Sunday, 24 June 2018

روس کے خلاف جہاد اور جنرل ضیاء کی شرائط روس کے خلاف جنگ میں جنرل ضیاء الحق نے امریکہ سے جو شرائط منوائیں، سفارت کاری کی تاریخ میں وہ ایک غیر معمولی کارنامہ تھا۔ اسکا موازنہ اپنے جمہوری حکمرانوں کے امریکہ کے ساتھ معاملات سے کیجیے گا یہ ذہن میں رکھتے ہوئے کہ آج امریکہ خود پھنسا ہوا ہے۔ وہ روس کے خلاف پاکستان کی اپنی جنگ تھی اور چار سال تک یعنی 79 سے 83 تک پاکستان اکیلے لڑتا رہا۔ لیکن جب امریکہ نے اس جنگ میں کودنے کا فیصلہ کیا تب جنرل ضیاء نے اسکو اپنی شرائط پر شامل کیا۔ حالانکہ اس وقت پاکستان کو اسکی شدید ضرورت تھی اور مجاہدین تباہ کن روسی ہیلی کاپٹروں کی وجہ سے شکست کے قریب تھے لیکن بدترین حالات میں بہترین بات چیت جنرل ضیاء کی نمایاں خوبیوں میں سے ایک تھی اور امریکہ سے اس جنگ میں شمولیت کے لیے اس نے اپنی مرضی کی شرائط منوائیں۔ شروع میں جنرل ضیاء کو امریکہ نے 400 ملین ڈالر امداد کی آفر کی جسکو جنرل نے پاؤں کی ٹھوکر سے اڑا دیا کہ "ہمیں یہ مونگ پھلی کے دانے نہیں چاہئیں” یہ اس وقت کے لحاظ سے بہت بڑی رقم تھی جس پر آپ کے کسی بھی جمہوری لیڈر کی رال بہہ جاتی۔ لیکن جنرل کے پیش نظر کچھ اور معاملات تھے اور وہ مستقبل کی طرف دیکھ رہے تھے۔ امریکہ نے پوچھا کہ تم کیا چاہتے ہو تب جنرل نے مندرجہ ذیل شرائط پر معاملات طے کیے۔ پہلی شرط یہ تھی کہ یہ امریکہ نہیں بلکہ پاکستان طے کرے گا کہ اسکو کیا چاہئے اور امریکہ پابند ہوگا کہ اس ضرورت کو پورا کرے۔ امریکہ نے یہ شرط مان لی۔ دوسری شرط یہ تھی کہ امریکہ کبھی خود اس جنگ کے نزدیک نہیں آئے گا اور پاکستان جیسے چاہے گا اپنی مرضی سے اس جنگ کو کنٹرول کرتا رہے گا نیز اسلحے کی مجاہدین میں تقسیم بھی پاکستان خود کرے گا۔ جنرل نے امریکہ کو اس بات پر قائل کر لیا تھا کہ "اگر تم مجاہدین میں اسلحہ تقسیم کرو گے تو انکو آپس میں لڑوا دو گے جیسا تم نے ویت نام میں کیا تھا ” جنرل ضیاء کا یہ اندیشہ بعد میں بلکل درست ثابت ہوا جب اسکی شہادت کے بعد جمہوری بالشتیوں نے یہ کنٹرول امریکہ کے ہاتھ میں دے دیا اور امریکی ایلچی مسٹر ٹامسن نے اسلحے کی غیر مساوی تقسیم کے ذریعے مجاہدین میں آپس میں خانہ جنگی کروا دی جس کا خمیازہ پاکستان نے بھگتا۔ امریکہ کو جنرل ضیاء کی اس دلیل سے سخت نفرت تھی لیکن اسکے باوجود وہ مان گئے جس پر کئی انڈین دانشوروں نے لکھا کہ ” یہ بہت کڑوی گولی تھی جو جنرل ضیاء کے ہاتھوں امریکی انتظامیہ اور سی آئی اے نے نگلی” جنرل نے تیسری شرط یہ پیش کی کہ چونکہ ہم روس کے خلاف مزاحمت کر رہے ہیں جس کے جواب میں روس کسی بھی وقت پاکستان کے خلاف باقاعدہ جنگ چھیڑ سکتا ہے لہذا اسکے مقابلے کے لیے ہمیں جدید ترین جنگی جہاز اور اسلحہ درکار ہے۔ تب اس وقت کے لحاظ سے سب سے جدید جنگی جہاز ایف 16 پاکستان نے حاصل کیے۔ جو اس وقت صرف امریکہ، اسرائیل اور پاکستان کے پاس تھے۔ جنرل کے بعد آنے والے تمام لیڈر مزید کوئی جہاز حاصل نہ کر سکے سوائے ایک دو جہازوں کے جو آئی ایس آئی کی بعض "پھرتیوں” کی وجہ سے ملے۔ چوتھی اور سب سے اہم شرط جنرل نے امریکہ سے یہ منوائی کہ پاکستان ایٹمی پروگرام جاری رکھے گا لیکن امریکہ ہر سال اقوام متحدہ سے پاکستان کو یہ سرٹیفیکٹ دلوائے گا کہ پاکستان ایٹم بم نہیں بنا رہا۔ یہ ایک ایسی شرط تھی جس پر انڈیا اور اسرائیل میں آگ لگی ہوئی تھی، کہ جب بچہ بچہ جانتا ہے کہ کہوٹہ ” بم والی فیکٹری ہے ” تب اقوام متحدہ اور امریکہ کیسے پاکستان کو یہ سرٹیفیکیٹ دے رہے ہیں؟ اپنی اس کامیابی کی بدولت پاکستان نے نہایت برق رفتاری سے اسی دور میں ایٹم بم بنانے میں کامیابی حاصل کر لی۔ ایٹم بم کا اصل خالق جنرل ضیاء ہی تھا۔ اس جملے کے جواب میں کہ ” ضیاء امریکہ کا ایجنٹ تھا” ہم ایک ممتاز بھارتی صحافی اور دانشور جناب ایم جے اکبر صاحب کے سن 88 میں ” انڈیا ٹوڈے ” میں چھپنے والے ایک مضمون کا اقتباس پیش کرتے ہیں ۔۔۔۔ "صدرضیاءالحق کسی نہ کسی طرح امریکہ کے ساتھ دوستی اپنی شرائط پر قائم رکھنے میں کامیاب ہو چکے ہیں ۔ صدر ضیاءالحق کا یہی امتیاز ہے کہ پاکستان کے تمام سول اور فوجی حکمرانوں میں واحد ہیں جنہوں نے پاکستان کے کسی موءقف میں ذرا بھی لچک پیدا کیے بغیر امریکہ سے اپنے معاملات کو درست رکھا” سخت ضرورت کے باوجود جنرل ضیاء نے ان حالات میں امریکہ سے جو شرائط منوائیں سفارت کاری کی تاریخ میں وہ یقیناً ایک غیر معمولی کارنامہ تھا۔ جب تعصب اور عجیب و غریب قسم کے جمہوری فلسفوں سے لوگوں کو آزادی ملی گی تب ضیاء کے ان کارناموں کو ضرور تسلیم کیا جائے گا۔

No comments:

Post a Comment