Tuesday, 5 June 2018
اک قیامت جو سر پہ آ کھڑی ہے. درختوں کی قلت کے باعث کراچی میں سینکڑوں ہلاکتیں ہوئیں کسی کو کوئی فرق پڑا، کوئی تکلیف ہوئی؟ آپ کو؟ آپ کے اردگرد موجود لوگوں کو؟ مجھے اور میرے اردگرد رہتے لوگوں کو؟ خود کراچی کے شہریوں کو؟ ان کو بھی چھوڑیں جو مرے ان کے گھر والوں کو کوئی تکلیف ہوئی؟ نہیں ہر گز نہیں. اچھا تکلیف سے مراد رونا پیٹنا یا افسردہ ہونا نہیں ہے. ایک جانور کا بچہ بھی مر جائے تو افسردہ تو وہ بھی ہوتا ہے. تکلیف سے مراد یہ ہے کہ گرمی کی شدت سے ہونے والی ہلاکتوں پہ کسی نے دکھ اور تکلیف سے سوچا کہ اگر کراچی میں مطلوبہ تعداد میں درخت لگائے گئے ہوتے، اگر گلوبل وارمنگ کو روکنے کےلیے اقدامات کیے گئے ہوتے تو شاید وہ مسکین جو گرمی کی بھینٹ کی چڑھے وہ بچ جاتے. سینکڑوں مر گئے ہم لوگ جیسے تھے ویسے اب بھی ہیں. سینکڑوں مزید مر جائیں گی ہم لوگ جیسے ہیں ویسے تب بھی رہیں گے. یہ تو گرمی کی صورت حال تھی. پانی کی قلت کا مسئلہ آگے سر پہ کھڑا ہے. تھر میں بھوک پیاس سے مرنے والے چار سو کے لگ بھگ بچے یاد ہیں؟ مجھے یا تمہیں کوئی تکلیف ہوئی تھی کوئی فرق پڑا تھا؟ تب تو بھارت نے ڈیم بھی نہیں بنایا تھا. اب جب بھارت ڈیم پہ ڈیم بنا چکا ہے اور قریب ہے کہ ہم لوگ پانی کی بوند بوند کو ترسیں. روٹی کے چند لقموں کی خاطر لوگ قتل ہوتے ہیں قتل کرتے ہیں اب جب پانی کےلیے بھی یہ صورت حال ہونے جا رہی ہے تو آپ کو کیا لگتا ہے ہمیں کوئی فرق پڑے گا؟ نہیں تو ہر گز نہیں. کیسے پڑ سکتا ہے. کراچی اور تھر والوں کی اموات پہ نہیں پڑا تو بعد میں کیسے پڑے گا. کراچی میں درخت لگانے اور گلوبل وارمنگ گھٹانے کےلیے کہیں ہم نے کوئی آواز اٹھائی ہو، کوئی مظاہرہ کیا ہو کوئی تحریک چلائی ہو؟ ککھ وی نئی. یہی مردہ ضمیری، بے غیرتی اور بے حسی پانی کے مسئلے پر ہے. نا ہم میں سے کوئی بھارت کی آبی جارحیت کے خلاف بولا نا کالا باغ ڈیم کےلیے بولا، نا پانی کی بچت اور لانگ ٹرم منصوبوں کےلیے بولا. کوئی کیوں بولے گا جب کسی کو پتہ ہی نہیں کہ قومی مسئلہ ہوتا کیا ہے اور اس کا قوم کے ہر فرد کو کیسے نقصان ہوتا ہے. تو پھر سن لو، اجتماعی گناہوں کی سزا اجتماعی ہوتی ہے اے کھوتا خور کتا خور مردار خور عوام کے جمِ غفیر (جس میں آپ بھی ہو اور میں بھی ہوں) خدا زمین کو تمہارے لیے جہنم کا اعلی نمونہ بنا چکا ہے. یہ دھوپ جو کبھی زندگی بخش ہوتی تھی آج تمہیں تَلی ہوئی لاشوں میں تبدیل کر رہی ہے، تمہاری بے حسی کے عوض. یہ پانی بھی جو ہمیں اور ہماری زمینوں کو حیات بخشتا ہے اب اپنا منہ ہم سے پھیر چکا ہے. تھوڑے عرصہ تک، تمہاری زمینیں جو کبھی سونا اگلتی تھیں زہر بھی نہیں اگا سکیں گی جس کی ایک چٹکی کھا کے تم خود کشی کر سکو. لیکن تمہیں اور تمہاری قیادت کو کوئی ضرورت نہیں ہے اس پہ بولنے کی. جس بے حسی کا مظاہرہ کرتے چلے آ رہے ہو، اسی کا کرتے رہو. وہ وقت اب دور نہیں رہا جب تم اپنی پیاس بجھانے کےلیے اپنی ہی رگوں کا لہو پینے پہ مجبور ہو جاؤ گے. اسے کسی سر پھرے کی دھمکی یا کسی مجنون کی ھاھو نہ سمجھنا. گرمی کے تیور تمہاری آنکھوں کے سامنے ہیں، منتظر رہو جب پانی ناپید ہو جائے گا. اور ہاں بھارت یا حکومت کو گلہ دینے سے پہلے اپنے گریبان میں ضرور جھانکنا. گرمی کی بھیانک صورت یہ جو مل رہی ہے ہمارے اجتماعی کرتوتوں کی اجتماعی سزا ہے. پانی کی جان لیوا قلت کی صورت وہ جو ملے گی وہ بھی ہماری اجتماعی بے حسی کی اجتماعی سزا ہو گی. چلو اب پڑھ کے ہمیشہ کی طرح نظر انداز کرو اور کھیل کود میں لگ جاؤ. سنگین علی زادہ.
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment