا ہے خطے ہی کیا پوری دنیا میں۔ یہ بات تو طے ہے کہ جنگ تباہی کا دوسرا نام ہے اور جب جب دو اجسام یا قوتیں ٹکراتی ہیں تو آس پاس "کولیٹرل ڈیمیج" ہونا سوفیصد طے عمل ہے یہ کوئی الحادی بگ بینگ تھیوری تو ہے نہیں کہ انجام تخلیق کی صورت نکلے۔ ہاں ہمیں اس جنگ کا حصہ بننے میں 75 ہزار قیمتی جانوں کا نذرانہ دینا پڑا اور اربوں مالیت کا انفراسٹرکچر تباہ کروانا پڑا جس کی قیمت ہم وصول بھی کرچکے ہیں کچھ حصہ اور مزید بھی ان شاء ﷲ وصولیں گے۔ لیکن کیا یہ گھاٹے کا سودا تھا؟ کیا واقعی مشرف کا یہ قدم یہ فیصلہ غلط تھا؟ کیا چالیس لاکھ نفوس کی قربانیوں سے حاصل کردہ ملک پر پچھتر ہزار نفس مزید قربان کرکے بیس کروڑ نفوس کو بچانا اور ملک کو استحکام دینا جرم ہے؟ کیا ہمارے مذہب ہمارے اللہ اور رسول صل اللہ علیہ والہ وسلم نے یہ نہیں کہا کہ خون کا بہا امت کی سلامتی ہے؟ کیا جہاد کا مطلب آمنے سامنے کی کھلی جنگ ہی ہے؟ کیا اس وقت اس واحد آپشن کے علاوعہ کوئی اور عقل مندی والا آپشن موجود تھا؟ کیا ہماری دفاعی اور معاشی اور افرادی طاقت اسقدر جدید خطوط پر استوار تھی کہ پچاس پاکستانوں پر مشتمل ایک ملک سے جنگ لڑ کر ہم نقشے پر رہتے؟ ہاہاہاہا اب افغانستان کی مثال مت دینا کہ وہاں ہم ہی ہیں اور تھے جو وہ بھی موجود ہے ورنہ افغانی اپنے دم پر ایک اینٹ کی بھی حفاظت کے قابل نہیں یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے۔ اب کہو گے کہ یہ جو طرح طرح کی تحاریک اور پراکسی جنگیں پاکستان میں چل پڑیں ہیں ان کا ذمہ دار پاکستان خود ہے بلکہ سیدھا الزام فوج اور ایجنسیوں پر ہی لگاؤ گے تو سن لو یہ وہ آخری پڑاؤ اور آپشن بچا ہے امریکہ بھارت اور نیٹو کے پاس کہ وہ خطے سے سرخرو ہوکر اور بدلہ لیکر نکل سکیں۔ وجہ اس کی تم جیسے ٹٹو پشتینوں, ولیوں, اچکزئیوں, نوازوں, مریموں, فضلوں, الطافوں اور براہمداغوں کا اس ملک میں باعزت اقتدار میں رہنا ہے ورنہ کسی کی جرات ہی نہیں تھی اور نہ ہوتی کہ وہ ہمارے گھر میں سے غداروں کا ہجوم کھڑا کرکے ہمیں ہی للکارتا کہ اب آؤ میدان میں اور لڑو جنگ۔ دشمن نے خود ہمیں میدان میں اچھے سے دیکھ لیا کہ وہ ہماری گرد کو بھی چھو نہیں پاتا جبکہ ان کی زمین ہم سرکا دیتے ہیں بفضل خدا الحمداللہ ۔ لیکن جب خنجر بازسامنے بھائی ہو اور وہ دشمن کا آلہ کار ہوتو دماغ اور دل گومگوں کی کیفیت میں پھنس جاتا ہے کہ اب کیا کروں کہ زندہ چھوڑوں تو قوم کٹے گی اس خنجر سے اور اگر کاٹ ڈالوں تو قوم بٹے گی اس قتل سے کہ ہم نے زیادتی کرڈالی جبکہ دونوں صورتوں میں دشمن فتح یاب ٹھہرے گا بغیر کسی جانی اور مالی نقصان کے۔ اے میرے اہل وطن اہل دین بھائیوں اور بہنوں خدارا ہر طرح کے سیاسی, لسانی اور مذہبی تفرقے سے باہر نکل آؤ وقت رہتے ورنہ ہمارا نام بھی نہ ملے گا تاریخ کے پنوں پر ڈھونڈھنے سے بھی۔ جو جنگ ہم جیت گئے ہیں اس کو آخری لمحات میں ہار میں تبدیل مت کرو اور نہ دشمن کو موقع دو کہ وہ کامیابی کا سہرا سجاکر واپس لوٹے۔ "شرارتی لڑکوں" نے جو "پتھروں کے دور" میں دشمن کا سر ان ہی "پتھروں" سے "پھوڑا" ہے اور ساتھ ہی "عقل" پر "بٹے" لگائے ہیں دشمن کے وہ تم مت ہٹاؤ اور مت "مرہم پٹی" کرو آپسی جھگڑوں اور فتنوں کو دشمن کی شہہ پر بڑھا کر۔ اللہ امت مسلمہ اور پاکستان کی حفاظت فرمائے۔.! ~Marwan Sabeel~ 🇵🇰

No comments:

Post a Comment