Monday, 25 June 2018
میں ہوں آئی ایس آئی میں ہوں مارخور کہوٹہ ریسرچ انسٹیٹیوٹ لیبارٹیز کو ایٹم بم بنانے والی فیکٹری کے نام سے ساری دنیا جانتی ھیں۔آپ کو شاید یاد ھو گا کہ چند سال پہلے فرانسیسی اور امریکی سفارتی اہلکار جو کہوٹہ کے نو گو ایریا میں چلے گئے تھے وہ لاپتہ ہو گئے تھے جن کی چند دن بعد لاشیں کہوٹہ سے تھوڈی دور سے برآمد ہوئی تھی ان دونوں ممالک کا کہنا تھا کہ مزکورہ افراد کو پاکستانی خفیہ ایجنسی isi نے مارا ھیں۔ جب تحقیقات شروع کی گئی تو پتہ چلا کہ ان کو بھیٹر بکریاں چرانے والوں نے چور سمجھ کر غلطی سے مار دیا تھا ۔تو دوستو۔۔۔! جن افراد نے ان کو مارا تھا وہ واقعی isi کے مارخور ہی تھے مگر کوئی ثابت نہیں کر سکتا تھا کہ وہ isi کے بندے ھیں یا پھر اصلی چرواہے ہی ھیں دوستو وہاں پر ہمارے گمنام مجاہد مختلف روپ دھارے رکھتے ھیں جو بظاهر تو اپنے معمول کے کاموں میں مصروف رہتے ھیں مگر جونہی کوئی غیر مطلقہ فرد ریڈ ایریا میں داخل ہونے کی کوشش کرتا ھیں تو وہ لوگ بنا کسی وارننگ کے بے دریغ اس کو شوٹ کر دیتے ھے اس ریڈ ایریا کی سیکیورٹی کا آپ اندازہ اس بات سے لگا لیں کہ piA کا ایک طیارہ جو ریڈ ایریا کی جانب شاید پائلٹ سے سمت کی غلطی کی وجہ سے بڑھ رہا تھا وہ اس حدود میں داخلے سے پہلے ہی پاکستانی F.16 کے نرغے میں آچکا تھا جس کے پائلٹ کو طیارے کا رخ موڑنے کا کہا گیا بصورتِ دیگر طیارے کو فضا میں ہی تباہ کرنے کا آرڈر مل گیا جس کے بعد پائلٹ نے اپنے جہاذ کا رخ موڑ لیا اور پاک فضائیہ کے حکم پر چکلالہ ایئر بیس پر اتار لیا۔ اسی طرح ایک بار انڈین ایئر فورس کے 2 جنگی طیارے جو کہوٹہ کی سمت بڑھ رھے تھے ان کا پتا پاک ایئر فورس کو بروقت چل گیا جس کے بعد فوری طور پر سرگودھا ایئر بیس سے F 16 طیاروں نے اڑان بھری اور پاکستانی حدود سے 500 میٹر دور ہی ایک انڈین طیارے کو تباہ کر دیا گیا اور دوسرا واپس انڈیا کی طرف بھاگنے میں کامیاب ہو گیا ۔اور اج تک بھارت کی ہمت نہیں ہوئی کہ اپنے جہازوں کو اس طرف بھیجھے۔ دوستو چند دن پہلے نااہل شریف نے ملکی راز بتانے کا کہا یہ اس بندے کی بڑھک ھے کے جس کو یہ پتا ھے کہ وہ کہوٹہ جہاں پر صرف کیمیکلز ٹیسٹ ہوتے ھیں وہاں تو وزیراعظم کو چھوڑو آرمی چیف اور isi چیف کو جانے کی اجازت نہیں ھیں تو یہ نااہل کہاں سے بتا دے گا ملکی راز جس کو دھنیا کا بھی نہیں پتہ۔۔ پھر بھی اگر کسی بھی قسم کی کانفیڈنشل یا ٹاپ سیکریٹ معلومات اگر غلطی سے اس تک پہنچ بھی گئی ھوں تو ان کو یہ نااہل شریف ڈسکلوز کرنے کا سوچے گا بھی تو پھر اسکو پھانسی کے پھندے سے اس کے دادا ابو امریکہ اور بھارت بھی نہیں بچا سکتے۔۔۔ پاک فوج اور پاکستان پائندہ باد
پاکستانی قصائی کے مطابق 👇👇👇 (لڑکیوں سے معذرت کیساتھ ) تنگ پاجامہ 👖 گزشتہ عید سے دو روز قبل میرا گردیزی مارکیٹ ملتان اپنے ایک دوست کیساتھ جانا ہوا. اسے اپنے بچوں کے لیے عید کے کپڑے خریدنے تھے. وہ تو خریداری میں مگن ہو گیا مگر میں نے اپنی فطری مردانہ عادت سے مجبور ہو کر اطراف کا جائزہ لینا شروع کر دیا. 😈 جیسے جیسے آنکھوں کے ریڈار نے سگنل پکڑنا شروع کیے ویسے ویسے میرے چودہ طبق بھی روشن ہوتے گئے 😲 . تا حد نگاہ صنف نازک کا سمندر پر جوش انداز میں اپنی زلزلہ انگیزیاں بکھیر رہا تھا. 😇چہرے کی خوبصورتی اور نقوش چاہے جیسے بھی ہوں مگر انکے دلفریب لباسوں سے چھلکتی نسوانیت " دکھانا بھی نہیں اور کچھ چھپانا بھی نہیں" کے مصداق ابھی پچھلے دنوں اٹھی نسوانی تحریک " میرا جسم - میری مرضی " کے موقف کی زور و شورسے تائید کر رہی تھی. 😒 ابھی میں اس زنانہ تنگی لباس سے متاثرہ اپنی تنگی نظر کو وسعت دینے ہی نہ پایا تھا کہ میر ی سماعت سے ایک مردانہ آواز ٹکرائی. " بھائی میڈیم سائز کا زنانہ بلیک ٹائٹ مل جائے گا. ؟ " مڑ کے دیکھا تو ایک تقریبا باریش لڑکا دو نوجوان لڑکیوں کے ساتھ دکاندار سے مندرجہ بالا چیز مانگ رہا تھا. میرے تجرباتی نچوڑ کے مطابق وہ لڑکا ان دو لڑکیوں کا بھائی تھا جو بہنوں کو عید کی شاپنگ کروانے نکلا تھا. اور خاص طور پر یہ سیاہ تنگ پاجامہ ہی خریداری کا نصب العین تھا کیونکہ دکاندار سے نفی میں جواب موصول ہونے پر لڑکیوں کے تاثرات انکی اب تک کی بازار میں عرق ریزی کا پتہ دے رہے تھے. 😩خیر میرے اندر کے علامہ اقبال نے فوراً مجھے یہ باور کرایا کہ کیا اب یہ وقت بھی آنا تھا کہ بھائی اپنی بہنوں کو ساتھ لئے انکے بلیک ٹائٹ ڈھونڈتے پھریں گے....؟؟؟؟😨 مگر پھر مجھے وہ باپ یاد آئے جو اپنی صاحبزادیوں کو موٹرسائیکل پر لے کے جا رہے ہوتے ہیں اور انکی بیٹیاں تنگ پاجاموں میں ملبوس ٹانگ پر ٹانگ چڑھائے بیٹھی خود کو کسی ریاست کی شہزادی سمجھ رہی ہوتی ہیں. مجھے وہ بھائی بھی یاد آئے جو خود آجکل تنگ پاجامے پہننے میں فخر محسوس کرتے ہیں. 🕺 مجھے وہ مائیں بھی یاد آئیں جو اپنی کمسن, بلوغت کے قریب پہنچنے والی بچیوں یا پھر مکمل بالغ لڑکیوں کو تنگ لباس پہنا کر ماڈرن مدرز کہلواتی ہیں. مانا کہ یہ تنگ پاجامہ زنانہ جسم پر بہت اچھا لگتا ہے. مگر اس تنگ پاجامے سے چھلکتی ہوئی نسوانیت اور تھرتھراتا وجود ہر مرد کے ذہن پر بہت گہرا اثر کرتا ہے. سکن ٹائٹ جینز ہو یا پھر کاٹن, سلک اور فلیکس ایبل ربڑی کپڑے سے بنا انتہائی چست پاجامہ اور اس پر پہنی لیلن کی لانگ قمیض تو پھر الزام ہوا کے سر ہی جائے گا کہ " ہوا چلے تو سنگ اپنے سب کچھ اڑا چلے." 😜 محترم بھائیو. ...!!!! یہ نظارے صرف میں ہی روز نہیں دیکھتا. آپ سب بھی اس سے مستفید ہوتے ہیں. اس طرح کے تنگ لباس اب ہر گھر کی لڑکیوں کے روزمرہ معمول کا حصہ ہیں. اپر کلاس کے تو کیا ہی کہنے مگر یہ جو ہم آپ مڈل کلاس لوگ ہیں حتی کہ مذہبی گھرانوں کی بچیاں بھی اس تنگ لباس کے خفت میں مبتلا ہیں .... تو کیا آپ کو کچھ نظر نہیں آتا؟ کچھ محسوس نہیں ہوتا؟ ان تنگ لباسوں میں نسوانی وجود کیا کیا ہولناک مناظر پیش کرتا ہے؟ نہیں ہمیں سب پتہ بھی ہے اور نظر بھی آتا ہے.... مگر صرف باہر کی لڑکیوں تک.... کبھی اگر ایک سادہ سی نظر ہم اپنی بہن بیٹیوں کے تنگ لباس پر بھی ڈال لیں اور پھر خود کو ذہن میں رکھتے ہوئے باہر کے مردوں کے ذہن پر اثر کرنے والے نسوانی ہیجان کو یاد کریں تو آپکو اپنے آپ سمیت ہر سو رال ٹپکاتے زنانہ گوشت خور جانور ہی ملیں گے. معاشرتی عورت کی سوچ ہم ٹھیک نہیں کر سکتے , اپنی بد نظری پر بھی کنٹرول نا ممکن ہے. مگر اپنے گھر سے اصلاح کا آغاز تو کر ہی سکتے ہیں اگر ہر گھر کا سربراہ اپنی بچیوں کے لباس کی نگہبانی کرئے تو معاشرے میں پھیلی بد نظری اور اس سے پیدا شدہ ہیجان بہت حد تک کم ہو سکتا ہے. یہ جو ہم آپ کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر کے پھر رہے ہیں خود اپنا ہی نقصان کر رہے ہیں. 😟 نوٹ :- یہ بے حیائی اور بے غیرتی صرف شہر میں نہیں بلکہ کے پی کے میں دیہی علاقوں میں بھی سرائیت کرچکی ھے سوات میڈیکل کالج کا فنکشن اس کی جیتی جاگتی مثال ھے
ملا عمر مینگو باردی آج اس شخص کی برسی ہے جس کا نام ملا محمد عمر تھا اور دنیا جسے ایک دہشت گرد کے نام سے یاد کرتی ہے . اس کی تصویر دیکھی .سادہ سا ایک پشتون ، معمولی سا لباس اورسر پر سیاہ دستار ۔موبائل ہاتھ میں پکڑے کتنی ہی دیر میں یہ تصویر دیکھتا رہا ۔ میں نے بہت چاہا میں اسے نفرت کی نگاہ غلط سے دیکھوں اور آگے بڑھ جاؤں ۔ میں لیکن ایسا نہ کر سکا ۔ پھر میں نے روشن خیالی کے کم تر درجے کے تقاضوں کے پیش نظر چاہا ، اسے نظر انداز کر کے آگے بڑھ جاؤں ۔ افسوس مجھ سے یہ بھی نہ ہو سکا ۔ ایک طلسم کی طرح میں وہیں کہیں وہیں اٹک سا گیا ۔ اس کی دستار کے پیچوں میں ہی نظریں الجھ الجھ کر رہ گئیں۔ میں نے خود کو سمجھایا : امریکہ اسے دہشت گرد کہتا ہے اور سکہ رائج الوقت یہ ہے کہ امریکہ جو کہتا ہے ٹھیک کہتا ہے۔ یہ دہشت گرد کی تصویر ہے اور مجھے اس سے نفرت کرنا ہے ۔ نفرت کے جذبات مگر مجھے کوشش کے باوجود مجھے نہ مل سکے ۔ میں نے خود کو تسلی دی کہ ایک ذرا صبر کرو اس سے نفرت کے دلائل میں ابھی ڈھونڈ کر لاتا ہوں..... اور پھر چشم تصور مجھے نوے کی دہائی میں لے گئی۔ میں اس وقت بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی میں انگریزی ادب میں ماسٹرز کر رہا تھا جب افغانستان کے منظر نامے پر ملا عمر طلوع ہوا ۔ اول اول کوئٹہ کے ولی خان کی زبانی پتا چلا ملا عمر کیا کر رہا ہے ، اور ولی خان مولویوں کا کتنا بڑا مخالف تھا اس کا آپ اندازہ نہیں کر سکتے۔ مجھے ولی خان نے بتایا کہ اقتدار تو یہاں منتقل ہی بندوق کی نالی سے ہوتا ہے لیکن ملا عمر کے آنے سے یہ ہوا ہے کہ لوگوں کی عزتیں محفوظ ہو گئی ہیں ۔ مجاہدین نما غنڈوں کی بدمعاشی سے تنگ معاشرے نے اسے خوش آمدید کہا ۔ دی ٹائمز اور دی ٹیلیگراف نے لکھا کہ افغانستان میں وار لارڈز نے جگہ جگہ بیرئرز لگا کر چھوٹی چھوٹی ریاستیں بنا رکھی تھیں ۔اول ان کا کام صرف لوٹ مار تک محدود تھا بعد میں عورتوں اور بچوں کی عصمت دری بھی معمول بن گئی۔ حالت اتنی خراب ہو چکی تھی کہ ان دنوں وار لارڈز کی ایک لڑکے پرباقاعدہ لڑائی ہو گئی ۔ ملا عمر اس صورت حال سے تنگ آ کر مدرسے کے پچاس لڑکوں کے ساتھ اٹھے اور اس سہ پہر وار لارڈ کی لاش اسی کے ٹینک کے ساتھ جھول رہی تھی ۔ وار لارڈز سے تنگ سماج نے ملا عمر کا ساتھ دیا ۔اس کی اخلاقی قوت کا یہ عالم تھا کہ حکمت یار جیسے جنگجو نے لڑے بغیر سروبی خالی کر دیا ۔ تو کیا میں اس لیے اس سے نفرت کروں کہ وہ بندوق کے زور پر اقتدار میں آ یا ؟ اس سماج میں اور راستہ ہی کیا تھا ؟کیا وہ وار لارڈز سے جا کر ووٹ مانگتا کہ بد معاشی ختم کرو اور مجھے ووٹ دے دو ؟کیا اس دور میں یہ ممکن تھا؟ تو کیا اس سے اس لیے نفرت کی جائے کہ وہ ہٹ دھرم اور انتہا پسند تھا اور عالمی برادری کے ساتھ نہ چل سکا ؟ یہ الزام بھی غلط ہے ۔ اس نے اقوام متحدہ کے ساتھ مل کر پوست کی کاشت کے خلاف کام کیا اور اس کے ایک حکم پر پوست کی کاشت برائے نام رہ گئی ۔ اقوام متحدہ نے اسے کامیاب ترین مہم قرار دیتے ہوئے تسلیم کیا کہ اس کا ایک ایک حکم جاری ہوا اور افغانستان میں پوست کی کاشت میں ۹۹ فیصد کمی واقع ہو گئی ۔اس کی رٹ کا یہ عالم تھا کہ ایک حکم جاری ہوا اور افغانستان جیسا معاشرہ غیر مسلح ہو گیا۔ اسامہ بن لادن کے مسئلے پر بھی اس نے راستہ نکالا ۔ اس نے کہا امریکہ ہمیں ثبوت دے ہم اسامہ کے خلاف مقدمہ چلاتے ہیں ۔ امریکہ کو ہم پر اعتماد نہیں تو ہم اسے کسی تیسرے ملک کے حوالے کر دیتے ہیں ۔ لیکن ہم اسامہ کو امریکہ کے حوالے نہیں کر سکتے ۔ آپ بتائیے اس موقف میں کیا غلط تھا؟ اس پر بے پناہ دباؤ تھا کہ اسامہ کو امریکہ کے حوالے کر دو اور اسے بھی معلوم تھا امریکہ کی طاقت کا عالم کیا ہے ۔لیکن اس نے کہا جو ہماری پناہ میں آ جائے ہم اسے یوں دشمن کے حوالے نہیں کیا کرتے ۔ ذرا غور تو فرمائیے یہ’ پشتون ولی ‘کس کی روایت تھی ۔ یہ افغان قوم کی روایت تھی۔ اس نے قوم کی روایت پر حرف نہیں آ نے دیا ۔ قوم پرست آج اسے جی بھر کردشنام دیں لیکن یہ تو مانیں جس طرح اس نے پشتون ولی کی رسم نبھائی کوئی سوچ بھی نہیں سکتا۔ پھر امریکہ اس پر حملہ آور ہو گیا ۔۔ ملا عمر کا اقتدار ختم ہو گیا ۔ وہ در بدر ہو گیا . لیکن کوئی ثابت کر دے اس نے مرتے دم تک پاکستان کے خلاف ایک لفظ بھی بولا ہو ۔ یہاں پاکستان کے خلاف پاکستانی سیاستدان بکنے سے باز نہیں آتے ۔ وہ تو پرایا تھا لیکن پاکستان کے خلاف نہیں بولا ۔ پھر یہاں پراکسی شروع ہو گئی ۔ امریکہ اور بھارت کی سرپرستی میں پاکستانی حکومت سے نالاں عناصر کو جمع کیا گیا ۔ مجرم عناصر بھی اکٹھے کیے گئے اور ان کا نام طالبان رکھ دیا گیا ۔ میڈیا کی سر پرستی میں پوری کوشش کی گئی کہ لوگوں کو بتایا جائے کہ پاکستان سے لڑنے والے یہ طالبان وہی ملا عمر والے طالبان ہیں . لیکن حقیقت مکمل طور پر یہ نہیں تھی۔ آج جب امریکہ کے سب سے بڑے غیر جوہری بم کے نتیجے میں داعش وغیرہ کے افغانستان میں ٹھکانے تباہ ہوئے تو معلوم ہوا وہاں بھارت کی خفیہ ایجنسی را کے لوگ بھی مارے گئے ۔ یہی وہ لوگ ہیں جو پاکستان سے لڑنے والے عناصر کی سرپرستی کرتے ہیں اور ان کو طالبان کہا جاتا ہے ۔ لیکن یہ ملا عمر کے طالبا ن نہیں ۔ ملا عمر کے طالبان بطور ایک گروہ کبھی پاکستان سے نہیں لڑے ۔ ملا عمر کے نام کو نام نہاد روشن خیال سیکولر بیانیہ بھلے جتنا دشنام دے لے لیکن یہ ماننا ہو گا کہ وہ پاکستان کا دشمن نہیں تھا ۔ وہ زندہ رہا تو شہرت سے دور اپنی چھوٹی سی کٹیا میں رہا ۔ مر گیا تو کسی کو معلوم نہیں کب مرا اورکہاں دفن ہے۔خوارزم شاہ سلطان جلال الدین کی زندگی بھی ایسی ہی تھی ۔ ساری دنیا چنگیز خاں سے کانپ رہی تھی لیکن سلطان جلال الدین خوارزم شاہ اس سے لڑتا رہا ۔ چنگیز خان کو زندگی میں صرف ایک بار شکست ہوئی ۔ سلطان جلال الدین کے ہاتھوں ۔ پھرایک روز وہ غائب ہو گیا ۔ کسی نے کہا مر گیا کسی نے کہا روپوش ہے ۔ آج کسی کو نہیں معلوم سلطان جلال الدین کہاں دفن ہے لیکن دنیا اسے جلال الدین مینگو باردی کے نام سے یاد کرتی ہے ۔ مینگو باردی یعنی ہمیشہ رہنے والا ۔ بہادر اپنی قبروں میں نہیں ، تاریخ کے سینے میں جیتے ہیں ۔ سکاٹ لینڈ کا سر ولیم ویلس ہو ، داغستان کا امام شامل ہو ، سر نگا پٹم کا فتح علی ٹیپو سلطان ہو ، طرابلس کا عمر مختار ہو ، خوارزم کا شاہ سلطان جلال الدین ہو یا قندھار کا ملا عمر ۔۔۔۔۔ آپ انہیں پسند کریں یا نا پسند لیکن آپ انہیں مار نہیں سکتے ۔ یہ مینگو باردی ہیں ۔ یہ زندہ رہتے ہیں ۔ آصف محمود
Sunday, 24 June 2018
روس کے خلاف جہاد اور جنرل ضیاء کی شرائط روس کے خلاف جنگ میں جنرل ضیاء الحق نے امریکہ سے جو شرائط منوائیں، سفارت کاری کی تاریخ میں وہ ایک غیر معمولی کارنامہ تھا۔ اسکا موازنہ اپنے جمہوری حکمرانوں کے امریکہ کے ساتھ معاملات سے کیجیے گا یہ ذہن میں رکھتے ہوئے کہ آج امریکہ خود پھنسا ہوا ہے۔ وہ روس کے خلاف پاکستان کی اپنی جنگ تھی اور چار سال تک یعنی 79 سے 83 تک پاکستان اکیلے لڑتا رہا۔ لیکن جب امریکہ نے اس جنگ میں کودنے کا فیصلہ کیا تب جنرل ضیاء نے اسکو اپنی شرائط پر شامل کیا۔ حالانکہ اس وقت پاکستان کو اسکی شدید ضرورت تھی اور مجاہدین تباہ کن روسی ہیلی کاپٹروں کی وجہ سے شکست کے قریب تھے لیکن بدترین حالات میں بہترین بات چیت جنرل ضیاء کی نمایاں خوبیوں میں سے ایک تھی اور امریکہ سے اس جنگ میں شمولیت کے لیے اس نے اپنی مرضی کی شرائط منوائیں۔ شروع میں جنرل ضیاء کو امریکہ نے 400 ملین ڈالر امداد کی آفر کی جسکو جنرل نے پاؤں کی ٹھوکر سے اڑا دیا کہ "ہمیں یہ مونگ پھلی کے دانے نہیں چاہئیں” یہ اس وقت کے لحاظ سے بہت بڑی رقم تھی جس پر آپ کے کسی بھی جمہوری لیڈر کی رال بہہ جاتی۔ لیکن جنرل کے پیش نظر کچھ اور معاملات تھے اور وہ مستقبل کی طرف دیکھ رہے تھے۔ امریکہ نے پوچھا کہ تم کیا چاہتے ہو تب جنرل نے مندرجہ ذیل شرائط پر معاملات طے کیے۔ پہلی شرط یہ تھی کہ یہ امریکہ نہیں بلکہ پاکستان طے کرے گا کہ اسکو کیا چاہئے اور امریکہ پابند ہوگا کہ اس ضرورت کو پورا کرے۔ امریکہ نے یہ شرط مان لی۔ دوسری شرط یہ تھی کہ امریکہ کبھی خود اس جنگ کے نزدیک نہیں آئے گا اور پاکستان جیسے چاہے گا اپنی مرضی سے اس جنگ کو کنٹرول کرتا رہے گا نیز اسلحے کی مجاہدین میں تقسیم بھی پاکستان خود کرے گا۔ جنرل نے امریکہ کو اس بات پر قائل کر لیا تھا کہ "اگر تم مجاہدین میں اسلحہ تقسیم کرو گے تو انکو آپس میں لڑوا دو گے جیسا تم نے ویت نام میں کیا تھا ” جنرل ضیاء کا یہ اندیشہ بعد میں بلکل درست ثابت ہوا جب اسکی شہادت کے بعد جمہوری بالشتیوں نے یہ کنٹرول امریکہ کے ہاتھ میں دے دیا اور امریکی ایلچی مسٹر ٹامسن نے اسلحے کی غیر مساوی تقسیم کے ذریعے مجاہدین میں آپس میں خانہ جنگی کروا دی جس کا خمیازہ پاکستان نے بھگتا۔ امریکہ کو جنرل ضیاء کی اس دلیل سے سخت نفرت تھی لیکن اسکے باوجود وہ مان گئے جس پر کئی انڈین دانشوروں نے لکھا کہ ” یہ بہت کڑوی گولی تھی جو جنرل ضیاء کے ہاتھوں امریکی انتظامیہ اور سی آئی اے نے نگلی” جنرل نے تیسری شرط یہ پیش کی کہ چونکہ ہم روس کے خلاف مزاحمت کر رہے ہیں جس کے جواب میں روس کسی بھی وقت پاکستان کے خلاف باقاعدہ جنگ چھیڑ سکتا ہے لہذا اسکے مقابلے کے لیے ہمیں جدید ترین جنگی جہاز اور اسلحہ درکار ہے۔ تب اس وقت کے لحاظ سے سب سے جدید جنگی جہاز ایف 16 پاکستان نے حاصل کیے۔ جو اس وقت صرف امریکہ، اسرائیل اور پاکستان کے پاس تھے۔ جنرل کے بعد آنے والے تمام لیڈر مزید کوئی جہاز حاصل نہ کر سکے سوائے ایک دو جہازوں کے جو آئی ایس آئی کی بعض "پھرتیوں” کی وجہ سے ملے۔ چوتھی اور سب سے اہم شرط جنرل نے امریکہ سے یہ منوائی کہ پاکستان ایٹمی پروگرام جاری رکھے گا لیکن امریکہ ہر سال اقوام متحدہ سے پاکستان کو یہ سرٹیفیکٹ دلوائے گا کہ پاکستان ایٹم بم نہیں بنا رہا۔ یہ ایک ایسی شرط تھی جس پر انڈیا اور اسرائیل میں آگ لگی ہوئی تھی، کہ جب بچہ بچہ جانتا ہے کہ کہوٹہ ” بم والی فیکٹری ہے ” تب اقوام متحدہ اور امریکہ کیسے پاکستان کو یہ سرٹیفیکیٹ دے رہے ہیں؟ اپنی اس کامیابی کی بدولت پاکستان نے نہایت برق رفتاری سے اسی دور میں ایٹم بم بنانے میں کامیابی حاصل کر لی۔ ایٹم بم کا اصل خالق جنرل ضیاء ہی تھا۔ اس جملے کے جواب میں کہ ” ضیاء امریکہ کا ایجنٹ تھا” ہم ایک ممتاز بھارتی صحافی اور دانشور جناب ایم جے اکبر صاحب کے سن 88 میں ” انڈیا ٹوڈے ” میں چھپنے والے ایک مضمون کا اقتباس پیش کرتے ہیں ۔۔۔۔ "صدرضیاءالحق کسی نہ کسی طرح امریکہ کے ساتھ دوستی اپنی شرائط پر قائم رکھنے میں کامیاب ہو چکے ہیں ۔ صدر ضیاءالحق کا یہی امتیاز ہے کہ پاکستان کے تمام سول اور فوجی حکمرانوں میں واحد ہیں جنہوں نے پاکستان کے کسی موءقف میں ذرا بھی لچک پیدا کیے بغیر امریکہ سے اپنے معاملات کو درست رکھا” سخت ضرورت کے باوجود جنرل ضیاء نے ان حالات میں امریکہ سے جو شرائط منوائیں سفارت کاری کی تاریخ میں وہ یقیناً ایک غیر معمولی کارنامہ تھا۔ جب تعصب اور عجیب و غریب قسم کے جمہوری فلسفوں سے لوگوں کو آزادی ملی گی تب ضیاء کے ان کارناموں کو ضرور تسلیم کیا جائے گا۔
Saturday, 23 June 2018
9/11 سے خرا سان کے کالے جھنڈون تک کفّار میں سب سے زیادہ غلیظ اور بد ترین کافر یہودی ہیں ۔ جو اپنے کفر پر سب سے زیادہ کار بند ہونے کے ساتھ ساتھ روءے زمین پر اسلام اور مسلمانو ن کے سب سے بڑ ے دشمن اور شیطان کے صف اول کے پیرو کار ہیں۔ شیطان نے جب آدمؑ کو سجدہ کرنے سے انکار کیا تو اپنےحسد اور بغض کی وجہ سے براہ راست اللّه کو چیلنج کیا کے میں آدمؑ کو گمراہ کر کے چھوڑ و نگا ۔ آدمؑ کو جنت سے نکلوا نے کے بعد سے لے کر آج تک شیطان انسان کا سب سے بڑا دشمن ہے ، اور ھر دور میں ھر قسم کی چالوں اورفتنون سے انسان کو اپنے رب کی اطاعت سے بٹکھاتا ہوا آیا ہے دور جدید میں شیطان کا سب سے بڑا فتنہ دجال ہے جسکے شر اور فتنے سے صحابہ کرام ؓ بھی پناہ مانگتے تھے ۔ اس وقت یہودی دجال کے سب سے بڑے پیروکار ہیں ۔ ڈک چینی اور ہنری کسنجر جیسے یہودی براہ راست دجال سے ملاقاتین کرتے ہیں اور اس سے آرڈر لے کے پوری دنیا کو کنٹرول کرتے ہیں ۔ خدائی کا دعوی کرنے اور انسانو ن کو گمراہ کرنےکے لیے دجال نے نیو ورلڈ آرڈر کے نام سے ایک جنگی حکمت عملی ترتیب دی ہے جس میں دجال کے لیے عالمی سلطنت بنانے کے ساتھ ساتھ دنیا کے تمام قیمتی زخایر سمیت صنعت تجارت بینکاری پر کنٹرول حاصل کرنا بھی ہے ۔ دجال کے لیے اسرائیل میں عالمی ایئر پورٹ کے ساتھ ساتھ ایک مظبوط قلعہ بھی تعمیر کر لیا گیا ہے جہان سے دجال پوری دنیا پر حکومت کرے گا ۔ شیطان کو اچھی طرح پتہ ہے وہ جو کچھ بھی کر لے اللّه اپنے محبوب بندوں کو کبھی بھی تنہا نئی چھوڑے گا اور انکی مدد کے لیے اپنے خلیفہ امام مہدی کو مسلمانو ن کی مدد کے لیے ضرور بھیجے گا اس لیے دجال نے اپنی تمام قو توں اور فورسز کو 9/11 ڈرامے کے بعد خراسان یعنی افغانستان کو کنٹرول کرنے کے لیے بھیج دیا ہے ۔ دجال کو پتہ ہے کے خراسان سے ایک لشکر اس سے لڑنے کے لیے آے گا ۔اس حوالے سے حضورؐ کی مشہور حدیث بھی ہے جسکے مطابق خراسان سے کالے جھنڈے اٹھینگے اور یروشلم میں گاڑھ دیے جائینگے ۔ اس وقت دجالی فورسز افغانستان میں پوری قوت سے مو جود ہیں اور وہان پر افغان آرمی اور خوا رج کے نام سے بڑے لشکر بھی تیار کر کر لیے ہیں ۔ دجالی قوتین اس وقت پوری کوشیش کر رہی ہیں کے کسی طرح سے مہدی کا پتہ چلا کے اسے وقت سے پہلے ختم کیا جائے ۔ مو جودہ صورت حال کے مطابق اس وقت پوری دنیا میں دجا لی قوتون کو %80 کامیابی مل چکی ہے ۔ باقی % 20 کامیابی انکو اس لیے حاصل نئی ھو رہی کیو نکے انکی راہ میں پاکستان کی آرمی سب سے بڑی روکاوٹ ہے ۔ پاکستان آرمی کی وجہ سے انکو نہ تو اسلامک بم تک رسائی مل رہی ہے اور نہ انکو خراسان پر کنٹرول حاصل ھو رہا ہے ۔ دجال اور انتظار نئی کر سکتا اس لیے دجالی قوتین پوری قوت سے پاکستان پر حملہ آور ھو گئی ہیں اسلام بیزار طبقہ سیاست دان حوارج بڑے بڑے سرمایا دار صنتکار نام نہاد آزادی اور حقوق کی تحریکیں العرض تمام چھوٹے بڑے فتنے ابھر کے سامنے ا چکے ہیں جنکا ٹارگٹ صرف پاک آرمی ہے ۔ حق اور باطل کی لڑائی اپنے عروج پر پہنچ چکی ہے ۔ان حالات میں پاکستان کی بہادر افواج اور غیور عوام کو یہ خو شحبری دیتا ھوں کے مبارک ھو تمھیں دنیا کی آمامت کے لیے چن لیا گیا ہے اللّه نے تم لوگوں سے جو بڑا کام لینا تھا اسکا وقت ان پہنچا ہے اپنی کشتیان جلا دو سیسہ پلا ی دیوار بن جاو اپنی صفوں میں موجود دجال کے پیرو کارون کو نشان عبرت بنا کے کاٹ ڈالو ایک امت بن جاو اللّه کا خلیفہ بہت جلد انے والا ہے انشاء اللّه ہم خراسان سے اٹھ کے پوری دنیا پر چھا جائینگے اور اللّه کی زمین پر اللّه کا نظام قائم کرینگے جہان صرف ایک خلافت ھو گی ایک نظام ھو گا اور صرف اللّه اور اللّه کا نظام سپر پاورھوگا پاکستان زندہ باد ۔ ۔ پاکستان آرمی پا یندہ باد احتشام الحق
شہادت کے اس واقعہ نے مجھے جنجھوڑ کے رکھ دیا شہید میجر علی خان چنگیزی کو سلام۔ 1845 بجے میجر چنگیزی کو سی ایم ایچ لایا گیا انکو دو گولیاں لگی تھیں۔ایک گولی کندھے میں لگی تھی اور دوسری اینٹی ائیرکرافٹ گن کی گولی تھی جو پیٹ کے بائیں جانب سے لگی اور پیٹ چیرتے ھوۓ دائیں جانب سے نکل گئ۔بہت زیادہ خون بہہ رہ تھا اور زخم انتہائ تکلیف دہ تھا۔ مجھے بھی اس طرح کا تجربہ ھو چکا تھا۔ لیکن میجر چنگیزی کی جو تکلیف تھی میری تکلیف شائد اس کا ایک فیصد بھی نہ تھی۔ جب میجر چنگیزی کو سی ایم ایچ لایا گیا تو اس نے ڈاکٹر سے پوچھا " روزہ افطار ھو چکا ھے۔ میرا روزہ ھے"ـ ڈاکٹر نے جواب دیا ابھی 1845 بجے ھیں اور افطار میں کچھ وقت باقی ھے۔ تھوڑی دیر کے بعد میجر چنگیزی نے پوچھا " کیا میں ٹھیک ھو جاؤں گا"ـ ڈاکٹر نے جواب دیا آپ بلکل ٹیک ھو جائیں گے۔ خون بہت تیزی سے ضائع ھو رہا تھا اور جو خون کی بوتل لگی ھوئ تھی اس کی نسبت زیادہ خون بہہ رہا تھا۔ پھر مغرب کا وقت ھوا ۔ ڈاکٹر آیا اور بولا " سر روزہ افطار ھو چکا ھے۔ میجر چنگیزی نے ایک کھجور منہ میں ڈالی اور چند منٹ بعد بے ہوش ھو گۓ۔ جس کے بعد پھر کبھی ہوش میں نہ آۓ۔ کیا بہادر شخص تھا شائد ملک الموت بھی روزہ افطار کے انتظار میں تھا۔ میجر چنگیزی نے دوستوں، فیملی یا پیسوں کے متعلق کوئ بات نہ کی صرف افطار کے متعلق بات کی۔ یہ وہ لوگ ھیں جو ہماری سرحدوں کا دفاع کرتے ھیں اور ہماری حفاظت کے ذمہ دار ھیں۔ اسی طرح ہزاروں لوگ اپنی جان کا نزرانہ پیش کر چکے ھیں۔ جس میں معصوم شہری بھی شامل ھیں۔ کسی کو آپ کا علم، پیسہ یا شہرت یاد نہیں رہتی لیکن وہ مقصد ضرور یاد رہتا ھے جس کے لۓ آپ نے عمر گزاری۔ اور جس مقصد کے لۓ آپ نے کوشش کی ۔ ہمارا نصب العین پاکستان ھے۔ ہم وطن کے بغیر کچھ نہیں۔ کچھ بھی نہیں۔ اپنی سیاسی جاعتوں کی وابستگی اور سیاسی اختلافات کو بالاۓ طاق رکھتے ھوۓ پاکستان کی خدمت کریں۔ اپنے لیڈر کے لۓ نہیں پاکستان کے لۓ جذباتی ھونا چاھۓ۔ لیڈر کی ملک کے سامنے کوئ اوقات نہیں ھوتی ۔
Tuesday, 19 June 2018
اگر ایرانی انٹیلجینس کا یہ دعوٰی درست ہے کہ امریکہ نے داعش کے سربراہ کو افغانستان میں لنچ کر وا دیا ہے۔ تو یقیناً پاک آرمی کی افغان سرخد پر باڑھ لگانےکےمنصوبےکیلئےخطرےکی گھنٹی بچ چکی ہے۔ داعش کی دہشت،بربریت اور جنگی فن سب دیکھ چکےہے۔ پاکستان کو قابو کرنےکیلئےامریکہ کایہ آخری پتہ تھا جو اس نےمیدان میں پھینکاہے اب افعان سرزمین سےپاکستانی سرحد پر حملے شروع ہونےوالےہیں جسکا دردناک نظارہ ہم عید سےپہلےجوانوں کی شہید لاشوں کی صورت میں دیکھ بھی چکےہے۔ اب سوال یہ ہے کہ پاک آرمی اور آئی ایس آئی جس نےبہت چیلنجز کا بہادری سے مقابلہ کرکے پاکستان کو اب تک بچا کر آئےہیں۔ کیا اس امتخان میں بھی کامیاب اتریں گے۔؟ انشاء الله کامیاب ھو گے اپکی دعا چاہیے میرے گمنام مارخورو، پاکستان زندہ باد پاک آرمی زندہ باد
Sunday, 17 June 2018
پاکستان میں کچھ لوگ ملا فضل اللہ کے مارے جانے پر بہت خوشی منا رہے ہیں۔ مگر کیا آپ کو پتا ہے کہ اتنا عرصہ بعد امریکہ کو کیوں ضرورت پیش آئی کی پاکستان کے دشمن کو مروا دے ۔ ؟؟؟ امریکہ کے پاس جب ایک وفادار ہو تو دوسرے کی ضرورت نا ہوتے ہوئے۔اور اپنے راز کھلنے کے ڈر سے پہلے وفادار کو مروا دینا ہی امریکہ بہادر کی عقل مندی ہے۔ امریکہ نے جب دیکھا کے ویپن یوز کرنے سے پاکستانی فوج کو ذرا ڈر نہیں اور الٹا اپنا نقصان کروا بیٹھا ۔ اس نے ایک نیا مہرہ چھوڑ دیا جس کو افغانستان ، انڈیا اور اسرائیل سے مکمل حمایت کی یقین دہانی کروائی گی۔ ملا فضل اللہ نے ابھی امریکہ سے کچھ ڈیمانڈ کی تھی ۔ کہ آپ کی پیچھے ہم کہیں کے نہیں رہے۔ اب یا تو ہمیں امریکہ بلاؤ یا پھر افغانستان کا شہری بناؤ اور ہمیں مکمل تحفظ دیا جائے۔ آپ نے چونکہ اب منظور کو لانچ کر دیا ہے تو میرا دانا پانی کہاں سے چلنا ہے۔ امریکہ بہادر نے اسے لارا لگایا کہ منظور تمہارا حمایتی بنے گا اور تم لوگوں کو وہیں بھیجا جائے گا جب پاکستان سے پٹھان علاقہ توڑ کر الگ کر دیا گیا۔ ملک فضل کیونکہ جانتا تھا کہ پاکستانی فوج ایسا کبھی بھی ممکن نہیں ہونے دے گی۔ اس نے کہا ۔ ٹھیک ہے تب تک مجھے افغانستان کا شہری بنا دو ۔ جب ملک توڑ لیا تم لوگوں نے تو میں وعدہ کرتا ہوں وہاں چلا جاؤں گا ۔ امریکہ بہادر نے اسے کہا ٹھیک ہے کچھ عرصہ رک جاؤ یہی کریں گو جو تم نے بولا ۔ اور ابھی بھی تم ہماری پناہ میں ہو کیا ڈر ہے تمہیں۔ منظور جب تک مضبوط نا ہوجاتا پہلے والا مہرا کام دے سکتا تھا۔ منظور کو عالمی منڈی میں سہی طور کیش کرایا گیا اور جہاں تک ہوسکتا تھا امریکہ اسرائیل انڈیا اور افغانستان نے منظور کو پروموٹ کرنا شروع کردیا۔ لاکھوں فیک آئیڈیز بنائی گئیں اور لاکھوں پیجز گروپس بنائے گے جن میں سے ایک بھی پاکستان سے نہیں چلایا جا رہا ۔ منظور کو ہائیلائیٹ کرنے کے بعد امریکہ بہادر نے نشانہ ڈھونڈنا شروع کر دیا اور ملا فضل اللہ کو مروا کر پاکستان کے ساتھ دوستی کا تقاضہ پورا کر دیا ۔ مگر ایسے دوست سے وہ دشمن اچھا ہے جو سامنے سے وار کرتا ہے۔ آپ کو کیا لگتا آئی ایس آئی کو یہ سب رپورٹ نہیں تھی ؟؟؟ ان کو سب پتا ہے۔ اور آپ کے اگلے پلان جو ابھی تک لانچ نہیں کیا اس کا بھی پتا ہے۔ ہمیں فخر ہے اپنے جوانوں پر ۔ اللہ میرے گمنام مجاہدوں اور بھائیوں کی حفاظت فرمائے اور وہ ایسے ہی دشمنوں کے منصوبے کو خاک میں ملاتے رہیں۔
Thursday, 14 June 2018
شرارتی لڑکے اور پتھروں کا دور!!! جنوری 2018 کی یکم کو ہمیں دینا تھا لیکن امریکہ یعنی ٹرمپ کو ملا سرپرائز کہ وہ لٹ چکا, برباد ہوا اور اس کو لوٹنے اور برباد کرنے والے اور کوئی نہیں بلکہ وہ تھے جن کو بش نے 9112001 کے بعد اس طرح منایا تھا کہ "دینی یا تھانے جانا ہے؟"۔ "ساتھ دو ورنہ پتھروں کے دور میں لوٹادیں گے۔" سامنے فرمائش نما حکم سننے والا اس وقت کا آرمی چیف اور صدر پاکستان اور تاریخ پاکستان کا متنازعہ ترین شخص جناب جنرل پرویز مشرف تھا۔ جس نے یہ "دھمکی" سنی اور فوراً "لم لیٹ" ہوکر کہا کہ "سوہنیو" غصہ کیوں اور کس لیئے جی؟ جب "ساتھ" کے ملک میں "پتھروں کا ڈھیر" موجود ہے تو ایک ہنستے بستے "کمزور" ملک کا تیا پانچہ بغیر کسی وجہ "چہ معنی دارد"؟ امریکی خوش ہوئے کہ یہ صاحب بہادر جو کہتے ہیں کہ "ڈرتا ورتا کسی سے نہیں" ہماری ایک "کال" پر ہی "بچھ" گئے۔ کہتے ہیں جب گیڈر کی شامت آتی ہے تو وہ شہر کا رخ کرتا ہے اور جب کسی سوپر پاور کی مت ماری جائے تو وہ پاکستان کے اطراف میں ڈیرے جمالیتی ہے۔ بابا جی حمید گل کہتے کہتے چلے گئے کہ تاریخ لکھے گی کہ ہم نے روس کو امریکہ کی مدد سے ہرایا (یاد رہے افغان جنگ خالص ہماری تھی روس کے خلاف اور امریکہ ہمارا ٹشو پیپر بنا تھا, الحمدللہ) اور پھر مورخ دوبارہ تاریخ مرتب کرتے وقت مجبورہوگا یہ لکھنے پر کہ پاکستان نے امریکہ کو امریکہ کی مدد سے شکست سے دوچار کیا تھا۔ تو مشرف نے حمید گل والی بات کو شاید دل میں گرہ لگا رکھی تھی کہ موقع ملا تو بدلے چکانے ہیں۔ خیر امریکہ لڈیاں اور جھومر بنگھڑے ڈالتا ہوا افغانستان میں براستہ پاکستان اترا لیکن پھر جو وہ تب سے اب تک وہاں "پتھروں" سے سر ٹکرا رہا ہے تو اس کو یہ بھول چکا ہے کہ وہ یہاں "دینی یا تھانے جانے" جیسی دھمکی کے زیر اثر ایک پوری ریاست کو قابو کرنے آئے تھے لیکن یہ کیا ہوا سرکار؟ جن کی "بجانے" آئے تھے وہ "پیچھے" کھڑے ہیں جبکہ امریکی ان کے "آگے" کھڑے ہیں اور "ہاتھ" سامنے والی "دیوار" پر ٹکے ہیں جبکہ "سر" شرمندگی سے جھکا ہوا اور "کمر میں بل" ہے یعنی ایک قوم کے ہاتھوں بیوقوف بن گئے ہیں اور کرتے کرتے سولا سال کا عرصہ گزرگیا اور بندہ تبدیل ہوا جو کہ "دینے اور تھانے" جیسی اصطلاحات سے اچھی طرح واقف ہوچکا تھا کو احساس ہوا کہ اوئے تیری یہ تو سالا ہمیں "تھانے" بھی لے آئے اور "زور و شور" سے "لے" بھی رہے ہیں اور ساتھ ساتھ "بل" ہاتھ میں تھما کر "پیسے" بھی "وصول" رہے ہیں۔ چچ چچ چچ یہ تو فول ہوگیا ہمارے ساتھ, صدی کا بہت بڑا دھوکہ ہوگیا, تیتس ارب ڈالر کا چونا لگ گیا اور ہاتھ نہ تیتر لگا نہ بٹیر اور ہم سمجھتے رہے کہ یہ ہماری جنگ ہے جو ہم پاکستان سے لڑوارہے ہیں لیکن دراصل یہ تو پاکستان کی ہی جنگ تھی جو ہم اسی کی دہائی سے لڑنا شروع ہوئے اور اب تک لڑ لڑ کر سوائے ہار اور حزمیت کے کچھ ہاتھ نہیں آرہا۔ چلوجی پھردھمکی دھمکی کھیلتے ہیں تو نئے امریکی صاحب نے فرمائش دہرائی کہ جی مزہ نہیں آرہا تو "ڈومور" لیکن اب "پچھلے" ہر بار "ڈومور" کی "فرمائش" پر "مزے" کرواتے کرواتے "تھک" اور "اکتا" چکے تھے جس کا احساس بھی امریکہ کو ہوچکا تھا فرمائش دہرانے سے پہلے بس منہ سے سننا چاہتا تھا جو پھر سننے کو ملا کہ جی حضور کیا کہا؟ ڈو مور؟ نا جی نا ہن نو مور نو کبوتر۔ ۔ ۔ اب پاکستان خود انحصاری اور خودمختاری کی شاہراہ پر رواں دواں ہے لہذا تم چنگڑ چوڑے اپنا بستر گول کرکے امریکہ کی بس پکڑو مترو۔ مشرف سترہ سال بعد قوم کے عالی دماغوں کو سمجھانے میں اور یقین دلانے میں کامیاب ٹھہرا کہ تب ادھوری سدھوری میزائیل ٹیکنالوجی, شاپروں میں پڑی ایٹمی ٹیکنالوجی اور امریکی ساختہ ایف سکسٹین وغیرہ وغیرہ کے ساتھ پاکستان سوپرپاور سے براہ راست جنگ کا متحمل نہیں ہوسکتا تھا لہذا یہ جنگ شیروں (MI) اور مارخوروں (ISI) سے الگ الگ طریقے سے کسی دوسری سرزمین پر لڑنی پڑے گی, کیا کریں گندا ہے پر دھندا ہے۔ جنگ کا تخمینہ پہلے لگایا جا چکا تھا کہ اگر اپنے گھر میں لڑتے ہیں تو گیم صرف چوبیس گھنٹے کی ہوگی اور نقصان یکطرفہ ہوگا جس میں کم سے کم ستر لاکھ اور زیادہ سے زیادہ سات کروڑ قیمتی جانوں کے ضیاع کے ساتھ کھربوں کا مالی نقصان علاوعہ تمام دفاعی و ایٹمی تنصیبات سے ہاتھ دھونا ہوتا۔ دماغ لڑائے گئے اور یہ طے ہوا کہ یہ تخمینہ یوں ہو سکتا ہے کہ جانی نقصان کا ہندسہ کسی صورت لاکھ سے زیادہ نہ ہو اور مالی نقصان کاہندسہ اربوں میں ہو بھی جائے تو خیر ہم وہ وصول کرلیں گے سود سمیت اور میدان اپنا گھر ہرگز نہ ہو تو ایک لاکھ قربانیوں کے ساتھ جنگ کا دورانیہ چوبیس گھنٹے سے بڑھا کر من چاہی مدت ہوسکتا ہے۔ یاد رہے ایسا کرنا ہی واحد آپشن تھا کہ مقابلہ ایک اور سو کا تھا اور ٹیکنالوجی و وسائل کا تو آٹے اور نمک والا تناسب تھا امریکہ اور پاکستان کا اس وقت۔ بہرحال جنگ سے منہ نہیں موڑا گیا خواہ اسکو امریکہ نے اپنی دہشت گردی کے خلاف جنگ کہہ کر ہی آغاز کیا ہو لیکن "بزدل کمانڈو" اور آل ان آل کمانڈر نے بساط بچھا کر مہرے سرکانے شروع کیئے۔ افغانستان میں "ایم آئی" کو امریکہ کے ڈسپوزیبل پر دے دیا "آنکھ" مارکر اور ادھر "شرارتی لڑکوں" عرف "مارخوروں" المعروف "آئی ایس آئی" کو ان کے پیچھے روانہ کردیا براہ راست اپنی کمانڈ میں رکھ کر۔ اب صدی کی ہی نہیں بلکہ تاریخ کی سب سے پیچیدہ اور خطرناک جنگ کا آغاز کردیاتھا تو پیٹھ موڑنا یا میدان خالی چھوڑنا ناممکن تھا۔ ادھر کمانڈو ایم آئی سے "پتھروں" کی نشاندہی کروادیتا امریکنوں کو اور ادھر "شرارتی لڑکوں" کے ہاتھ میں وہی "پتھر" تھما دیتا یہ حکم دے کر کہ ان "پتھروں" سے ان "امریکی گدھوں" کا "سر"پھوڑ دو,نشانہ سر سے کم بلکل نہ ہو ورنہ خیر نہیں۔ اس جنگ کا نتیجہ خود بتارہا ہے کہ پتھروں کا دور کن کو دیکھنا پڑا اور کن کی ٹکریں افغانستان کے ہر پتھر سے مروائیں ہیں شراشرتی لڑکوں نے۔ بہرحال امریکہ کی مدد کو بھارت اور نیٹو کودے کہ جی ہم امریکہ کو "تھانے" سے"باعزت" رہا بھی کروائیں گے اور "شرارتی لڑکوں" کو "سبق" بھی سکھائیں گے جنہوں نے "بیچارے امریکہ" کو "کوڈا" کرکے "کانا" کرچھوڑا ہے خطے ہی کیا پوری دنیا میں۔ یہ بات تو طے ہے کہ جنگ تباہی کا دوسرا نام ہے اور جب جب دو اجسام یا قوتیں ٹکراتی ہیں تو آس پاس "کولیٹرل ڈیمیج" ہونا سوفیصد طے عمل ہے یہ کوئی الحادی بگ بینگ تھیوری تو ہے نہیں کہ انجام تخلیق کی صورت نکلے۔ ہاں ہمیں اس جنگ کا حصہ بننے میں 75 ہزار قیمتی جانوں کا نذرانہ دینا پڑا اور اربوں مالیت کا انفراسٹرکچر تباہ کروانا پڑا جس کی قیمت ہم وصول بھی کرچکے ہیں کچھ حصہ اور مزید بھی ان شاء ﷲ وصولیں گے۔ لیکن کیا یہ گھاٹے کا سودا تھا؟ کیا واقعی مشرف کا یہ قدم یہ فیصلہ غلط تھا؟ کیا چالیس لاکھ نفوس کی قربانیوں سے حاصل کردہ ملک پر پچھتر ہزار نفس مزید قربان کرکے بیس کروڑ نفوس کو بچانا اور ملک کو استحکام دینا جرم ہے؟ کیا ہمارے مذہب ہمارے اللہ اور رسول صل اللہ علیہ والہ وسلم نے یہ نہیں کہا کہ خون کا بہا امت کی سلامتی ہے؟ کیا جہاد کا مطلب آمنے سامنے کی کھلی جنگ ہی ہے؟ کیا اس وقت اس واحد آپشن کے علاوعہ کوئی اور عقل مندی والا آپشن موجود تھا؟ کیا ہماری دفاعی اور معاشی اور افرادی طاقت اسقدر جدید خطوط پر استوار تھی کہ پچاس پاکستانوں پر مشتمل ایک ملک سے جنگ لڑ کر ہم نقشے پر رہتے؟ ہاہاہاہا اب افغانستان کی مثال مت دینا کہ وہاں ہم ہی ہیں اور تھے جو وہ بھی موجود ہے ورنہ افغانی اپنے دم پر ایک اینٹ کی بھی حفاظت کے قابل نہیں یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے۔ اب کہو گے کہ یہ جو طرح طرح کی تحاریک اور پراکسی جنگیں پاکستان میں چل پڑیں ہیں ان کا ذمہ دار پاکستان خود ہے بلکہ سیدھا الزام فوج اور ایجنسیوں پر ہی لگاؤ گے تو سن لو یہ وہ آخری پڑاؤ اور آپشن بچا ہے امریکہ بھارت اور نیٹو کے پاس کہ وہ خطے سے سرخرو ہوکر اور بدلہ لیکر نکل سکیں۔ وجہ اس کی تم جیسے ٹٹو پشتینوں, ولیوں, اچکزئیوں, نوازوں, مریموں, فضلوں, الطافوں اور براہمداغوں کا اس ملک میں باعزت اقتدار میں رہنا ہے ورنہ کسی کی جرات ہی نہیں تھی اور نہ ہوتی کہ وہ ہمارے گھر میں سے غداروں کا ہجوم کھڑا کرکے ہمیں ہی للکارتا کہ اب آؤ میدان میں اور لڑو جنگ۔ دشمن نے خود ہمیں میدان میں اچھے سے دیکھ لیا کہ وہ ہماری گرد کو بھی چھو نہیں پاتا جبکہ ان کی زمین ہم سرکا دیتے ہیں بفضل خدا الحمداللہ ۔ لیکن جب خنجر بازسامنے بھائی ہو اور وہ دشمن کا آلہ کار ہوتو دماغ اور دل گومگوں کی کیفیت میں پھنس جاتا ہے کہ اب کیا کروں کہ زندہ چھوڑوں تو قوم کٹے گی اس خنجر سے اور اگر کاٹ ڈالوں تو قوم بٹے گی اس قتل سے کہ ہم نے زیادتی کرڈالی جبکہ دونوں صورتوں میں دشمن فتح یاب ٹھہرے گا بغیر کسی جانی اور مالی نقصان کے۔ اے میرے اہل وطن اہل دین بھائیوں اور بہنوں خدارا ہر طرح کے سیاسی, لسانی اور مذہبی تفرقے سے باہر نکل آؤ وقت رہتے ورنہ ہمارا نام بھی نہ ملے گا تاریخ کے پنوں پر ڈھونڈھنے سے بھی۔ جو جنگ ہم جیت گئے ہیں اس کو آخری لمحات میں ہار میں تبدیل مت کرو اور نہ دشمن کو موقع دو کہ وہ کامیابی کا سہرا سجاکر واپس لوٹے۔ "شرارتی لڑکوں" نے جو "پتھروں کے دور" میں دشمن کا سر ان ہی "پتھروں" سے "پھوڑا" ہے اور ساتھ ہی "عقل" پر "بٹے" لگائے ہیں دشمن کے وہ تم مت ہٹاؤ اور مت "مرہم پٹی" کرو آپسی جھگڑوں اور فتنوں کو دشمن کی شہہ پر بڑھا کر۔ اللہ امت مسلمہ اور پاکستان کی حفاظت فرمائے۔.! ~Marwan Sabeel~ 🇵🇰
Tuesday, 12 June 2018
*آئی ایس آئی کو پاکستان کی سیاست میں بھرپور دخل دینا چاہیے!* *کیوں اس پر اعتراض ہے آپ کو؟* جب بھارت، امریکہ اور افغانستان کی خفیہ ایجنسیز پاکستان کے سیاستدانوں کو خرید سکتی ہیں، الیکشن میں پیسہ لگا سکتی ہیں، تو پھر آئی ایس آئی پر تو لازماً فرض ہےکہ ملکی مفاد میں سیاست میں دخل دے جس دن پاکستان کے سیاستدان، پاکستان سے غداری ترک کردیں گے، راء اور سی آئی اے کی مدد سے الیکشن میں دھاندلی بند کردیں گے، تسلی رکھیں، اس دن سے فوج اور آئی ایس آئی بھی سیاست میں انکی راہ روکنا بند کردے گی۔ تب تک کیلئے اپنے منہ بند رکھیں!!! جن کو آئی ایس آئی کی سیاست میں دخل دینے پر اعتراض ہے ،وہ پہلے ان سیاستدانوں کو پٹہ ڈالیں کہ جو را ,این ڈی ایس اور سی آئی اے کے کہنے پر ملک و قوم سے غداری کے مرتکب ہوتے ہیں۔ میمو گیٹ، زرداری ، نواز شریف، الطاف حسین ، اسفندیار اور اچکزئی کے راء اور سی آئی اے سے رابطے حلال ہیں کیا۔۔۔؟؟؟ اچھی طرح سمجھ لیں کہ آئی ایس آئی ”مارخور“ ہے، یعنی آستین کے سانپوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ پر پکڑنا اور ہلاک کرنا، اس کی ڈیوٹی ہے، چاہے یہ سانپ ٹی ٹی پی کے ہوں، ایم کیو ایم میں، زرداری کے گینگ، پارلیمان میں مسلم لیگی یا میڈیا میں راء اور سی آئی اے والے ۔ 1971 ءمیں راءمکمل طور پر پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کو خرید چکی تھی۔ شیخ مجیب الرحمن کی غداری اگرتلہ سازش کیس میں سالوں پہلے پکڑی جاچکی تھی۔ جب غداروں کو پھانسیاں دینے کے بجائے الیکشن میں جتوایا جائے، تو پھر ”سقوط ڈھاکہ“ ہی ہوتے ہیں۔ امریکا میں الیکشن سی آئی اے کی مرضی کے بغیر نہیں جیتا جا سکتا ، روس میں کے جی بی حکومت بنواتی ہے ، برطانیہ میں ایم آئی فائیو کی طاقت کا کس کو نہیں پتا ، انڈیا میں را کی مرضی کے بغیر کوئی سیاستدان بیان تک نہیں دے سکتا ، لیکن اگر ایسا آئی ایس آئی کرے تو سب منہ پھاڑ کر گالیاں دیتے ہیں فرق یہ کہ ان ممالک میں اتنی اجازت نہیں کے فوج اور ایجنسیز پر تنقید کر سکیں، جیل بھیج دیا جاتا ہے، سکینڈل بنا دیا جاتا ہے ، کیریئر ختم کروا دیا جاتا ہے ایکسیڈنٹ میں مروا دیا جاتا ہے لیکن یہ سہولت بھی ہماری فوج اور آئی ایس آئی نے دی ہوئی ہے ہمارے ملک میں سب کو کہ دل بھر کر تنقید کرو گالیاں دو دفاعی اداروں کو . امریکا میں حال ہی میں ریٹائر سی آئی اے ڈائریکٹر کو امریکا کا سیکرٹری اف اسٹیٹ بنایا گیا ہے، اسرائیل کے فوج کے کافی لوگ سیاست میں ہیں گورنمنٹ میں، کہیں پر شور سنا کے ایسا کیوں ؟ لیکن اگر آئی ایس آئی کے ریٹائر لوگ حکومت میں لگائیں جائیں تو پاکستان میں اور دنیا میں شور سنیں یہ قائدہ بہت اچھی طرح سمجھ لیں۔ فوج اور آئی ایس آئی صرف اس وقت سیاست اور الیکشن میں دخل نہیں دینگے کہ جب غیر ملکی دشمن خفیہ ایجنسیاں بھی دخل نہ دیں۔ جب سیاستدان غدار ہوں، تو محب وطن ”مارخور“ کو مجبوراً سیاسی بساط میں بھی دشمنوں کو شکست دینی پڑتی ہے۔ یہ میسج سب کو فارورڈ کر کے لوگوں میں آگاہی اور معلومات پھچانے میں اپنا کردار ادا کریں
مجھے یاد ہے جب امریکہ نے عراق پر حملہ کیا تھا ۔ ہم سنتے تھے کہ عراق کے پاس ایک مضبوط فوج ہے ۔ مجھے امید تھی کہ عراقی فوج بے شک امریکہ کے مقابل کمزور سہی مگر ایک بھرپور مزاحمت کرے گی ۔ مگر بس یہی خبریں سننے کو ملیں کہ امریکہ عراق کے فلاں علاقے میں گھس گیا اور کوئی مزاحمت نہ ہوئی ۔ ایک ایک کر کے امریکہ عراق کے تمام علاقوں میں گھس گیا ۔ عراقی فوج کہاں گئی کسی کو نہیں پتہ ۔ امریکہ نے عراق پر حملے سے پہلے عراقی عوام کو ان کی اپنی فوج کے خلاف کر دیا ۔ پہلا ہتھیار جو استعمال کیا گیا وہ میڈیا تھا ۔ اس میڈیا کے ذریعے عراقی فوج کے مظالم کی تشہیر کی گئی اور پھر اسی عوام سے ہمدردی کی آڑ میں عراق فتح کیا ۔ پھر جو ظلم عراقیوں پر امریکیوں نے کیا وہ ایک الگ کہانی ہے ۔ ایک ہی سازش ہے جو ہر قوم پر بار بار دہرائی جاتی ہے ۔ آج پاکستان پر منظور پشتین کے راستے وہی سازش دہرائی جا رہی ہے ۔ ایسے بیوقوفوں کی آج بھی کمی نہیں جو سمجھتے ہیں کہ جب امریکہ حملہ کرے گا تو پشتونوں کے حق میں آواز بلند کرنے والا منظور پشتین ان کے خلاف بھی لڑے گا ۔ جی نہیں ۔ منظور پشتین جیسے لوگ صرف اپنوں کے خلاف ہی جہاد کرتے مر جاتے ہیں ۔ جب امریکہ حملہ کرے گا تو مزاحمت صرف پاک فوج ہی کر سکتی ہے ۔ منظور پشتین جیسے لوگوں کا کام صرف امریکی راہ سے فوج جیسے کانٹوں کا صفایا کرنا ہوتا ہے ۔ پھر جب فوج نہ رہے گی تو ایک ایک کر کے امریکہ پاکستان کے تمام علاقوں میں گھسے گا ۔ آپ کے گھروں میں امریکی فوجی گھسیں گے ۔ آپ کا مال لوٹیں گے ۔ آپ کی عورتوں کی عزت پامال کی جائے گی ۔ آپ کے مردوں کے گلے کاٹے جائیں گے ۔ منظور پشتین اس وقت آپ کو کہیں نہیں ملے گا ۔ میرے پیارے ہم وطنوں میری اپ سے ایک درخواست ہے اس وقت اپ کے بھائی آپ کے بیٹے اس پاک سرزمین کے رکھوالے دشمن کے سامنے تنہا کھڑے ہیں ان کو اپ کی ضرورت ہے اپ کے پیار کی اپ کی دعاؤں کی ضرورت ہے اپ بتا دیں دشمن کو کہ تم جتنی بھی کوشش کر لو ہم اپنی افواج کے ساتھ کھڑے ہیں اور انشاءاللہ آخری سانس تک اپنے فوجی بھائیوں کے ساتھ ہیںWe_Are_Stand_With_Pak_Army_&_Isi i
Monday, 11 June 2018
پاک بحریہ کے سی کنگ ہیلی کاپٹرز نے شمالی بحیرہ عرب میں ڈوبنے والی ایرانی کشتی کے عملے کو بچا لیا، پاک بحریہ کے جہاز پی این ایس نصر نے بھی سرچ اینڈ ریسکیو آپریشن میں مدد فراہم کی۔ اسلامی جمہوریہ ایران کی الرحمانی نامی کشتی کے ڈوبنے کی اطلاع ملتے ہی پاک بحریہ نے فوری ردِ عمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے سرچ اینڈ ریسکیو آپریشن کا آغاز کیا۔ ایرانی کشتی پر عملے کے گیارہ افراد سوار تھے۔پاک بحریہ کے 02 سی کنگ ہیلی کاپٹرز کو ڈوبنے والی ایرانی کشتی کی تلاش اور عملے کو بچانے کے لیے روانہ کیا گیا۔ سرچ اینڈ ریسکیو آلات سے لیس پاک بحریہ کے ہیلی کاپٹرز جن پر میڈیکل ٹیم بھی موجود تھی نے کم ترین ممکنہ وقت میں کراچی سے جنوبی مغربی کھلے سمندر میں پہنچ کر ڈوبنے والی کشتی کی تلاش کا آپریشن فضا سے شروع کیا۔ نامساعد سمندری حالت میں کٹھن سرچ آپریشن کے بعد ہیلی کاپٹرز کے عملے نے ڈوبنے والی کشتی کے عملے کو تلاش کیا، شمالی بحیرہ عرب میں معمول کی گشت پر مامور پاک بحریہ کے جہاز پی این ایس نصر نے بھی سرچ اینڈ ریسکیو آپریشن میں مدد فراہم کی۔ ایرانی کشتی کے عملے کے گیارہ افراد کو انتہائی قلیل وقت میں بچا کر سی کنگ ہیلی کاپٹرز پر لایا گیا جہاں انہیں ضروری طبی امداد فراہم کی گئی۔بچ جانے والے افراد نے بہترین پیشہ ورانہ انداز میں بروقت ریسکیو آپریشن انجام دینے پر پاک بحریہ کا شکریہ ادا کیا۔ یہ ریسکیو آپریشن ڈیڑھ گھنٹہ جاری رہا جس کے نتیجے میں ایرانی کشتی کے عملے کے تمام گیارہ افراد کو بچا کر کراچی میں واقع پاک بحریہ کے ایئر بیس پی این ایس مہران پہنچایا گیا۔ ایرانی کشتی کے عملے کو ہیڈ کوارٹرز پاکستان میری ٹائم سکیورٹی ایجنسی کے حوالے کر دیا گیا تا کہ قانوں کے مطابق ان کی وطن واپسی ممکن ہو سکے۔ نیول فورسز، جلد رسائی اور پہنچ کی وراثتی خوبیوں کی حامل افواج ہیں جس کا بھر پور مظاہرہ کھلے سمندر میں اس آپریشن کے دوران کیا گیا۔پاک بحریہ کے جہاز سبز ہلالی پرچم کو دنیا بھر میں سر بلند کر رہے ہیں جو ہمارے قومی جذبے اور انسانی خدمت کے عزم کا عکاس ہے۔
Sunday, 10 June 2018
ایک شخص کا ایک بیٹا تھا، روز رات کو دیر سے آتا اور جب بھی اس سے باپ پوچھتا کہ بیٹا کہاں تھے.؟ تو جھٹ سے کہتا کہ دوست کے ساتھ تھا. ایک دن بیٹا جب بہت زیادہ دیر سے آیا تو باپ نے کہا کہ بیٹا آج ہم آپ کے دوست سے ملنا چاہتے ہیں. بیٹے نے فوراً کہا اباجی اس وقت؟ ابھی رات کے دوبجے ہیں کل چلتے ہیں. نہیں ابھی چلتے ہیں. آپ کے دوست کا تو پتہ چلے. باپ نے ابھی پہ زور دیتے ہوئے کہا. جب اس کے گھر پہنچے اور دروازہ کھٹکھٹایا تو کافی دیر تک کوئی جواب نہ آیا. بالآخر بالکونی سے سر نکال کہ ایک بزرگ نے جو اس کے دوست کا باپ تھا آنے کی وجہ دریافت کی تو لڑکے نے کہا کہ اپنے دوست سے ملنے آیا ہے. اس وقت، مگروہ تو سو رہا ہے بزرگ نے جواب دیا. چاچا آپ اس کو جگاؤ مجھے اس سے ضروری کام ہے، مگر بہت دیر گزرنے کے بعد بھی یہی جواب آیا کہ صبح کو آجانا. ابھی سونے دو، اب تو عزت کا معاملہ تھا تو اس نے ایمرجنسی اور اہم کام کا حوالہ دیا مگر آنا تو درکنار دیکھنا اور جھانکنا بھی گوارا نہ کیا. باپ نے بیٹے سے کہا کہ چلو اب میرے ایک دوست کے پاس چلتے ہیں. جس کا نام خیر دین ہے. دور سفر کرتے اذانوں سے ذرا پہلے وہ اس گاؤں پہنچے اور خیردین کے گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا، مگر جواب ندارد، بالآخر اس نے زور سے اپنا نام بتایا کہ میں الله ڈنو، مگر پھر بھی دروازہ ساکت اور کوئی حرکت نہیں. اب تو بیٹے کے چہرے پہ بھی فاتحانہ مسکراہٹ آگئی. لیکن اسی لمحے لاٹھی کی ٹھک ٹھک سنائی دی، اور دروازے کی زنجیر اور کنڈی کھولنے کی آواز آئی، ایک بوڑھا شخص برآمد ہوا جس نے لپٹ کر اپنے دوست کو گلے لگایا اور بولا کہ میرے دوست، بہت معذرت، مجھے دیر اس لیے ہوئی کہ جب تم نے 27 سال بعد میرا دروازہ رات گئے کھٹکھٹایا تو مجھے لگا کہ کسی مصیبت میں ہو، اس لیے جمع پیسے نکالے کہ شاید پیسوں کی ضرورت ہے، پھر بیٹےکو اٹھایا کہ شاید بندے کی ضرورت ہے، پھر سوچا شاید فیصلے کےلیے پگ کی ضرورت ہو تو اسے بھی لایا ہوں. اب سب کچھ سامنے ہے، پہلے بتاؤ کہ کس چیز کی ضرورت ہے؟ یہ سن کر بیٹے کی آنکھوں سے آنسو آگئے کہ ابا جی کتنا سمجھاتے تھے کہ بیٹا دوست وہ نہیں ہوتا جو رت جگوں میں ساتھ ہو بلکہ وہ ہوتا ہے جو ایک آواز پر حق دوستی نبھانے آجائے. آج بھی کئی نوجوان ایسی دوستیوں پہ اپنے والدین کو ناراض کرتے ہیں، باپ کے سامنے اکڑجاتے ہیں. ذرا دل تھام کر سوچیےکہ آپ کے حلقہ احباب اور دوستوں کا شمار ان میں سے کس قسم میں ہوتا ہے؟ GÑ copy اگر تحریر اچھی لگے دعائے خیر مجھ سمیت سب کئلیے...
Saturday, 9 June 2018
میں #افغانیوں کی#غیرت_دیکھتا ہوں کہ وہ کب اس پر احتجاج کرینگے اس پر کسی افغانی کی غیرت نہیں جاگی نہ کوئی مظاہرہ نہ احتجاج افغانستان میں امریکی فوج پشتونوں کے گھروں کی تلاشی اور ان کے عورتوں کی بے عزتی کر رہی ہے پشتون تحفظ موومنٹ کو صرف خیال آیا تو پاکستان کے پشتونوں کا جو سب سے زہادہ خوشحال ہیں امن سے رہ رہے امن پسند ہیں ، مگر افغانی پشتوں بھائیوں پر افغانستان میں انتہا کا ظلم ہو رہا ہے یہی وجہ ہے افغان مہاجر بھائی پاکستان سے نہیں جانا چاہتے وہ جانتے ہیں کہ پاکستان ہمارے لیے امن کی جگہ کہ لیکن پی ٹی ایم کو ٹاسک ہی این ڈی ایس ، راء سے یہی ملا ہے کہ پاکستان میں جو پشتون امن سے رہ رہے ہیں ان کو پُرتشدد بنایا جائے ، پشتوں کا سب سے بڑا آج اگر دشمن ہے تو وہ پشتون تحفظ موومنٹ کے نام سے بنی جماعت ھےا
Thursday, 7 June 2018
افغانی بھائی آپ ناراض تو نہیں ہو گے ۔۔۔۔ اگر میں کہوں کہ آپ ایک بے غیرت اور غدار قوم ہو افغانی بھائی آپ ناراض تو نہیں ہو گے کہ اگر میں بتاؤں کہ 30 لاکھ افغانیوں کو پاکستان نے پناہ دی تھی افغانی بھائی آپ ناراض تو نہیں ہو گے کہ کہ اپکو روس کا غلام بننے سے روکنے کی جنگ پاکستان اور پشتون اور عرب مسلمان نے لڑی ۔۔۔۔ اور آپ لوگ تو پاکستان اور ایران بھاگ گئے تھے افغانی بھائی افغانی بھائی آپ ناراض تو نہیں ہو گے کہ پاکستان نے آپکو پناہ دی اور آپ نے یہاں بم دھماکے کر کے اپنے محسنوں کو ہی مارنا شروع کر دیا افغانی بھائی افغانی بھائی تم ناراض تو نہیں ہو گے کہ تم نے پاکستان میں ہیروئن اور کلاشنکوف کلچر متعارف کروایا اور پاکستان کے معصوم نوجوانوں کو نشے کا عادی بنا کر اپنی جائیدادیں بنائیں افغانی بھائی افغانی بھائی تم ناراض تو نہیں ہو گے کہ رشید دوستم اور اسکی ازبک و تاجک و پارسی بان ملیشیاء افغان پختونوں کو چن چن کر مار رہی تھی اور انکے گلے کاٹ کر پٹرول ڈال کر مردے کا ڈانس دیکھا کرتی تھی تو یہی پاکستانی فوج نے افغان مجاہدین و طالبان کے ساتھ اسکے ظلم کو روکا تھا افغانی بھائی افغانی بھائی تم ناراض تو نہیں ہو گے کہ تم نے پاکستان جیسے محسن ملک میں انڈین اور افغانی دہشت گردوں کو محفوظ پناہگاہیں دیں اور دہشت گرد حملے کروائے افغانی بھائی افغانی بھائی تم ناراض تو نہیں ہو گے ناں کہ تم نے جس تھالی میں کھایا اسی میں چھید کیا افغانی بھائی افغانی بھائی تم برا تو نہیں مانو گے ناں کہ جس فوج نے تمہاری آزادی کی جنگ لڑی تمہاری عزتوں کی حفاظت کی خاطر اپنی جانیں قربان کیں تم نے اسی فوج پر حملے کیئے افغانی بھائی افغانی بھائی تم برا تو نہیں مانو گے ناں کہ تمہاری غداری کی وجہ سے کسی بھی افغان مجاہد اور طالبان لیڈر نے افغانستان میں روپوشی اختیار نہیں کی افغانی بھائی افغانی بھائی تم برا تو نہیں مانو گے ناں کہ تم نے میرے ملک میں دو نمبر شناختی کارڈ بنوا کر جائدادیں خریدیں اور غیر قانونی کاموں کا سلسلہ شروع کیا افغانی بھائی افغانی بھائی تم ناراض تو نہیں ہو گے ناں کہ تم نے پاکستان میں اغوا برائے تاوان کا سلسلہ شروع کیا افغانی بھائی افغانی بھائی تم ناراض تو نہیں ہو گے ناں کہ تم نے TTP کے دہشت گردوں کے ساتھ مل کر فاٹا اور قبائلی علاقوں میں دہشت گردانہ کارروائیوں میں میرے بے گناہ پاکستانی پختونوں کو شہید کیا، انکے گلے کاٹ کر فٹبال کھیلی، انکو پھانسیاں دیں اور میرے ہی ملک میں میرے ہی مسلمان پشتون بھائیوں کی لاشیں تین تین دن لٹکتی رہتی تھیں اور کسی کو اتارنے کی اجازت بھی نہیں ہوتی تھی افغانی بھائی افغانی بھائی تم ناراض تو نہیں ہو گے اگر میں کہوں کہ جس ملک نے تمہیں پناہ دی روٹی دی عزت دی سر چھپانے کی جگہ دی تم نے اسی ملک کے خلاف سازشیں کیں افغانی بھائی تمہیں شرم تو نہیں آئے گی جب تمہارے ملک میں تمہارے آقا امریکہ نے قندوز مدرسے میں 80 سے ذیادہ معصوم حافظ قرآن بچوں کو بم مار کر شہید کردیا اور تم اور تمہاری افغان حکومت انہی امریکیوں کے بوٹوں کے تلوے چاٹتی رہی تم برا تو مانو گے مگر تمہارے ملک میں ہونے والے ظلم کا بدلہ طالبان نے لیا جبکہ تم اور تمہاری حکومت انہی طالبان کو دشمن کہتی ہے افغانیو تمہیں غیرت تو نہیں آئے گی کہ جب تمہارے ملک سے تمہاری مدد سے تمہارے دہشت گردوں نے میرے ملک کے بچوں کے اسکول پر بزدلوں کی طرح حملہ کیا اور نہتے بچوں پر انکی کلاسوں میں انکے استادوں کو زندہ جلایا گیا معصوم بچوں کو جو علم حاصل کر رہے تھے تم نے انہیں گولیوں سے چھلنی کر دیا افغانیو افغانیو تمہیں برا تو لگے گا کہ تم نے اپنی عزت اور غیرت امریکیوں، اسرائیلیوں اور انڈینز کو بیج کر جس پاک آستان نے تمہیں پناہ دی اسی کی بنیادوں پر حملہ کیا کراچی ایئرپورٹ پشاور ایئرپورٹ سے فیصل ایئربیس سے میانوالی ائربیس تک ہر جگہ تم نے حملے کیے ۔۔۔ افغانیو افغانیو تمہیں شرم تو نہیں آئے گی برا تو نہیں مانو گے کہ جب تمہاری صفوں میں سے نکلے دہشت گردوں نے مساجد پر بم باندھ کے حملے کئیے ۔۔ تم ایک لال مسجد کی بات کرتے ہوئے یہ بھول جاتے ہو کہ تم نے کتنی مساجد پر نماز کے دوران جب مسلمان اللہ کے آگے سجدہ ریز ہوتے تھے، جب تراویح میں قرآن کی تلاوت ہو رہی ہوتی تھی تم بم باندھ باندھ وہاں جا کر پھٹتے رہے ہاں برا مت ماننا کہ بس اب بہت ہو چکی اب تمہیں واپس اپنے ملک جانا پڑے گا کہ پاکستان نے جو عزت تمہیں دی وہ راس نہیں آئی تمہیں واپس اپنے ملک افغانستان جانا پڑے گا کہ جہاں امریکی ، یہودی تاجک ازبک اور پارسی بان تمہاری عورتوں کی جامہ تلاشی لیتے ہیں ہاں تمہیں واپس جانا ہی پڑے گا کہ جہاں اسلام کے سچے سپاہی ہمارے بھائی افغانی پشتون طالبان تمہارے ساتھ تمہاری حرکتوں کے مطابق سلوک کرتے کہ غدار کی سزا موت افغانی افغانی تم برا تو مانو گے مگر بس بہت ہو گئی تم ہوتے کون ہو کہ میرے پشتون بھائیوں کو اپنے ناپاک عزائم کے لئیے کبھی اسرائیل زندہ باد کے نعرے لگوا تو کبھی منظور افغانی کے ذریعے بہکانے کی کوشش کرو ۔۔۔ افغانیو کان کھول کر سن بھی لو اور سمجھ بھی لو کراچی میں بے گناہ شہید ہونے والا نقیب اللہ محسود ہمارا پاکستانی بھائی تھا اور پورا پاکستان اسکے شہید کیے جانے کے خلاف اکھٹا وہ تمہارا کچھ نہیں لگتا تھا وہ افغانی نہیں تھا وہ پکا سچا پاکستانی بیٹا تھا جسے ناپاک بین القوامی ایجنڈے میں استعمال کرنے کی ہم تو کیا اس شہید کے والد صاحب نے بھی اجازت نہیں دی ہے ۔۔۔ افغانیو برا مانتے ہو تو سو بار مانو کیا وجہ ہے نقیب اللہ محسود شہید کا باپ منظور افغانی کے جلسے میں نہیں جاتا ۔۔۔ اسکے باپ کو پاکستان سے محبت اپنے اداروں پر اعتبار تم کون ہوتے ہو میرے پاکستانی بھائی کے نام پر اپنی افغانی شیطانی سیاست چلانے والے ۔۔۔ فاٹا پر جو تمہارے TTP والوں نے حال کر رکھا تھا ہمارے ملک کا حصہ فاٹا ہم نے اسے پاک کیا اپنے پشتون بھائیوں کو تمہارے شیطانی افغانی دہشت گردوں سے تم چاہتے ہو کہ پھر سے تمہاری بدمعاشی ہو ۔۔ افغانی بھائی افغانی بھائی بس ۔۔۔ جاؤ جا کر پہلے اپنے ملک کو امریکا کی غلامی سے آزادی دلاؤ اپنی عورتوں بچوں کو انکے جنسی درندگی سے بچاؤ پھر میرے ملک کی میری فوج کی بات کرنا ۔۔۔۔ برا مت ماننا کہ سانپ کا سر کچلنے کا وقت آگیا ہے اور سانپ کا سب سے بڑا دشمن ۔۔۔۔ مارخور اب تمہیں نہیں چھوڑے گا. Admin #Sniper
افغانی بھائی آپ ناراض تو نہیں ہو گے ۔۔۔۔ اگر میں کہوں کہ آپ ایک بے غیرت اور غدار قوم ہو افغانی بھائی آپ ناراض تو نہیں ہو گے کہ اگر میں بتاؤں کہ 30 لاکھ افغانیوں کو پاکستان نے پناہ دی تھی افغانی بھائی آپ ناراض تو نہیں ہو گے کہ کہ اپکو روس کا غلام بننے سے روکنے کی جنگ پاکستان اور پشتون اور عرب مسلمان نے لڑی ۔۔۔۔ اور آپ لوگ تو پاکستان اور ایران بھاگ گئے تھے افغانی بھائی افغانی بھائی آپ ناراض تو نہیں ہو گے کہ پاکستان نے آپکو پناہ دی اور آپ نے یہاں بم دھماکے کر کے اپنے محسنوں کو ہی مارنا شروع کر دیا افغانی بھائی افغانی بھائی تم ناراض تو نہیں ہو گے کہ تم نے پاکستان میں ہیروئن اور کلاشنکوف کلچر متعارف کروایا اور پاکستان کے معصوم نوجوانوں کو نشے کا عادی بنا کر اپنی جائیدادیں بنائیں افغانی بھائی افغانی بھائی تم ناراض تو نہیں ہو گے کہ رشید دوستم اور اسکی ازبک و تاجک و پارسی بان ملیشیاء افغان پختونوں کو چن چن کر مار رہی تھی اور انکے گلے کاٹ کر پٹرول ڈال کر مردے کا ڈانس دیکھا کرتی تھی تو یہی پاکستانی فوج نے افغان مجاہدین و طالبان کے ساتھ اسکے ظلم کو روکا تھا افغانی بھائی افغانی بھائی تم ناراض تو نہیں ہو گے کہ تم نے پاکستان جیسے محسن ملک میں انڈین اور افغانی دہشت گردوں کو محفوظ پناہگاہیں دیں اور دہشت گرد حملے کروائے افغانی بھائی افغانی بھائی تم ناراض تو نہیں ہو گے ناں کہ تم نے جس تھالی میں کھایا اسی میں چھید کیا افغانی بھائی افغانی بھائی تم برا تو نہیں مانو گے ناں کہ جس فوج نے تمہاری آزادی کی جنگ لڑی تمہاری عزتوں کی حفاظت کی خاطر اپنی جانیں قربان کیں تم نے اسی فوج پر حملے کیئے افغانی بھائی افغانی بھائی تم برا تو نہیں مانو گے ناں کہ تمہاری غداری کی وجہ سے کسی بھی افغان مجاہد اور طالبان لیڈر نے افغانستان میں روپوشی اختیار نہیں کی افغانی بھائی افغانی بھائی تم برا تو نہیں مانو گے ناں کہ تم نے میرے ملک میں دو نمبر شناختی کارڈ بنوا کر جائدادیں خریدیں اور غیر قانونی کاموں کا سلسلہ شروع کیا افغانی بھائی افغانی بھائی تم ناراض تو نہیں ہو گے ناں کہ تم نے پاکستان میں اغوا برائے تاوان کا سلسلہ شروع کیا افغانی بھائی افغانی بھائی تم ناراض تو نہیں ہو گے ناں کہ تم نے TTP کے دہشت گردوں کے ساتھ مل کر فاٹا اور قبائلی علاقوں میں دہشت گردانہ کارروائیوں میں میرے بے گناہ پاکستانی پختونوں کو شہید کیا، انکے گلے کاٹ کر فٹبال کھیلی، انکو پھانسیاں دیں اور میرے ہی ملک میں میرے ہی مسلمان پشتون بھائیوں کی لاشیں تین تین دن لٹکتی رہتی تھیں اور کسی کو اتارنے کی اجازت بھی نہیں ہوتی تھی افغانی بھائی افغانی بھائی تم ناراض تو نہیں ہو گے اگر میں کہوں کہ جس ملک نے تمہیں پناہ دی روٹی دی عزت دی سر چھپانے کی جگہ دی تم نے اسی ملک کے خلاف سازشیں کیں افغانی بھائی تمہیں شرم تو نہیں آئے گی جب تمہارے ملک میں تمہارے آقا امریکہ نے قندوز مدرسے میں 80 سے ذیادہ معصوم حافظ قرآن بچوں کو بم مار کر شہید کردیا اور تم اور تمہاری افغان حکومت انہی امریکیوں کے بوٹوں کے تلوے چاٹتی رہی تم برا تو مانو گے مگر تمہارے ملک میں ہونے والے ظلم کا بدلہ طالبان نے لیا جبکہ تم اور تمہاری حکومت انہی طالبان کو دشمن کہتی ہے افغانیو تمہیں غیرت تو نہیں آئے گی کہ جب تمہارے ملک سے تمہاری مدد سے تمہارے دہشت گردوں نے میرے ملک کے بچوں کے اسکول پر بزدلوں کی طرح حملہ کیا اور نہتے بچوں پر انکی کلاسوں میں انکے استادوں کو زندہ جلایا گیا معصوم بچوں کو جو علم حاصل کر رہے تھے تم نے انہیں گولیوں سے چھلنی کر دیا افغانیو افغانیو تمہیں برا تو لگے گا کہ تم نے اپنی عزت اور غیرت امریکیوں، اسرائیلیوں اور انڈینز کو بیج کر جس پاک آستان نے تمہیں پناہ دی اسی کی بنیادوں پر حملہ کیا کراچی ایئرپورٹ پشاور ایئرپورٹ سے فیصل ایئربیس سے میانوالی ائربیس تک ہر جگہ تم نے حملے کیے ۔۔۔ افغانیو افغانیو تمہیں شرم تو نہیں آئے گی برا تو نہیں مانو گے کہ جب تمہاری صفوں میں سے نکلے دہشت گردوں نے مساجد پر بم باندھ کے حملے کئیے ۔۔ تم ایک لال مسجد کی بات کرتے ہوئے یہ بھول جاتے ہو کہ تم نے کتنی مساجد پر نماز کے دوران جب مسلمان اللہ کے آگے سجدہ ریز ہوتے تھے، جب تراویح میں قرآن کی تلاوت ہو رہی ہوتی تھی تم بم باندھ باندھ وہاں جا کر پھٹتے رہے ہاں برا مت ماننا کہ بس اب بہت ہو چکی اب تمہیں واپس اپنے ملک جانا پڑے گا کہ پاکستان نے جو عزت تمہیں دی وہ راس نہیں آئی تمہیں واپس اپنے ملک افغانستان جانا پڑے گا کہ جہاں امریکی ، یہودی تاجک ازبک اور پارسی بان تمہاری عورتوں کی جامہ تلاشی لیتے ہیں ہاں تمہیں واپس جانا ہی پڑے گا کہ جہاں اسلام کے سچے سپاہی ہمارے بھائی افغانی پشتون طالبان تمہارے ساتھ تمہاری حرکتوں کے مطابق سلوک کرتے کہ غدار کی سزا موت افغانی افغانی تم برا تو مانو گے مگر بس بہت ہو گئی تم ہوتے کون ہو کہ میرے پشتون بھائیوں کو اپنے ناپاک عزائم کے لئیے کبھی اسرائیل زندہ باد کے نعرے لگوا تو کبھی منظور افغانی کے ذریعے بہکانے کی کوشش کرو ۔۔۔ افغانیو کان کھول کر سن بھی لو اور سمجھ بھی لو کراچی میں بے گناہ شہید ہونے والا نقیب اللہ محسود ہمارا پاکستانی بھائی تھا اور پورا پاکستان اسکے شہید کیے جانے کے خلاف اکھٹا وہ تمہارا کچھ نہیں لگتا تھا وہ افغانی نہیں تھا وہ پکا سچا پاکستانی بیٹا تھا جسے ناپاک بین القوامی ایجنڈے میں استعمال کرنے کی ہم تو کیا اس شہید کے والد صاحب نے بھی اجازت نہیں دی ہے ۔۔۔ افغانیو برا مانتے ہو تو سو بار مانو کیا وجہ ہے نقیب اللہ محسود شہید کا باپ منظور افغانی کے جلسے میں نہیں جاتا ۔۔۔ اسکے باپ کو پاکستان سے محبت اپنے اداروں پر اعتبار تم کون ہوتے ہو میرے پاکستانی بھائی کے نام پر اپنی افغانی شیطانی سیاست چلانے والے ۔۔۔ فاٹا پر جو تمہارے TTP والوں نے حال کر رکھا تھا ہمارے ملک کا حصہ فاٹا ہم نے اسے پاک کیا اپنے پشتون بھائیوں کو تمہارے شیطانی افغانی دہشت گردوں سے تم چاہتے ہو کہ پھر سے تمہاری بدمعاشی ہو ۔۔ افغانی بھائی افغانی بھائی بس ۔۔۔ جاؤ جا کر پہلے اپنے ملک کو امریکا کی غلامی سے آزادی دلاؤ اپنی عورتوں بچوں کو انکے جنسی درندگی سے بچاؤ پھر میرے ملک کی میری فوج کی بات کرنا ۔۔۔۔ برا مت ماننا کہ سانپ کا سر کچلنے کا وقت آگیا ہے اور سانپ کا سب سے بڑا دشمن ۔۔۔۔ مارخور اب تمہیں نہیں چھوڑے گا. Admin #Snipr
افغانی بھائی آپ ناراض تو نہیں ہو گے ۔۔۔۔ اگر میں کہوں کہ آپ ایک بے غیرت اور غدار قوم ہو افغانی بھائی آپ ناراض تو نہیں ہو گے کہ اگر میں بتاؤں کہ 30 لاکھ افغانیوں کو پاکستان نے پناہ دی تھی افغانی بھائی آپ ناراض تو نہیں ہو گے کہ کہ اپکو روس کا غلام بننے سے روکنے کی جنگ پاکستان اور پشتون اور عرب مسلمان نے لڑی ۔۔۔۔ اور آپ لوگ تو پاکستان اور ایران بھاگ گئے تھے افغانی بھائی افغانی بھائی آپ ناراض تو نہیں ہو گے کہ پاکستان نے آپکو پناہ دی اور آپ نے یہاں بم دھماکے کر کے اپنے محسنوں کو ہی مارنا شروع کر دیا افغانی بھائی افغانی بھائی تم ناراض تو نہیں ہو گے کہ تم نے پاکستان میں ہیروئن اور کلاشنکوف کلچر متعارف کروایا اور پاکستان کے معصوم نوجوانوں کو نشے کا عادی بنا کر اپنی جائیدادیں بنائیں افغانی بھائی افغانی بھائی تم ناراض تو نہیں ہو گے کہ رشید دوستم اور اسکی ازبک و تاجک و پارسی بان ملیشیاء افغان پختونوں کو چن چن کر مار رہی تھی اور انکے گلے کاٹ کر پٹرول ڈال کر مردے کا ڈانس دیکھا کرتی تھی تو یہی پاکستانی فوج نے افغان مجاہدین و طالبان کے ساتھ اسکے ظلم کو روکا تھا افغانی بھائی افغانی بھائی تم ناراض تو نہیں ہو گے کہ تم نے پاکستان جیسے محسن ملک میں انڈین اور افغانی دہشت گردوں کو محفوظ پناہگاہیں دیں اور دہشت گرد حملے کروائے افغانی بھائی افغانی بھائی تم ناراض تو نہیں ہو گے ناں کہ تم نے جس تھالی میں کھایا اسی میں چھید کیا افغانی بھائی افغانی بھائی تم برا تو نہیں مانو گے ناں کہ جس فوج نے تمہاری آزادی کی جنگ لڑی تمہاری عزتوں کی حفاظت کی خاطر اپنی جانیں قربان کیں تم نے اسی فوج پر حملے کیئے افغانی بھائی افغانی بھائی تم برا تو نہیں مانو گے ناں کہ تمہاری غداری کی وجہ سے کسی بھی افغان مجاہد اور طالبان لیڈر نے افغانستان میں روپوشی اختیار نہیں کی افغانی بھائی افغانی بھائی تم برا تو نہیں مانو گے ناں کہ تم نے میرے ملک میں دو نمبر شناختی کارڈ بنوا کر جائدادیں خریدیں اور غیر قانونی کاموں کا سلسلہ شروع کیا افغانی بھائی افغانی بھائی تم ناراض تو نہیں ہو گے ناں کہ تم نے پاکستان میں اغوا برائے تاوان کا سلسلہ شروع کیا افغانی بھائی افغانی بھائی تم ناراض تو نہیں ہو گے ناں کہ تم نے TTP کے دہشت گردوں کے ساتھ مل کر فاٹا اور قبائلی علاقوں میں دہشت گردانہ کارروائیوں میں میرے بے گناہ پاکستانی پختونوں کو شہید کیا، انکے گلے کاٹ کر فٹبال کھیلی، انکو پھانسیاں دیں اور میرے ہی ملک میں میرے ہی مسلمان پشتون بھائیوں کی لاشیں تین تین دن لٹکتی رہتی تھیں اور کسی کو اتارنے کی اجازت بھی نہیں ہوتی تھی افغانی بھائی افغانی بھائی تم ناراض تو نہیں ہو گے اگر میں کہوں کہ جس ملک نے تمہیں پناہ دی روٹی دی عزت دی سر چھپانے کی جگہ دی تم نے اسی ملک کے خلاف سازشیں کیں افغانی بھائی تمہیں شرم تو نہیں آئے گی جب تمہارے ملک میں تمہارے آقا امریکہ نے قندوز مدرسے میں 80 سے ذیادہ معصوم حافظ قرآن بچوں کو بم مار کر شہید کردیا اور تم اور تمہاری افغان حکومت انہی امریکیوں کے بوٹوں کے تلوے چاٹتی رہی تم برا تو مانو گے مگر تمہارے ملک میں ہونے والے ظلم کا بدلہ طالبان نے لیا جبکہ تم اور تمہاری حکومت انہی طالبان کو دشمن کہتی ہے افغانیو تمہیں غیرت تو نہیں آئے گی کہ جب تمہارے ملک سے تمہاری مدد سے تمہارے دہشت گردوں نے میرے ملک کے بچوں کے اسکول پر بزدلوں کی طرح حملہ کیا اور نہتے بچوں پر انکی کلاسوں میں انکے استادوں کو زندہ جلایا گیا معصوم بچوں کو جو علم حاصل کر رہے تھے تم نے انہیں گولیوں سے چھلنی کر دیا افغانیو افغانیو تمہیں برا تو لگے گا کہ تم نے اپنی عزت اور غیرت امریکیوں، اسرائیلیوں اور انڈینز کو بیج کر جس پاک آستان نے تمہیں پناہ دی اسی کی بنیادوں پر حملہ کیا کراچی ایئرپورٹ پشاور ایئرپورٹ سے فیصل ایئربیس سے میانوالی ائربیس تک ہر جگہ تم نے حملے کیے ۔۔۔ افغانیو افغانیو تمہیں شرم تو نہیں آئے گی برا تو نہیں مانو گے کہ جب تمہاری صفوں میں سے نکلے دہشت گردوں نے مساجد پر بم باندھ کے حملے کئیے ۔۔ تم ایک لال مسجد کی بات کرتے ہوئے یہ بھول جاتے ہو کہ تم نے کتنی مساجد پر نماز کے دوران جب مسلمان اللہ کے آگے سجدہ ریز ہوتے تھے، جب تراویح میں قرآن کی تلاوت ہو رہی ہوتی تھی تم بم باندھ باندھ وہاں جا کر پھٹتے رہے ہاں برا مت ماننا کہ بس اب بہت ہو چکی اب تمہیں واپس اپنے ملک جانا پڑے گا کہ پاکستان نے جو عزت تمہیں دی وہ راس نہیں آئی تمہیں واپس اپنے ملک افغانستان جانا پڑے گا کہ جہاں امریکی ، یہودی تاجک ازبک اور پارسی بان تمہاری عورتوں کی جامہ تلاشی لیتے ہیں ہاں تمہیں واپس جانا ہی پڑے گا کہ جہاں اسلام کے سچے سپاہی ہمارے بھائی افغانی پشتون طالبان تمہارے ساتھ تمہاری حرکتوں کے مطابق سلوک کرتے کہ غدار کی سزا موت افغانی افغانی تم برا تو مانو گے مگر بس بہت ہو گئی تم ہوتے کون ہو کہ میرے پشتون بھائیوں کو اپنے ناپاک عزائم کے لئیے کبھی اسرائیل زندہ باد کے نعرے لگوا تو کبھی منظور افغانی کے ذریعے بہکانے کی کوشش کرو ۔۔۔ افغانیو کان کھول کر سن بھی لو اور سمجھ بھی لو کراچی میں بے گناہ شہید ہونے والا نقیب اللہ محسود ہمارا پاکستانی بھائی تھا اور پورا پاکستان اسکے شہید کیے جانے کے خلاف اکھٹا وہ تمہارا کچھ نہیں لگتا تھا وہ افغانی نہیں تھا وہ پکا سچا پاکستانی بیٹا تھا جسے ناپاک بین القوامی ایجنڈے میں استعمال کرنے کی ہم تو کیا اس شہید کے والد صاحب نے بھی اجازت نہیں دی ہے ۔۔۔ افغانیو برا مانتے ہو تو سو بار مانو کیا وجہ ہے نقیب اللہ محسود شہید کا باپ منظور افغانی کے جلسے میں نہیں جاتا ۔۔۔ اسکے باپ کو پاکستان سے محبت اپنے اداروں پر اعتبار تم کون ہوتے ہو میرے پاکستانی بھائی کے نام پر اپنی افغانی شیطانی سیاست چلانے والے ۔۔۔ فاٹا پر جو تمہارے TTP والوں نے حال کر رکھا تھا ہمارے ملک کا حصہ فاٹا ہم نے اسے پاک کیا اپنے پشتون بھائیوں کو تمہارے شیطانی افغانی دہشت گردوں سے تم چاہتے ہو کہ پھر سے تمہاری بدمعاشی ہو ۔۔ افغانی بھائی افغانی بھائی بس ۔۔۔ جاؤ جا کر پہلے اپنے ملک کو امریکا کی غلامی سے آزادی دلاؤ اپنی عورتوں بچوں کو انکے جنسی درندگی سے بچاؤ پھر میرے ملک کی میری فوج کی بات کرنا ۔۔۔۔ برا مت ماننا کہ سانپ کا سر کچلنے کا وقت آگیا ہے اور سانپ کا سب سے بڑا دشمن ۔۔۔۔ مارخور اب تمہیں نہیں چھوڑے گا. Admin #Snip
Tuesday, 5 June 2018
ایک جاں سوز بے چینی ہے اور تب تک رہے گی جب تک یہ مسئلہ دور نہ ہو. مطلب وہ لوگ اپنے بچوں، جوانوں، بوڑھوں کی لاشیں پاکستان کے پرچم میں لپیٹ کر دفنائیں اور پاکستان کے سکولوں میں کشمیر کو بھارت کا حصہ پڑھایا جائے؟ یعنی وہ کشمیری پاکستان کا جھنڈا بلند کرنے کے جرم میں سیدھی دل پہ گولی کھائیں لیکن جھنڈا پھر بھی نیچا نہ ہونے دیں کہ شہادت کے بعد وہی جھنڈا ان کی قبر پہ لہرایا جاتا ہے. اور ہم پاکستان میں اپنے سکولوں میں یہ پڑھائیں کہ کشمیری دراصل بھارتی ہیں؟ پچھلے اٹھ سال سے ایجوکیٹرز سکول یہی کر رہا ہے. ملک بھر کے لاکھوں بچوں کو ایجوکیٹرز سکولوں میں پڑھایا جاتا ہے کہ کشمیر بھارت کا حصہ ہے. میں بے سکون ہوں اور چاہتا ہوں کہ آپ بھی ہو جائیں. ملک سے متعلق میرا کوئی بھی مسئلہ ہو آتا میں آپ ہی کے پاس ہوں، آپ جو میرے دست و بازو ہو. آپ کو یاد ہو گا جیو نے اپنے پروگرام "آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ" میں کشمیر اور گلگت بلتستان کو بھارت کا حصہ دکھایا تھا. میں دُکھے دل اور جلتی آنکھوں کے ساتھ آپ ہی لوگوں کے پاس آیا تھا. ہم نے مل کر وہ مسئلہ سوشل میڈیا پہ اٹھایا اور اس سے اگلے دن جیو نے معافی مانگ لی تھی. اب بات اس سے بہت بڑھ کے ہے. ملک کے ہزاروں ایجوکیٹرز سکولوں کے لاکھوں بچوں کو وہ نقشہ پڑھایا جا رہا ہے جس میں کشمیر کے علاوہ گلگت بلتستان بھی بھارت کا حصہ ہیں. ایجوکیٹرز انتظامیہ والدین کی درخواستوں کے باوجود وہ نقشہ نہیں بدل رہی کیوں کہ ایک بھارتی فرم ہے جس کی انویسٹمنٹ ہے اس سکول سسٹم میں. بات ایک نقشے کی نہیں ہے. بات قوم کے باپ محمد علی جناح رح کی ہے جنہوں نے جانے سے قبل کشمیر کو پاکستان کی شہہ رگ قرار دیا تھا. بات ان لاکھوں شہداء کی بھی ہے جن کا لہو آج بھی وادی ء کشمیر میں تازہ ہے. بات سرحد پار کی میری ان ہزاروں کشمیری بہنوں کی بھی ہے جن کی عزتیں پاکستان سے محبت کے جرم پہ لوٹ لی گئیں. بات میری ان کم سن بیٹیوں کی بھی ہے جن چادروں پہ آج بھی بے غیرت ہندو درندے ہاتھ ڈالیں تو وہ امید بھری نظروں سے یہاں پاکستان کی جانب دیکھتی ہیں. کیا یہ سودا اتنا سستا ہے کہ ایجوکیٹرز والے چند لاکھ ڈالرز کے عوض کر لیں؟ آج سے عہد کر لیں ہم تب تک سکون سے نہیں بیٹھیں گے جب تک ایجوکیٹرز سکول اپنی درسی کتابیں درست کر کے قوم سے معافی نہیں مانگتا. چاہے پورے ملک کے ایجوکیٹرز سکولوں پہ تالے بھی پڑ جائیں ہمیں گوارہ ہے. لیکن ہمیں یہ گوارہ نہیں کہ کشمیری ہمیں بے وفا کہہ کر یہ گلہ دیں کہ تم ہمیں آزاد کروانے سے پہلے اپنی کتابوں کو تو ٹھیک کروا لو. ایجوکیٹرز کو اس سازشی کھیل کی اجازت نہیں دی جائے گی چاہے ملک بھر سے اس ادارے کا بوریا بستر گول ہی کیوں نہ کر دیا جائے۔ یہ یاد رہے کہ ایجوکیٹرز بیکن ھاؤس کی ایک زیلی شاخ ہے اور بیکن ھاؤس وہ ادارہ ہے جس کی طلباء ایامِ حیض کی نمائش کرتی رہی تھیں۔ اور اب ایجوکیٹرز یہ پڑھا رہا ہے کہ کشمیر بھارت کا ہے سنگین علی زادہ
اک قیامت جو سر پہ آ کھڑی ہے. درختوں کی قلت کے باعث کراچی میں سینکڑوں ہلاکتیں ہوئیں کسی کو کوئی فرق پڑا، کوئی تکلیف ہوئی؟ آپ کو؟ آپ کے اردگرد موجود لوگوں کو؟ مجھے اور میرے اردگرد رہتے لوگوں کو؟ خود کراچی کے شہریوں کو؟ ان کو بھی چھوڑیں جو مرے ان کے گھر والوں کو کوئی تکلیف ہوئی؟ نہیں ہر گز نہیں. اچھا تکلیف سے مراد رونا پیٹنا یا افسردہ ہونا نہیں ہے. ایک جانور کا بچہ بھی مر جائے تو افسردہ تو وہ بھی ہوتا ہے. تکلیف سے مراد یہ ہے کہ گرمی کی شدت سے ہونے والی ہلاکتوں پہ کسی نے دکھ اور تکلیف سے سوچا کہ اگر کراچی میں مطلوبہ تعداد میں درخت لگائے گئے ہوتے، اگر گلوبل وارمنگ کو روکنے کےلیے اقدامات کیے گئے ہوتے تو شاید وہ مسکین جو گرمی کی بھینٹ کی چڑھے وہ بچ جاتے. سینکڑوں مر گئے ہم لوگ جیسے تھے ویسے اب بھی ہیں. سینکڑوں مزید مر جائیں گی ہم لوگ جیسے ہیں ویسے تب بھی رہیں گے. یہ تو گرمی کی صورت حال تھی. پانی کی قلت کا مسئلہ آگے سر پہ کھڑا ہے. تھر میں بھوک پیاس سے مرنے والے چار سو کے لگ بھگ بچے یاد ہیں؟ مجھے یا تمہیں کوئی تکلیف ہوئی تھی کوئی فرق پڑا تھا؟ تب تو بھارت نے ڈیم بھی نہیں بنایا تھا. اب جب بھارت ڈیم پہ ڈیم بنا چکا ہے اور قریب ہے کہ ہم لوگ پانی کی بوند بوند کو ترسیں. روٹی کے چند لقموں کی خاطر لوگ قتل ہوتے ہیں قتل کرتے ہیں اب جب پانی کےلیے بھی یہ صورت حال ہونے جا رہی ہے تو آپ کو کیا لگتا ہے ہمیں کوئی فرق پڑے گا؟ نہیں تو ہر گز نہیں. کیسے پڑ سکتا ہے. کراچی اور تھر والوں کی اموات پہ نہیں پڑا تو بعد میں کیسے پڑے گا. کراچی میں درخت لگانے اور گلوبل وارمنگ گھٹانے کےلیے کہیں ہم نے کوئی آواز اٹھائی ہو، کوئی مظاہرہ کیا ہو کوئی تحریک چلائی ہو؟ ککھ وی نئی. یہی مردہ ضمیری، بے غیرتی اور بے حسی پانی کے مسئلے پر ہے. نا ہم میں سے کوئی بھارت کی آبی جارحیت کے خلاف بولا نا کالا باغ ڈیم کےلیے بولا، نا پانی کی بچت اور لانگ ٹرم منصوبوں کےلیے بولا. کوئی کیوں بولے گا جب کسی کو پتہ ہی نہیں کہ قومی مسئلہ ہوتا کیا ہے اور اس کا قوم کے ہر فرد کو کیسے نقصان ہوتا ہے. تو پھر سن لو، اجتماعی گناہوں کی سزا اجتماعی ہوتی ہے اے کھوتا خور کتا خور مردار خور عوام کے جمِ غفیر (جس میں آپ بھی ہو اور میں بھی ہوں) خدا زمین کو تمہارے لیے جہنم کا اعلی نمونہ بنا چکا ہے. یہ دھوپ جو کبھی زندگی بخش ہوتی تھی آج تمہیں تَلی ہوئی لاشوں میں تبدیل کر رہی ہے، تمہاری بے حسی کے عوض. یہ پانی بھی جو ہمیں اور ہماری زمینوں کو حیات بخشتا ہے اب اپنا منہ ہم سے پھیر چکا ہے. تھوڑے عرصہ تک، تمہاری زمینیں جو کبھی سونا اگلتی تھیں زہر بھی نہیں اگا سکیں گی جس کی ایک چٹکی کھا کے تم خود کشی کر سکو. لیکن تمہیں اور تمہاری قیادت کو کوئی ضرورت نہیں ہے اس پہ بولنے کی. جس بے حسی کا مظاہرہ کرتے چلے آ رہے ہو، اسی کا کرتے رہو. وہ وقت اب دور نہیں رہا جب تم اپنی پیاس بجھانے کےلیے اپنی ہی رگوں کا لہو پینے پہ مجبور ہو جاؤ گے. اسے کسی سر پھرے کی دھمکی یا کسی مجنون کی ھاھو نہ سمجھنا. گرمی کے تیور تمہاری آنکھوں کے سامنے ہیں، منتظر رہو جب پانی ناپید ہو جائے گا. اور ہاں بھارت یا حکومت کو گلہ دینے سے پہلے اپنے گریبان میں ضرور جھانکنا. گرمی کی بھیانک صورت یہ جو مل رہی ہے ہمارے اجتماعی کرتوتوں کی اجتماعی سزا ہے. پانی کی جان لیوا قلت کی صورت وہ جو ملے گی وہ بھی ہماری اجتماعی بے حسی کی اجتماعی سزا ہو گی. چلو اب پڑھ کے ہمیشہ کی طرح نظر انداز کرو اور کھیل کود میں لگ جاؤ. سنگین علی زادہ.
منتخب اور خالص جمہوری حکمرانوں نے قوم کے وسیع تر مفاد میں الیکشن کے لیے نامزدگی فارم سے مندرجہ ذیل شقیں ختم کر دیں۔ 1۔ موجودہ اثاثے ظاہر کرنے کی شق کا خاتمہ۔ 2۔ دوہری شہریت نہ ہونے کا حلف نامہ حذف 3۔ تعلیمی قابلیت اور ڈگری ظاہر کرنے کی پابندی ختم 4۔ انکم ٹیکس اور زرعی ٹیکس کی معلومات فراہم کرنے کی شق کا خاتمہ 5۔ بچوں اور دیگر افراد خانہ کے لئے "زیر کفالت" کے الفاظ کی تبدیلی 6۔ بیوی بچوں کے اثاثے ظاہر کرنے کی شق کا خاتمہ 7۔ بینکوں یا دیگر مالیاتی اداروں سے معاف کرائے گئے قرضوں کو ظاہر کرنے کی شق ختم 8۔ تھانوں اور عدالتوں کا کریمنل ریکارڈ ظاہر کرنے کی شق کا خاتمہ 9۔ گزشتہ تین برس کے دوران غیر ملکی دوروں کی تفصیلات فراہم کرنے کی پابندی کا خاتمہ 10۔ غلط معلومات فراہم کرنے کی صورت میں اسمبلی کی رکنیت سے محرومی کا حلف نامہ حذف یعنی اگر وہ غلط بیانی بھی کریں تو اس پر ان کے خلاف ایکشن نہیں لیا جا سکتا۔ اس کے خلاف ھائی کورٹ میں درخواست دائر کی گئی تو ہائی کورٹ نے نامزدگی فارم میں کی گئی ان تبدیلیوں کو فوری طور پر معطل کر دیا۔ اسی وقت پاکستان میں عدل و انصاف کے علمبردار سابقہ اور موجودہ " منصف اعظم" حرکت میں آئے۔ سپریم کورٹ کے سابقہ " منصف اعظم" ناصر الملک ( موجودہ نگران وزیراعظم) نے لاھور ھائی کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کی۔ ( یاد رہے کہ یہ ناصر ملک وہی جج ہیں جس نے افتخار چودھری کے ساتھ ملکر آصف زردای کی سویزرلینڈ میں موجود دولت قرق ہونے سے بچائی تھی ) اور اہم ترین فیصلوں پر کڑک مرغی کی طرح بیٹھے موجودہ منصف اعظم ثاقب نثار نے فوری فیصلہ سناتے ہوئے ھائی کورٹ کا فیصلہ کلعدم قرار دے دیا۔ دونوں " منصفوں " نے بیان جاری فرمایا کہ " انتخاب وقت پر ہونا ہی اصل مقصود ہے" امیداوار کون ہے؟ کیسا ہے؟ سے فرق نہیں پڑتا۔ اب عوام کسی امیدوار کے اثاثوں، تعلیم، شہریت، اقاموں، جائداد اور غیر ملکی فلیٹس، ٹیکس، زیر کفالت بیوی بچوں، قرضوں، جرائم اور غیر ملکی دوروں کے بارے میں نہیں جان سکے گی۔ نیز بیان حلفی ختم ہونے سے معلومات فراہم کرنے کے جو خانے چھوڑ دئیے ہیں ان میں بھی جھوٹ لکھا جا سکتا ہے! چنانچہ اتنخابی فارم میں مذکورہ تبدیلیوں کے بعد اب ایم کیو ایم کے الطاف حسین اور ٹی ٹی پی کے ملا فضل اللہ بھی انتخاب میں حصہ لے سکتے ہیں۔ تاہم دونوں " اعلی ترین " جج اور حکمران یہ بتانے پر تیار نہیں کہ ۔۔۔ حکمرانوں کو یہ شرانط ختم کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ اور یہ شرائط ختم کرنے میں عوام کا کیا فائدہ ہے؟؟ تحریر شاہدخان نوٹ ۔۔ کمنٹ میں موجود لنک پر کلک کر کے آپ آصف زرداری صاحب کی دولت اور اثاثوں کے بارے میں جان سکتے ہیں ۔۔۔ :)
امریکہ دانشوروں میں سے ایک جنرل ضیاءالحق مخالف دانشور سلیگ ہیرسن نے واشنگٹن پوسٹ میں لکھا تھا کہ "ضیاءالحق کے مر جانے کے بعد بھی جنرل کی روح پاکستان اور امریکہ کی افغان پالیسی پر چھائی ہوئی ہے مرحوم نے جو طاقتور ملٹری اینٹلیجنس تنظیم (آئی ایس آئی) قائم کی تھی آج بھی وہی افغان معاملات کو کنٹرول کر رہی ہے" آج امریکہ افغانستان میں بری طرح شکست کھا چکا ہے اور ہم نہایت منافقت اور بے انصافی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک طرف افغان مجاہدین پر داد و تحسین کے ڈونگرے برسا رہے ہیں اور دوسری طرف پاکستان میں برپا ہر فساد کی جڑ جنرل ضیاءالحق کو قرار دیتے ہیں ہم اپنے تعصب میں اتنے آگے چلے جاتے ہٰیں کہ اس بات کو بھی نظر انداز کر دیتے ہیں کہ امریکہ کو شکست دینے والے سارے گروہ بشمول ملا عمر، حقانی، گل بدین اور یونس خالص وغیرہ یا جنرل ضیاءالحق کے دور کی پیداوار تھے یا پاکستان آئی ایس آئی کے ان لوگوں نے ان کو تیار کیا تھا جو جنرل کی پالیسیوں کے حامی تھے جیسے جنرل اختر عبدالرحمن جنرل حمید گل اور کرنل امام وغیرہ یہ ماننا پڑے گا کہ جنرل کی روح آج بھی افغان پالیسی پر چھائی ہوئی ہے اور امریکہ جنرل ضیاءالحق سے بالاآخر شکست کھا رہا ہے جنرل ضیاءالحق کے نام پر تعصب کی گرد پڑی ہوئی ہے اور اسکو کبھی انصاف کے ساتھ پڑھا اور سمجھا نہیں گیا وہ جنرل جس نے روس جیسی سپر طاقت کو شکست دی جس نے امریکہ کی دم پر دس سال تک پاؤں رکھے رکھا اور کبھی پاکستان کے معاملے میں اپنے کسی موقف پر ذرا بھی لچک نہٰیں دکھائی جس نے انڈیا کو اتنا خوفزدہ کر دیا تھا کہ وہ کہنے پر مجبور ہو گئے تھے کہ "اگر ضیاءالحق زیادہ دیر زندہ رہا تو انڈیا کا شیرازہ بکھر جائے گا" جس نے بغیر کسی دباؤ کے نہایت تیزرفتاری سے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی تکمیل کی وہ ضیاءالحق جس کے دور میں پہلی بار افغانستان کے اندر "پاکستان زندہ باد" کے نعرے لگے وہ ضیاءالحق جب شہید ہوا تو دنیا کے ستر سے زائد ممالک کے سربراہان اور ملک بھر سے دس لاکھ سے زیادہ لوگوں نے اسکے جنازے مٰیں شرکت کی جو اسکا ایسا ریفرنڈم تھا جو تا قیامت اسکو امر کر گیا! یہ وہی ضیاءالحق ہے جس نے کہا تھا کہ "میں اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے کم از کم اتنا کام ضرور کر دینا چاہتا ہوں کہ پھر آنے والے وقت میں کسی کے لیے پیچھے ہٹنا اور واپس لوٹنا ممکن نہ رہے" اور اس نے کر دکھایا جنرل ضیاءالحق ایک غیر معمولی لیڈر تھے شائد ان عظیم مسلم لیڈروں میں سے ایک جو پوری امت مسلمہ کی تاریخ مٰیں مسلمانوں کو نصیب ہوئے میں جنرل کے نام سے اس گرد کو جھاڑنے کی کوشش ضرور کرتا رہوں گا اور ان شاءاللہ ان سارے معاملات پر لکھوں گا جن کا کسی طرح بھی جنرل ضیاءالحق سے تعلق بنتا ہے میں کوشش کروں گا کہ واقعات کو لکھوں تا کہ یہ پوسٹیں محض تعریف و توصیف کے گوشوارے نہ بنیں بلکہ عوام ان واقعات کی تصدیق کر کے خود نتائج اخذ کر سکے میں ہرگز کوئی لکھاری نہیں اور میرا علم بھی محدود ہے لیکن اسکے باوجود انشااللہ میں پوری طاقت سے لکھوں گا اور اس معاملے میں کسی بھی مخالفت کی مجھے پرواہ نہٰیں جنرل ضیاءالحق شہید مجھے آج بھی بہت سے "زندوں" سے زیادہ عزیر ہے. عالم اسلام کا عظیم مجاھد جرنیل جسے ایک عالمی سازش کے تحت شہید کروا دیا گیا 😢 شہید حق جنرل ضیاءالحق رحمتہ اللہ علیہ دفاع پاکستان.محمد قاسم
مغرب اور امریکہ میں آئی ایس آئی کے بارے میں مشہور ہے کہ آئی ایس آئی کسی کے قابو میں نہیں آتی، سپر پاورز کی نفسیات ہوتی ہے کہ وہ ہمیشہ ترقی پذیر اور کمزور ممالک کو کسی نہ کسی طریقے سے اپنا محتاج بنا کر رکھتی ہیں تاکہ ضرورت پڑنے پر انہیں بلیک کرکے یا بزور طاقت اپنی بات منوائی جا سکے، یہاں یہ بات واضح رہے کہ امریکن جو پینٹاگان اور واشنگٹن میں بیٹھ کر پوری دنیا کے امور دیکھتے ہیں،یہ لوگ اپنی حتی الامکان کوشش کر چکے ہیں کہ پاکستان کو اپنی مرضی سے استعمال کیا جا سکے اور ان کے اس مقصد کی تکمیل میں آئی ایس آئی اور پاکستان آرمی سب سے بڑی رکاوٹ ہیں مثال کے طور پر روس افغانستان جنگ میں امریکہ پاکستان کو افغانستان کے خلاف استعمال کرنا چاہتا تھا، جواب میں پاکستان میں امریکہ کو ہی روس کے خلاف استعمال کر لیا۔ روس افغان جنگ کی آڑ میں آئی ایس آئی نے پاکستان کا جوہری پروگرام مکمل کیا، جس پر امریکہ آج تک سر پیٹتا ہے۔ امریکہ افغانستان کے جنگجو سرداروں سے رابطے بڑھا کر مستقبل میں انہیں اپنے لئے استعمال کرنا چاہتا تھا، آئی ایس آئی نے یہ بھی ناکام بنا دیا۔ اپنے زمینی حقائق کے مطابق آئی ایس آئی نے امریکہ کی سیاسی مداخلت کو پاکستان میں کبھی اعلانیہ اور کبھی خفیہ طور پر روکا۔ پاکستان کے مخالفین کیلئے نظریہ پاکستان اس ملک کا بہت بڑا مسئلہ ہے کیونکہ یہ نظر یہ پاکستان ہی ہے جس کی وجہ سے پاکستانی نہ صرف ہندوستان بلکہ تمام غیر مسلم اقوام سے جدا ہوکر اپنی الگ انفرادی شناخت بناتے ہیں۔ یہ انفرادی شناخت ایک طرف گلوبل ازم کے خواب دیکھنے والوں کی آنکھوں میں کھٹکتی ہے تو دوسری طرف بھارت سے تعلقات کیلئے ایک حد مقرر کرتی ہے۔اس نظریہ کو مسخ کرنے کیلئے عالمی سطح کی گئی کوششوں کو ہمیشہ سے آئی ایس آئی نے ناکام بنایا۔ امریکہ نے دنیا بھر کی اقوام کو یہ باور کروایا کہ پاکستان افغانستان کے اسلام پسند دہشتگردوں کو مدد دیر ہا ہے۔ آئی ایس آئی نے صرف ایک حرکت کی اور عالمی سطح پر اس تاثر کو عام کیا کہ گورے جن کو اسلام پسند دہشتگرد کہہ رہے ہیں وہ اپنی آزادی کیلئے لڑرہے ہیں۔ آئی ا یس آئی نے دنیا بھر کو دہشتگردی، انتہا پسندی اور جنگ آزادی کے درمیان واضح فرق بناکر دئیے۔بالآخر دنیا کو تسلیم کرنا پڑا کہ نہیں بالکل ویسا نہیں جیسا امریکہ بتارہا ہے کچھ پاکستان کی بھی سنو۔یہی چال بھارت نے کشمیر کے حریت پسند جنگجووں کے متعلق چلی اور کہا کہ پاکستان جیش محمد اور لشکر طیبہ کے دہشتگردوں کی مدد کرتا ہے۔ یہ آئی ایس آئی تھی جس نے بتایا کشمیر میں لڑنے والے بھارت کی بربریت کی وجہ سے کھڑے ہوئے ہیں۔ پاکستان کے نیوکلیئر پروگرام کے متعلق عالمی سطح پر امریکہ اور یورپی یونین کے ممالک نے اتنا شور مچایا کہ گمان ہونے لگا کہ دنیا ایک چلتے ہوئے ٹائم بم کے اوپر رکھی ہوئی ہے جو کسی بھی وقت پھٹے گا اور دنیا تباہ ہو کر رہ جائے گی۔اس کے علاوہ کہا گیا کہ پاکستان کے ایٹمی ہتھیار عنقریب دہشت گردوں کے قبضے میں چلے جائیں گے اور انگریز صفحہ ہستی سے مٹ جائیں گے۔ یہاں یہ بات واضح رہے کہ آئی ایس آئی پاکستان کے دفاع کی پہلی اور آخری لائن ہے۔ خدانخواستہ اگر آئی ایس آئی کو درمیان سے ہٹا دیا جائے تو نہ آپ کا ایٹم بم محفوظ ہے، نہ آپ کا نظریہ محفوظ رہتا ہے اور نہ ہی آپ کا جغرافیہ اور سرحدی وجود سلامت رہتا ہے۔ آئی ایس آئی پاکستان کے دشمنوں کی جھنجھلاہٹ، گھبراہٹ اور ندامت کی علامت ہے۔ پاکستان کے خلاف حیلے بہانے کرکے نقصان دینے والے عناصر جب اپنے مقاصد میں ناکام ہوتے ہیں تو رخ پاکستان سے ہٹاکر آئی ایس آئی کی طرف موڑ لیا جاتا ہے ۔
ایک عظیم گمنام مارخور کی داستان کیپٹن قدیر شہید ہیرو پاکستانی دوستو کچھ دن پہلے آپ نے سوشل میڈیا پر ایک روڈ ایکسیڈنٹ میں شہید ہونے والے پاک فوج کے کیپٹن کی خبر سنی ہوگی آج آپ کو اس ہیرو کے ایسے سچے کارنامے بتاتا ہوں کہ سن کر حیران ہو جائیں یہ انسان نہی فرشتہ تھا وطن کی مٹی کی محبت میں اس فرشتے نے خود کو مٹی مٹی کر دیا کیپٹن قدیر کا تعلق ایک بہت بڑے زمیندار گھرانے سے تھا خود کیپٹن قدیر 300ایکٹر قابل کاشت آراضی کا زاتی مالک تھا سونا کا چمچمہ منہ میں لیا پیدا ہوا یہ نوجوان جب بڑا ہوا تو وطن عزیز کی حفاظت کیلئے پاک فوج میں بھرتی ہوگیا اس کے رشتے داروں نے اس پر طنز کیا کہ جب روپیہ پیسہ کی گھر میں ریل پیل ہے تو نوکری کرنے کی کیا ضرورت ہے تنخواہ پر نوکر بن رہے ہو یہ سن کر کیپٹن قدیر کا خون جوش مارنے لگا اور چیخ کر کہا فوجی تنخواہ کے لیے بھرتی نہی ہوتا ہے فوجی تو وطن عزیز کی حفاظت کی خاطر بنتے ہیں اور میں اس ملک پر اپنا تن من دھن سب قربان کر دونگا یہی جذبہ لے کر یہ نوجوان فوج میں سیکنڈ لیفٹینٹ بھرتی ہوتا ہے مقابلہ کا امتحان پاس کرکے اور ترقی کرکے کیپٹن بن جاتا ہے اس کا جذبہ دیکھ کر اسے خفیہ ایجنسی ملٹری انٹیلی جینس میں بھیج دیا جاتا ہے جہاں پر مزید اسے بلوچستان خفیہ مشن پر بھیج دیا جاتا ہے اس کے زمہ یہ مشن لگتا ہے کہ بلوچستان میں را کا نیٹ ورک تلاش کرنا ہے اور دہشتگردوں کو ختم کرنا ہے را کے نیٹ ورک کو تلاش کرنے کے لئے مٹی کی محبت میں یہ جنونی انسان جس نے اپنی ساری جوانی نرم گرم بستروں پر گزاری جہاں گھر میں نوکر چاکر کی بھر مار تھی ایک ایک چیز بستر پر نوکر چاکر آرڈر کرکے لے آتے تھے مگر آفرین آفرین اس شیر دل ہیرو کی اپنے دیس کو دشمنوں سے بچانے کے لئے یہ جنونی کوڑا چننے والا بن جاتا ہے اور پورے تین سال یہ جنونی بلوچستان کے مخلتف شہروں میں فقیر بن کر کوڑا چنتے چنتے گزار دیتا ہے اس کا بستر بھی کوڑا کرکٹ کا ڈھیر وہی اس کا کھانا پینا سخت ترین سردیوں میں یہ جنونی ایک انتہائی بدبودار پھٹے پرانے کمبل میں کھلے آسمان تلے گزارتا ہے صرف دیس کی حفاظت کیلئے آخر اس کی محنت رنگ لاتی ہے اور یہ را کے بہت بڑے نیٹ ورک کلبھوشن تک پہنچنے میں کامیاب ہوجاتا ہے جی ہاں دوستو کلبھوشن جیسے مشہور ومعروف دہشتگرد کو پکڑنے کے پیچھے اس جنونی مارخور کی تین سال کی محنت ہوتی ہے اور اس ماہ رمضان کے آغاز میں سلمان نامی دہشت گرد جس کو مارتے مارتے ہمارے کرنل سہیل خود شہید ہوگئے تھے اس کی اطلاع دینے والا بھی یہی مار خور تھا آج بلوچستان میں جو امن وامان قائم ہوا ہے تو اس کے پیچھے اس جنونی نوجوان کا بہت بڑا کردار ہے کیپٹن قدیر کے اتنے بڑے بڑے کارنامے ہیں کہ لکھنے کے لئے کتابیں کم پڑ جائیں میں سوچ رہا ہوں دوستو یہ کیسا انسان تھا 300 ایکڑ اراضی کا مالک شخص کس طرح تین سال کوڑا چننے والا فقیر بنا رہا کس طرح بدبودار کمبل میں اس نے تین سال گزار دیے ایسے لوگ انسان ہرگز نہی ہوسکتے یہ فرشتہ تھا ہم جیسے نام نہاد حب الوطنی کے دعویدار ایک رات بھی کوڑا کرکٹ کے ڈھیر پر نہی گزار سکتے مگر اس شخص نے ہم پاکستانیوں کو سکھ امن دینے کی خاطر اپنے گھر کے نرم گرم بستروں کو لات مار دی اور کچھ نام نہاد فیس بُکی دانشور سارا دن ان فوجیوں کو تنخواہ دار چوکیدار ہونے کے طعنے دیتے ہیں میری فوج کو طعنے دینے والو یہ ایک امیر کبیر شخص تھا دولت اس کے گھر کی لونڈی تھی مگر یہ پاکستان کی خاطر فوجی بنا اور فوجی تنخواہ کے لئے نہی بنتے فوجی تو مجاہد ہوتے ہیں جو وطن عزیز کی خاطر بنتے ہیں شہید کیپٹن قدیر میرے ہیرو میرے پاس تیری تعریف کے لئے الفاظ نہی ہیں تو عظیم ہے ھاں اتنا کہتا ہوں شہید کیپٹن قدیر جیسے مجاہدوں کے مٹی سے اٹے بوٹ چومنا آنکھوں سے لگانا میرے لیے بہت بڑی سعادت کا درجہ رکھتا ہے میرے پیر ومرشد میری فوج ہے میرے شہید ہیں کیپٹن قدیر شہید آپ کے کارنامے تاریخ میں سنہری الفاظ میں لکھے جائیں گے خاص طور پر کلبوھشن کو پکڑنے کے لئے جس طرح تو نے تین سال کوڑا کرکٹ کے ڈھیر پر گزار دیے اے پاک فوج کے شہیدو ہم پاکستانی تمہارے احسان مند ہیں ہم یاد رکھیں گے مت سمجھو ہم نے بھلا دیا شہید تم سے یہ کہ رہے ہیں لہو ہمارا بھلا نہ دینا یہ تحریر لکھتے ہوئے میں نے گھنٹوں لگا دیئے اور بےشمار بار بلک بلک کر روتا رہا بار بار میرے سامنے کیپٹن قدیر کی کوڑا کرکٹ والی تصویر گھومتی رہی مٹی سے اٹے پاؤں میلے کچیلے پھٹے کپڑوں میں بھی اس کی آنکھوں میں ایک چمک ہے چیتے جیسی چمک شہزادہ لگ رہا ہے وطن کی مٹی گواہ رہنا وطن عزیز کی خاطر ہم نے کیسے کیسے خوبصورت شہزادے قربان کیے پاکستانیوں قدر کرو اپنے شہیدوں کی اپنی فوج کو عزت دو اور فوج کے شانہ بشانہ کھڑے ہو جاؤ اگر فوج کے شانہ بشانہ کھڑے نہ ہوئے تو یاد رکھنا داستان تک نہ ہوگی تمہاری داستانوں میں پاک فوج زندہ باد پاکستان ہمیشہ زندہ باد
Monday, 4 June 2018
کالاباغ ڈیم کا تنازعہ او اسکا حل اگر آپ لوگوں کے پاس اس بارے کوئی علم ہو تو شئیر کرے کمنٹ میں یہ پوسٹ صرف جائزے و تبصرے کیلئے ہیں کوئی اس کے حق میں ہیں کوئی نہیں ہمیں بھی پوری طرح پتہ نہیں اگر آپ حق میں ہیں تو دلیل کے ساتھ کمنٹ کرے اور اگر حق میں نہیں تو بھی۔۔ خیر آباد کا وہ مقام جہاں پر دریائے کابل اور دریائے سندھ ملتے هیں، کالا باغ ڈیم اس پوائنٹ سے 92 میل ڈون سٹریم فاصلے پر ہے ـ اس منصوبے کی پی سی ون کے مطابق اس ڈیم میں 105میلن ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش ہوگی ـ علاوہ ازیں اس سے2400میگاواٹ سے لیکر 3600 میگاواٹ تک بجلی بھی حاصل کی جاسکے گی، کالاباغ ڈیم کی جھیل کا کل رقبہ162 مربع میل ہوگا، اس میں 92 میل دریائے سندھ کی طرف، 36میل سواں کی طرف او10 میل دریائے کابل کی طرف ہوگا ـ ماہرین کے مطابق اس سے 1,36000زمین نیچھے آئے گی ـ ایک مختاط اندازے کے مطابق اس سے دو لاکھ افراد بےگھر ہونگے، جس میں ایک لاکھ بیس ہزار کے پی کے اور اسی ہزار پنجاب سے بے گھر ہونگے . کالاباغ ڈیم کی تعمیر کے بعد ایک سال سے لیکر چار سال بعد بھی 60 ہزار ایکڑ مزید زمین سیلاب سے متاثر ہوگی اور بیس دیہات زیرآب آئینگےـ اسکے علاوہ ستر ہزار لوگوں کو دوبارہ بحالی کرنی پڑے گی اور ایک لاکھ 75 ہزار لوگوں کو اپنی مال اور جائیداد کو محفوظ کرنے کی ضرورت پڑے گی ـ پوری دنیا میں بڑے بڑے ڈیموں کا رواج ختم ہو ریا ہے، چھوٹے اور درمیانہ ڈیموں کی تعمیر پر زبردست توجہ دی جا رہی ہے ـ کیونکہ ایک تو یہ دفاعی نوعیت سے محفوظ اور ماحول دوست ہوتے ہیں ـ عالمی بینک اور دوسرے عالمی مالیاتی ایجنسیوں نے ماحولیاتی بگاڑ، لوگوں کی بے گھر ہونے اور قدرتی افات کی وجہ سے قرضے دینے بند کر دیئے ہیں، امریکہ اور دوسرے یورپی ممالک نے بڑے ڈیمز بنانا چھوڑ دیئے اور جو بڑے ڈیم موجود بھی ہے انکو بھی توڑا جا رہا ہےـ عالمی بینک اور دوسرے بڑے بڑے ادارے عالمی برادری کو مجبور کر رہے ہیں کہ بڑے ڈیموں کے بجائے چھوٹے اور درمیانہ ڈیموں کی تعمیر اور متبادل زرائع توانائی کے فروغ پر خصوصی توجہ دی جائیں ـ کالاباغ ڈیم پر ماسوائے پنجاب کے تینوں صوبوں کے تحفظات ہیں ـ اور تینوں صوبائیوں اسمبلیوں میں اس کی مخالفت میں قراردادیں بھی منظور کی ہیں، تو پھر جمہوری اور اخلاقی قدروں کا تقاضا تو یہ ہے کہ اس متنازعہ منصوبے کی تعمیر کو ترک کیا جائے، جہاں تک کے پی کے کے تحفظات ہیں ان کے مطابق کالاباغ ڈیم جس کی اونچائی تقریباً 490 فٹ ہوگی اس سے پچیس کلو میٹر نیشنل ہائی وی پانی میں ڈوب جائے گا ـ اسکے علاوہ چار کلومیٹر مردان نوشہرہ سڑک، پندرہ کیلومیٹر نظام پور اٹک سڑک اور پچیس کلو میٹر پیرسباق جہنگیرہ روڈ پانی میں ڈوب جائے گی، علاوہ ازیں خیر اباد اور نوشہرہ کے درمیان آٹھ کلومیٹر اور نوشہرہ و مردان کے درمیان بارہ کلومیٹر ریل پٹڑی پانی میں ڈوب جائے گی ـ خوشحال گڑ کا پل مکمل پانی میں ڈوب جائے گا اور خیر اباد پل بیس فٹ مزیداونچا تعمیر کرنا پڑے گا، جہانگیرہ روڈ کو پچاس فیصد دوبارہ تعمیر کرنا پڑےگا، نوشہرہ مردان پل کو مزید بارہ فٹ اوپر کرنا پڑے گاـ مردان، جہانگیرہ، نوشہرہ اور اٹک میں ٹیلی کام، بجلی اور گیس کنکشن نئے سرے سے بچھائی جائیںگی ـ مردان، چارسدہ اور صوابی کا ایک لاکھ پچاس ہزار ایکڑ زرخیز زمین جو سکارپ کی مدد سے قابل کاشت بنا دی گئ ہے،اسکو مسقبل میں سیم وتور کی وجہ سے مزید خطرات لاحق ہونگے ـ کالاباغ کی لمبائی 940 فت کریسٹ الیویشن ہے، 1929 اور 1978میں اس علاقے میں جو سیلاب ایا تھا اسکی اونچائی بالترتیب 951اور فٹ تھی، ڈاکٹر کنیڈی کے رپورت کی مطابق اگر ماضی کی طرح سیلاب اتا ہے تو اس سے نہ صرف چارسدہ، مردان، جہنگیرہ اور صوابی بلکہ پشاور ویلی اور کئ علاقے بھی پانی میں ڈوب جائیں گے، بلکہ یہ سیلابی پانی کالا باغ ڈیم کی جھیل سے بھی اونچا ہوگا، اسکے علاوہ اس کو غازی بروتھا کو بھی شدید نقصان پہنچ سکتا ہے، پانی کے بیک پریشر کی وجہ سےمردان، صوابی، چارسدہ اور سکارپ جس پر تربیلا ڈیم کی وجہ سے اربوں روپے خرچ کئے گئے ہیں، یہ منصوبہ قطعی طور پر ناکام ہوگا، اس ڈیم کی بنے کی وجہ سے پانی زمین میں جذب ہوگا جس سےپرانی اور جدید عمارتیں تباہ ہو جائیں گے کیونکہ کالاباغ ڈیم کی تعمیر کے بعد، نوشہرہ، مردان، صوابی، جہانگیرہ، چارسدہ اور پشاورمیں پانی ان عمارتوں کے بنیادوں میں چلا جائے گا،کرک اور مضافاتی علاقوں میں ڈیم کی وجہ سے پانی نمکین ہوجائے گا، جو پینے کی قطعاً قابل نہ ہوگا، یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ یہ ڈیم نہ صرف زلزلہ والے علاقے میں موجود ہے بلکہ یہ میاں والی، کالاباغ، کھیوڑہ اور کوہاٹ کا علاقہ سالٹ رینج میں بھی واقع ہے جس سےڈیم کو مزید نقصان پہنچ سکتا ہے۔ بلوچستان اور سندھ کے تحفظات !!! جہاں تک بلوچستان کی تحفظات کا تعلق ہے تو اس کا کہنا ہے کہ اگر کالاباغ ڈیم بن گیا تو اسے بلوچستان کی پانی میں مزید کمی ہوگی ـ بلوچستان گدو اور پٹ فیڈر سے 3400 کیوسک پانی لے رہا ہے جو تین لاکھ ایکڑ زمین سیراب کر رہا ہے ـ اگر کالاباغ ڈیم بن گیا تو اس سے بلوچستان کے پانی میں مزید کمیِ واقع ہوگی، کیونکہ دریائے سندھ کے استعداد میں کمی اجائے گی جس سے بلوچستان کو مستقبل میں ضرورت پورہ کرنے کےلئے پانی میسر نہیں ہوگا، اسکے علاوہ صوبہ بلوچستان کی قیادت کا کہنا ہے کہ جب تینوں صوبوں نے اس ڈیم کی مخالفت کی ہے تو پنجاب کیوں چہوٹوں صوبوں پر زبردستی اپنی مرضی ٹونسنا چاہتا ہے، جبکہ سندھ کا کہنا ہے کہ کے پی کے تو سیلاب کی تباہ کاریوں سے تباہ ہو جائے گا بلکہ صوبہ سندھ پانی کی کمی کی وجہ سے انتہائی نامساعد حالات کا سامنا کرے گا ـ نمکین پانی دریائے سندھ میں داخل ہونگے جس سے بیماریوں میں اضافہ ہوگا ، فصلون کو نقصان پہنچے گا اور زمین بنجر ہو جائے گا ـ ملک کے نامی گرامی ہائیڈرالوجسٹ ڈاکٹر اقبال علی کا کہنا ہے کہ جب زمین میں نمک کی مقدار ڈھائی فیصد ہوتی ہے تو اس سے زمین کی پیدوار متاثر ہوتی ہے جب زمین میں نمکیات کی مقدار 6 فیصد تک ہوتی ہے تو اسی زمین میں حیات ناممکن ہوتا ہے، اس سے صوبہ سندھ کا 270 ملین ایکڑ زمین سیم و تور سے ناقابل کاشت ہو جائیے گی، ان کا یہ بھی خیال ہے کہ جب چناب اور جہلم میں پانی کم ہوگا تو اس سے سندھ متاثر ہوگا ـ ماہرین کہتے ہیں کہ متنازعہ ڈیموں کو نہ بنایا جائے بلکہ پانی کا صحیح استعمال کرنا چاہئے، کیونکہ کالاباغ ڈیم کے بنے کے بعد ہم تیس سے چالیس فیصد پانی ضائع کرتے رہیں گے، ماہرین یہ بھی کہتے ہیں کہ ہم کس طرح چاہے اس ڈیم کی ڈیزائن میں تبدیلی کریں مگر یہ منصوبہ ملک و قوم کی عظیم مفاد میں نہیں، اگرملک میں ایک لاکھ میگاواٹ پانی سے بجلی پیدا کرنے کی، پچاس ہزار میگاواٹ ہوا سے بجلی پیدا کرنے کی، بائیو گیس سے گھریلو سطح پر پچھتر فیصد توانائی کی ضرورت پورا کرنے کی صلاحیت ہے تو پھر اس متنازعہ ڈیم کی تعمیر پر زور کیوں دیا جا رہا ہے؟ Copied
اس کو پیسوں کی ضرورت تھی اور مجھے اس کے جسم کی ، میرے اندر کا شیطان پوری طرح جاگ چکا تھا جب میں کمرے میں اس کے پیچھے داخل ہوا وہ برقعہ پہن رہی تھی مجھے اس کا مجرا دیکھتے ہوئے مسلسل دسواں دن تھا۔ کیا غضب کی نئی چیز ہیرا منڈی میں آئی تھی۔ اس کا نام بلبل تھا۔ جب وہ ناچتی اور تھرکتی تھی تو جیسے سب تماش بین محو ہو جاتے۔ روزانہ اس کو ناچتا دیکھ کے میری شیطانی ہوس مزید پیاسی ہوتی جاتی اور میں نے فیصلہ کر لیا کہ اس سے ضرور ملوں گا۔ میں ہر قیمت پر اسے حاصل کرنا چاہتا تھا۔اس دن مجرا کے دوران وہ بجھی بجھی سی دکھائی دے رہی تھی ۔ اس کے ناچ میں وہ روانی بھی نہیں تھی لیکن مجھے اس سے ملنا تھا، بات کرنی تھی اور معاملات طے کرنے تھے۔ مجرے کے اختتام پہ جب سب تماش بین چلے گئے تو میں بھی اٹھا۔ وہ کوٹھے کی بالکنی میں اپنی نائیکہ کے ساتھ کسی بات پر الجھ رہی تھی۔ دروازہ کے تھوڑا سا قریب ہوا تو میں نے سنا کہ وہ اس سے رو رو کر کچھ مزید رقم کا مطالبہ کر رہی تھی۔ مگر نائیکہ اسکو دھتکار رہی تھی اور آخر میں غصے میں وہ بلبل کو اگلے دن وقت پہ آنے کا کہ کر وہاں سے بڑبڑاتی ہوئی نکل گئی۔بلبل کو پیسوں کی اشد ضرورت ہے، یہ جان کے میرے اندر خوشی کی اک لہر دوڑ گئی۔ چہرے پر شیطانی مسکراہٹ پھیل گئی کہ وہ ضرورت پوری کر کے میں اس کے ساتھ جو چاہے کر سکتا ہوں۔ میں اس کی جانب بڑھا، اس کا چہرہ دوسری طرف تھا اور وہ برقعہ پہن رہی تھی۔ پاس جا کر جب میں نے اسے پکارا تو وہ میری طرف مڑی۔ اسکا چہرہ آنسووں سے تر اور برف کی مانند ایسے سفید تھا جیسے کسی نے اس کا سارا خون نکال لیا ہو۔ اس کی یہ حالت دیکھ کر میں چکرا سا گیا اور اس سے پوچھا کہ کیا ہوا ہے؟ وہ ایسے کیوں رو رہی ہے؟ میری طرف دیکھتے ہوئے وہ چند لمحے خاموش رہی اور میرے دوبارہ پوچھنے پر گھٹی گھٹی آواز میں بولی “ماں مر گئی۔” “کیا؟” جب مجھے اسکی سمجھ نہیں آئی تو وہ بے اختیار روتے ہوئے دوبارہ بولی کہ “آج میری ماں مر گئی۔” اس جواب سے جیسے میرے منہ کو تالا لگ گیا۔ میری شیطانی ہوس، جس کو پورا کرنے کے لیے میں اس کی جانب آیا تھا، مجھ سے میلوں دور بھاگ گئی۔ “تو تم یہاں کیا کر رہی ہو؟” میں نے غصے اور حیرت سے اس سے پوچھا۔ ” کفن دفن کے پیسے نہیں ہیں میرے پاس۔ اس لئے میں مجرا کرنے آئی تھی۔ مگر نائیکہ آج پیسے ہی نہیں دے رہی۔ کہتی ہے بہت مندی ہے۔ تماش بین کوٹھے پر نہیں آتے۔ جو آتے ہیں وہ پہلے کی طرح کچھ لٹاتے نہیں۔ وہ کہہ رہی ہے کہ ایدھی والوں سے اپنی ماں کے کفن دفن کا انتظام کروا لو۔” اتنا کہہ کے وہ برقعہ پہن کر کوٹھے سے باہر نکل آئی۔ میں بھی اسکے پیچھے چل پڑا،”میں تمھاری ماں کے کفن و دفن کا بندوبست کرتا ہوں۔” وہ چند لمحے مجھے مشکوک نظروں سے دیکھتی رہی اور پھر خاموشی سے میرے ساتھ بیٹھ گئی۔ گاڑی ٹیکسالی سے باہر نکالتے ہوئے میں نے بلبل سے اس کے گھر کا پتہ پوچھا۔ وہ علاقہ میرے لیے نیا نہیں تھا کئی بار میں وہاں سے گزرا ہوا تھا۔ میں نے گاڑی اس طرف موڑ دی۔ سارا راستہ وہ خاموشی سے روتی رہی۔ میرے پاس اسکو تسلی دینے کے لیے الفاظ بھی نہیں تھے۔کچھ دیر میں ہم بلبل کے گھر پہنچ گئے۔ یہ چھوٹا سا ایک کمرے کا گھر تھا۔ صحن کے بیچ میں چارپائی پر اسکی ماں کی لاش ایک گدلے کمبل میں لپٹی پڑی تھی۔ صحن میں بلب کی پیلی روشنی وہاں بسنے والوں اور گھر کی حالت چیخ چیخ کر عیاں کر رہی تھی۔ چارپائی کے پاس دو بوڑھی عورتیں بیٹھی تھی ۔ ایک کی گود میں سات آٹھ ماہ کا بڑا گول مٹول اور پیارا سا بچہ کھیل رہا تھا۔ آدھی رات ہونے کو آئی تھی۔ جیسے ہی بلبل گھر میں داخل ہوئی، وہ بوڑھی عورتیں بچہ اسے سونپتے اور دیر آنے کی وجہ سے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے وہاں سے رخصت ہو گئیں۔ بلبل بچے کو لے کر کمرے کی طرف گئی۔ بچہ بہت بے قرار تھا اور پھر وہ اسکی چھاتی سے لپٹ گیا جیسے صبح سے بھوکا ہو۔ “کیا یہ بلبل کا بچہ ہے؟” یہ ایک نیا انکشاف تھا کہ بلبل شادی شدہ بھی ہے۔چند لمحوں بعد وہ کمرے سے باہر آئی مجھے یونہی کھڑا دیکھ کر پھر کمرے میں گئی اور اک پرانی کرسی اٹھا لائی۔ “سیٹھ جی! معذرت۔ میرے گھر میں آپ کو بیٹھانے کے لیے کوئی چیز نہیں ہے۔” وہ کرسی رکھتے ہوئے شرمندگی سے بولی۔میں سر ہلاتے ہوئے اس کرسی پر بیٹھ گیا۔ کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہاں سے شروع کروں۔ “تمھارا اصل نام کیا ہے بلبل؟” بالآخر میں نے اس سے پوچھا ۔وہ چپ رہی شاید بتانا نہیں چاہ رہی تھی افشاں”۔ میرے دوبارہ پوچھنے پر اس نے آہستہ سے کہا۔ ” بہت افسوس ہوا تمھاری ماں کی وفات کا۔” وہ خاموش رہی۔ “تمھارا باپ، بھائی کوئی ہے ؟” اس نے خاموشی سے “نہیں” میں سر ہلایا۔ “یہ بچہ تمھارا ہے ؟” اس نے پھر خاموشی سے “ہاں “میں سر ہلایا۔ “تمھارا شوہر کہاں ہے؟” چند لمحوں بعد وہ بولی “چھوڑ گیا۔” “تم ہیرا منڈی کیسے گئی تم مجھے ناچنے گانے والی تو نہیں لگتی؟” اب وہ نظریں اٹھا کر مجھے دیکھتی ہوئی بولی، “سیٹھ جی قسمت وہاں لے گئی۔ گھر میں کوئی مرد نہیں تھا۔ ایک بیمار ماں اور بچے کی ذمہ داری تھی۔ کہیں اور کام نہیں ملا تو ناچاہتے ہوئے بھی مجبورا”یہ راستہ اختیار کرنا پڑا۔ کچھ عرصے تک نائیکہ نے ناچ گانا سکھایا اور پھر دھندے پر بیٹھا دیا۔۔ وہ مجھے مجرا کرنے کے روزانہ دو سو روپے دیتی ہے اور ساتھ میں تماش بینوں کا بچا کھچا کھانا، جو میں گھر لا کے اپنی ماں کو کھلاتی ہوں اور خود بھی کھاتی ہوں۔ برقعے میں آتی جاتی ہوں جس سے محلے میں کسی کو پتہ نہیں چلتا اور اک بھرم قائم ہے۔ سیٹھ جی، ایسی کتنی ہی بے سہارا گمنام لڑکیاں معاشی حالات کے ہاتھوں مجبور ہو کر ان کوٹھوں پر ناچنے پر مجبور ہیں۔ آپ لوگوں کو کیا پتہ وہ کتنی مجبور ہو کر یہ قدم اٹھاتی ہیں ۔ کوئی لڑکی اپنی خوشی سے یوں سب کے سامنے اپنا جسم، اپنی عزت نیلام نہیں کرتی۔ جو لڑکیاں اک بار اس دلدل میں گر پڑتی ہیں پھر وہ دھنستی ہی چلی جاتی ہیں ۔ اور پھر اس میں ہمیشہ کے لیے ڈوب جاتی ہیں۔” یہ سب کچھ بتاتے ہوئے افشاں کے لہجے میں بے بسی اور بے چارگی تھی جیسے وہ کسی ناکردہ گناہوں کی سزا کاٹ رہی ہو۔میں کچھ دیر اس کے چہرے کو دیکھتا رہا۔ پھر پرس سے چند نوٹ نکالے اور اسکے ہاتھ میں تھماتے ہوئے بولا “کل اپنی ماں کی تدفین کروا لینا اور بچے کے لیے کچھ خوارک اور گھر کے لیے راشن پانی لے لینا۔” وہ اتنے سارے نوٹ ایک ساتھ دیکھ کر حیران ہو گئی۔ “کیا ہوا؟” میں نے اس کو یوں چپ دیکھتے ہوئے پوچھا۔ “سیٹھ جی مجھے ان روپوں کے بدلے کیا کرنا ہو گا؟” وہ ڈرتے ڈرتے پوچھ رہی تھی۔ شاید یہ سوچ رہی تھی کہ ان نوٹوں کے بدلے سیٹھ پتہ نہیں کب تک اس کا جسم نوچے گا؟ کب تک اس کو سیٹھ کی رکھیل بن کر رہنا پڑے گا؟ اس کی بات سن کر مجھے اپنے آپ سے اتنی نفرت ہوئی کہ میں خواہش کرنے لگا کہ زمین پھٹ جائے اور میں اس میں سما جاؤں۔ مجھے احساس ہوا کہ میں ذلت اور اپنے کردار کی پستی کی آخری حد کو چھو رہا تھا۔ میں اس بے حس معاشرہ میں ایک تنہا اور بے سہارا لڑکی کی مدد کر رہا تھا مگر وہ اس کو بھی ایک ڈیل کے طور پر سمجھ رہی تھی۔ شاید جہاں سے میں اٹھ کر آیا تھا وہاں پر جانے والے لوگوں سے بغیر کسی وجہ کے مدد کی توقع نہیں کی جاتی۔ میں نے لرزتی آواز میں جواب دیا، “تمھیں کچھ نہیں کرنا پڑے گا۔ اور تم اب کوٹھے پر مجرا کرنے نہیں جاؤ گی۔ اپنے گھر میں رہو گی۔ ہر مہینے تمھیں منی آرڈر مل جایا کرے گا۔ تم نے کرنا بس یہ ہے کہ یہ جو بچہ تمھاری گود میں ہے اس کی تربیت ایسے کرو کہ یہ اک دن بڑا ہو کر تمھارا سہارا بن سکے ۔ یہ جو رقم میں بجھواؤں گا یہ تم پر قرض ہے اور جب تمھارا بیٹا جوان ہو جائے گا، ایک قابل انسان بن جائے گا تو تم مجھے واپس کر دینا۔افشاں حیران پریشان کھڑی مجھے دیکھ رہی تھی۔ اس انسان کو جس کے سامنے ابھی وہ ناچ کر آئی تھی وہ اس سے ایسی باتیں کر رہا تھا۔ پھر وہ بے آواز رو پڑی۔ مجھے سے وہاں رکا نہیں گیا۔ میں نے افشاں کے گھر کا پتہ لیا اور اس کو اپنا کیا وعدہ یاد دلا کر وہاں سے رخصت ہو گیا۔ سارے راستے میں یہی سوچتا رہا۔ “مجھے تم سے کچھ نہیں چاہے۔ مجھے تم سے کچھ نہیں چاہئے افشاں۔جو تم نے مجھے دیا ہے میں اس کا احسان ساری عمر نہیں اتار پاؤں گا۔ تم نے مجھ میں دفن اس انسانیت کو جگا دیا جو میں دولت اور شیطانی ہوس کے نیچے دبا کر مار چکا تھا۔ تم نے مجھے پھر سے انسان بنایا ہے افشاں۔”اس واقعے کے بعد میں ان تمام برے کاموں سے توبہ کر کے اس کی بارگاہ میں گناہوں کا بوجھ لیے حاضر ہوا۔ ہر روز اس کے سامنے اپنے گناہوں کا اعتراف کرتا، اس سے معافی کی درخواست کرتا۔میں باقاعدگی سے ہر ماہ “افشاں” کو منی آڈر بجھواتا رہا۔ کئی دفعہ دل کیا میں اس مسیحا کو مل کر آؤں جس کی وجہ سے مجھے ان تمام گناہوں اور بدکاریوں سے نجات ملی۔ مگر ہر دفعہ اک شرمندگی آڑے آتی رہی کہ کبھی میں اپنی شیطانی ہوس کے لیے اس کا پیاسا تھا۔ اور پھر وقت گزرتا چلا گیا دن مہینوں میں بدلنے لگے اور مہینے سالوں میں تبدیل ہوتے گئے۔ مگر میں افشاں کو بھولا نہیں تھا۔ وہ بھی میری طرح بوڑھی ہو گئی ہو گی۔ اور اس کا بیٹا بھی جوان ہو گیا ہو گا۔ پتہ نہیں کسی قابل بنا ہو گا۔ اپنی ماں کا سہارا بنا ہو گا کہ نہیں؟ میرے بچے جوان ہو گئے تھے۔ زندگی اتار چڑھاؤ کے ساتھ مسلسل چل رہی تھی۔ ایک شام چھٹی کے دن جب میں اپنے گھر میں موجود تھا تو ملازم نے آکر مجھے بتایا کہ ایک عورت اور اسکے ساتھ ایک جوان لڑکا آپ سے ملنے آئے ہیں۔ “کون ہیں؟” “معلوم نہیں صاحب پہلی بار ان کو دیکھا ہے۔” ملازم نے مودبانہ لہجے میں جواب دیا۔ “اچھا انہیں ڈرائینگ روم میں بٹھاؤ میں آرہا ہوں۔” کون ہو سکتا ہے یہی سوچتے ہوئے میں ڈرائینگ روم کی طرف بڑھا۔ ایک عورت پرنور چہرہ کے ساتھ سفید بڑی چادر میں خود کو چھپائے ہوئے ہاتھ میں ایک پرانی سی ڈائری لیے کھڑی تھی۔ اور اس کے ساتھ اچھے کپڑوں میں ملبوس ایک بڑا ہینڈسم نوجوان کھڑا تھا۔ اس لڑکے کو میں جانتا تھا وہ ہمارے علاقے کا نیا ڈی ایس پی احمد تھا۔ “سلام سیٹھ جی میں افشاں ہوں اور یہ میرا بیٹا احمد ۔” جونہی اس نے افشاں کا نام لیا میرے ذہن میں اسکا ماضی کا چہرہ گھوم گیا۔ اور پھر مجھے پہچاننے میں دیر نہیں لگی کہ وہ افشاں تھی۔” آپ مجھے پہچان گئے ناں؟” میں نے سر ہلاتے ہوئے “ہاں” میں جواب دیا اور ان کو بیٹھنے کا اشارہ کیا۔افشاں پھر اپنے بیٹے سے مخاطب ہو کر بولی۔ “احمد بیٹا یہی ہیں میرے مسیحا جن کی بدولت تمھاری ماں گندگی کی دلدل میں گرتے گرتے نکلی اور یہی ہیں جو تمھاری پڑھائی کا تمھیں یہاں اس مقام تک لانے کا ذریعہ ہیں ۔” ” میں انکو جانتا ہوں امی جان ان کا شمار علاقے کے معزز ترین افراد میں ہوتا ہے ۔ مگر میں یہ نہیں جانتا تھا کہ مجھے اس مقام پر لانے میں انکا کردار سب سے اہم ہے۔” “سیٹھ صاحب جس طرح آپ ہم بے سہارا اور بے کس لوگوں کی زندگی میں مسیحا بن کر آئے . اس کا احسان ہم کبھی نہیں بھولیں گے ۔” احمد بڑی مشکور نظروں سے دیکھتا ہوا بڑی عاجزی سے بول رہا تھا۔ “ایسے کہہ کر آپ لوگ مجھے شرمندہ مت کریں۔” میں نے افشاں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ آج اسکو پکارتے ہوئے بے اختیار میرے منہ سے افشاں بہن نکل گیا۔ میں خود حیران تھا مگر یہ سچ تھا۔افشاں صوفے سے اٹھی اور آگے بڑھ کر پرانی سی ڈائری مجھے تھماتے ہوئے کہنے لگی، “سیٹھ جی اس میں وہ تمام حساب درج ہے ۔۔ میری ماں کی تدفین سے لے کر آپ کے آخری منی آڈر تک۔ میں نے اک اک پائی کا حساب رکھا۔ آپ کے دیے پیسوں کا امانت کے طور پر استعمال کیا۔ اپنے بیٹے کو ایک قابل انسان بنایا۔ آپ نے مجھے بائیس سال پہلے کہا تھا کہ یہ قرض ہے اور یہ تب واپس کرنا جب تمھارا بیٹا ایک قابل انسان بن جائے۔” کچھ لمحے خاموش رہنے کے بعد افشاں پھر سے بولی، “سیٹھ جی آج وہ وقت آگیا ہے۔ میں آپ کے احسانوں کا بوجھ تو میں نہیں اتار سکتی مگر جو پیسے آپ نے مجھے دئیے تھے میرا بیٹا وہ ضرور اتارے گا۔ اور آپ سے درخواست ہے آپ انکار مت کریں۔”میں افشاں کو بڑی تحسین نظروں سے دیکھ رہا تھا۔ آخر اس نے وہ کر ہی دکھایا۔ یقیناً قول و قرار کو نبھانا، وعدہ پر قائم رہنا اک اچھے کردار کے حامل انسان کی بڑی نشانی ہے۔ یہ سب سن کر میرے دل میں اسکی عزت اور احترام اور بڑھ گیا۔ “میں نے تم کو بہن کہا ہے افشاں بہن۔ اور میں کیسے تم سے یہ پیسے واپس لے سکتا ہوں۔ مجھے یوں شرمندہ مت کرو۔” میرے رکے رکے الفاظ میں پیسے نہ لینے کی معذرت چھپی تھی۔ مگر وہ بضد تھی۔ مجھے اس کے سامنے ہار ماننا پڑی اور وہ تمام پیسے جو میں اسکو منی آڈر کی صورت میں بھیجتا تھا . اس کو واپس لینے کی حامی بھرنی پڑی۔ پھر وہ دونوں مجھے اپنے نئے گھر کا پتہ دے کر اور آنے کی تاکید کر کے وہاں سے چلے گئے۔ “ارم میں نے تمہیں کسی سے ملوانا ہے میرے ساتھ چلو گی۔؟ ” شام کو میں نے اپنی بیگم سے کہا۔ “کیوں نہیں چلوں گی۔ مگر کون ہے؟ اور کس سلسلے میں ملنا ہے؟” بیگم نے سوالوں کی بوچھاڑ کر دی۔ “میں نے روبی بیٹی کے لیے ایک لڑکا پسند کیا ہے ۔ تم مل لو اگر تم کو پسند آجائے تو پھر اس کے بعد روبی سے بات کر لینا۔” میں نے مختصر لفظوں میں اسے وجہ بتائی۔ اگلے دن میں اور میری بیگم ارم ناز افشاں کے گھر میں تھے۔ ارم کو بھی احمد بہت پسند آیا۔ ہم نے پھر افشاں سے احمد اور روبی کے رشتے کی بات کی۔ افشاں کو بھلا اس سے کیا اعتراض ہو سکتا تھا۔ وہ پھولے سے نہیں سما رہی تھی۔ اور یوں میری بیٹی کا رشتہ افشاں کے بیٹے احمد سے طے ہو گیا۔ وہ تعلق جو اک طوائف اور تماش بین جیسے گندے رشتے سے شروع ہوا تھا اس کا اختتام ایک نہایت مہذب رشتے کی شکل میں ہوا۔یہ سچ ہے کہ ہر انسان کو قدرت سدھرنے کا موقعہ ضرور دیتی ہے۔ کبھی گندگی کے ڈھیر سے اس کو ایسا سبق سیکھا دیتی ہے، کبھی دو بھٹکے لوگوں ملا کر سیدھے راہ پر لے آتی ہے اور انسان ساری زندگی اسی کے مطابق گزارنے کو فخر محسوس کرتا ہے۔ کبھی وہ طوائف اور میں تماش بین تھا۔ مگر آج وہ میری منہ بولی بہن اور اس کا بیٹا میری بیٹی کا شوہر ہے۔ اور مجھے ان دونوں رشتوں پر فخر ہے۔۔
Subscribe to:
Posts (Atom)